ھمارے ارد گرد روزانہ ارد گرد کتنے ھی واقعات رونما ھوتے رھتے ھیں جن کو ھم لوگ نوٹس نھیں کرتے جبکہ ضرورت اس امر کی ھے کہ ھم ان کو عبرت کی آنکھ سے دیکھیں
آپ سے درخواست ھے اس بلاگ پر ذیادہ سے ذیادہ سچے واقعات شیئر کریں چاھے اسکا پس منظر تاریخی ھو یا پھر وہ آج کا ھی واقع کیوں نہ ھو۔آپ جگ بیتی یا آپ بیتی بھی شئیر کرسکتے ھیں۔آپ جھان کھیں سنتے دیکھتے ھیں یا پڑھتے ھیں یا کسی بھی ویب سایئٹ پر پڑھتے ھیں اسکا حوالہ ضرور دیں
معاشرے میں ارد گرد کئی بکھری پڑی کھانیاں ھیں
جن پر ھم غوروفکر ھی نھیں کرتے۔آپ کاغذ قلم پکڑ کر لکھیے جیسا بھی ھو اس کو بس
تحریر کردیں ۔ان روزمرّہ واقعات میں بھت سارے اسباق پنھاں ھوتے ھیں جو معاشرے کے
اھل فکر ونظر کے لئے فکر کا سامان ھوتے ھیں شائد آپ کے لکھے ھوئے الفاظ اور
کھانیوں سے کوئی عبرت حاصل کرسکتا ھے۔ھو سکتا .
ہر انسان کی زندگی واقعات کا مجموعہ ہوتی ہے . واقعات تلخ بھی ہو سکتے ہیں اور حسین و دلکش بھی ہو سکتے ہیں. انہی واقعیات کی یادیں انسان کی زندگی کا سرمایہ ہوتی ہیں جنہیں انسان تحفہ حیات سمجھ کر سینے سے لگاے رکھتا ہے.ان سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہئے
ھے کہ آپ کی شیئر کی گئی کھانی کسی کی ذندگی بدل دے
ہر انسان کی زندگی واقعات کا مجموعہ ہوتی ہے . واقعات تلخ بھی ہو سکتے ہیں اور حسین و دلکش بھی ہو سکتے ہیں. انہی واقعیات کی یادیں انسان کی زندگی کا سرمایہ ہوتی ہیں جنہیں انسان تحفہ حیات سمجھ کر سینے سے لگاے رکھتا ہے.ان سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہئے
ھے کہ آپ کی شیئر کی گئی کھانی کسی کی ذندگی بدل دے
آپ تاریخی اور موجودہ واقعات پر بھی لکھ کر بھیج
سکتے ھیں۔
سچے واقعات
|
عصر حاضر کےسچے واقعات
|
مکافات عمل
|
آپ بیتیاں
|
جگ بیتیاں
|
ذاتی روحانی واقعات
|
عبرت آموز واقعات
|
اللہ کی پکڑ کے واقعات
|
ناقابل فراموش واقعات
|
ناقابل یقین واقعات
|
ذاتی واقعات
|
قبر کے واقعات
|
قلبی واردات
|
ذاتی روحانی تجربات
|
بکھری کھانیاں
|
سچی
کھانیاں
|
||||
آپ درج بالا کیٹاگریز پر لکھ کر بھیج سکتے ھیں یا
کم ازکم اس کھانی واقعے کا لنک بھیج سکتے ھیں
Send on the following email
اپنی کھانی اس ای میل پر بھیجیں
meritehreer 786@gmail.com
محاسن اسلام پڑھنے کے دنیاوی اثرات
ایک صاحب نے بتایا کہ محاسن اسلام پڑھنے کے بعد میری اللہ سے لو بڑھ گئی ھےایک شخص نے کھا کہ یہ رسالہ پڑھنے کے بعد اللہ سے بھت دعائیں مانگتا ھوں اور یہ کہ اب اپنے گناھوں پر روتا ھوں
محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات
ایک دفعہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ”اللہ کی قسم ! آپ مجھے اپنی جان کے علاوہ دنیاکی ہرچیز سے زیادہ عزیز اورمحبوب ہیں۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اے عمر! جب تک تم مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب نہیں جانوگے اس وقت تک تم سچے مسلمان نہیں ہوسکتے۔ “
تب ” عمررضی اللہ عنہنے فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایاہے اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز اورمحبوب ہیں۔ “
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” عمر !اب جبکہ تم نے مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب سمجھاہے تو اب تمہاراایمان کامل ہوگیا۔ “ (بخاری ۔حدیث نمبر6632)
کھجور کا تنا رونے لگا : مسجد نبوی کی چھت کھجور کے تنوں پر بنائی گئی تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دیتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک تنے کے سہارے کھڑے ہوجاتے تھے ، کبھی کبھی خطبہ لمبا ہوجاتاتھا،اس لیے ایک انصاری عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سہولت کے لیے کہاکہ (اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک منبر بنوادیں ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انصاری عورت کی بات مان لی تو اس عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جھا ؤ کے درخت سے تین سیڑھیوں والاایک منبر تیارکروادیا، جمعہ کادن آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تنے کے بجائے منبر کی طرف تشریف لے گئے ۔ وہ تنا غم فراق سے رونے لگا۔
صحیح بخاری میں جابر بن عبد اللہرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ کے وقت ایک درخت یا کھجور کے تنے کے پاس کھڑے ہوتے تھے۔ ایک انصاری نے پیش کش کی : اے اللہ کے رسول !کیاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک منبر نہ بنادیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جیسے تمہاری مرضی
انصاری عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک منبر بنوا دیا۔ جمعہ کا دن آیاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرماہوئے تو وہ تنا بچے کی طرح چیخ چیخ کررونے لگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے اوراس تنے کو آغوش میں لے لیاتووہ اس بچے کی طرح ہچکیاں لینے لگاجسے بہلا کر چپ کرایاجارہاہو ۔ تنے کارونا ، فراق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورذکر اللہ سے محرومی کی بناپر تھاجسے وہ پہلے قریب سے سنا کرتاتھا۔(بخاری :2095)
مذکورہ احادیث سے پتہ چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے بغیر ہمارے ایمان کی تکمیل ممکن نہیں ہے ۔لفظ حب ، محبت اور اس طرح کے الفاظ صرف شہوانی خواہشات اوربرے معنوں میں نہیں آتے بلکہ اصلاً یہ اعلی و پاکیزہ معانی کی ترجمانی کرتے ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام سے محبت رکھتے تھے توصحابہ کرام بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا برتا ؤ کرتے تھے۔اس طرح کے واقعات سیرت نبوی کی کتابوں میں بھرے پڑے ہیں جن کی نظیر تاریخ میں ملنی ناممکن ہے ۔
آج محبت کا لفظ صرف خاص معنی میں استعمال ہوتاہے کہ محبت کے اندر شہوانی پہلو پایاجائے جبکہ محبت ایک پاکیزہ اورجامع لفظ ہے ،اس کے اندر سب سے اہم پہلو اللہ اور رسول سے محبت کاہے ، اللہ اور رسول کی محبت کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔
موجودہ دور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخیوں کے واقعات رونماہوتے رہتے ہیں۔لیکن رد عمل کے سلسلے میں جوباتیں آتی ہیں اس کی کئی قسمیں ہیں۔ایک تو مثبت ردعمل ہے اوردسرامنفی۔
سیرت کی کتابوں میں ایک واقعہ ہے کہ ابوعبیدہ بن الجراح غزوہ احد کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے خود کڑیاں اپنے دانتوں سے نکال رہے تھے، اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منھ میں خون بھی بھرآیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اسے تھوک دو ، لیکن وہ پی گئے اور کہا کہ میراپیٹ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کا زمین سے زیادہ مستحق ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سن کر عمررضی اللہ عنہ کا ردعمل:جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفا ت کی خبر عمررضی اللہ عنہ کو پہونچی تو وہ اپنی تلوار کھینچ کر کھڑے ہوگئے اور بلند آواز سے کہنے لگے: منافقوں کے چند لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرماگئے ، حالانکہ وہ فوت نہیں ہوئے ۔ وہ اپنے رب کے پاس اس طرح گئے ہیں جس طرح موسی علیہ السلام گئے تھے۔ وہ ضرور واپس آئیں گے اور لوگوں کے ہاتھ اور پا ؤں کاٹیں گے۔ عمرفاروق رضی اللہ عنہ جوش وجذبہ میں اس طرح کی باتیں کہہ رہے تھے کہ ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ آگئے ، صورتحال جاننے کے بعد علٰیحدہ کھڑے ہوگئے اورفرمایا:”اگر تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پوچتے تھے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو فوت ہوگئے ، اور اگرتم اللہ تعالی کی پرستش کرتے تھے تو اللہ تعالی بے شک زندہ ہے اور وہ کبھی نہیں مرے گا “ پھر ابوبکرصدیقؓ نے قرآن کی یہ آیت پڑھی وما محمد الا رسول قدخلت من قبلہ الرسل…. توسب لوگ پرسکون ہوگئے ۔
تب ” عمررضی اللہ عنہنے فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایاہے اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز اورمحبوب ہیں۔ “
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” عمر !اب جبکہ تم نے مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب سمجھاہے تو اب تمہاراایمان کامل ہوگیا۔ “ (بخاری ۔حدیث نمبر6632)
کھجور کا تنا رونے لگا : مسجد نبوی کی چھت کھجور کے تنوں پر بنائی گئی تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دیتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک تنے کے سہارے کھڑے ہوجاتے تھے ، کبھی کبھی خطبہ لمبا ہوجاتاتھا،اس لیے ایک انصاری عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سہولت کے لیے کہاکہ (اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک منبر بنوادیں ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انصاری عورت کی بات مان لی تو اس عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جھا ؤ کے درخت سے تین سیڑھیوں والاایک منبر تیارکروادیا، جمعہ کادن آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تنے کے بجائے منبر کی طرف تشریف لے گئے ۔ وہ تنا غم فراق سے رونے لگا۔
صحیح بخاری میں جابر بن عبد اللہرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ کے وقت ایک درخت یا کھجور کے تنے کے پاس کھڑے ہوتے تھے۔ ایک انصاری نے پیش کش کی : اے اللہ کے رسول !کیاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک منبر نہ بنادیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جیسے تمہاری مرضی
انصاری عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک منبر بنوا دیا۔ جمعہ کا دن آیاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرماہوئے تو وہ تنا بچے کی طرح چیخ چیخ کررونے لگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے اوراس تنے کو آغوش میں لے لیاتووہ اس بچے کی طرح ہچکیاں لینے لگاجسے بہلا کر چپ کرایاجارہاہو ۔ تنے کارونا ، فراق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورذکر اللہ سے محرومی کی بناپر تھاجسے وہ پہلے قریب سے سنا کرتاتھا۔(بخاری :2095)
مذکورہ احادیث سے پتہ چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے بغیر ہمارے ایمان کی تکمیل ممکن نہیں ہے ۔لفظ حب ، محبت اور اس طرح کے الفاظ صرف شہوانی خواہشات اوربرے معنوں میں نہیں آتے بلکہ اصلاً یہ اعلی و پاکیزہ معانی کی ترجمانی کرتے ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام سے محبت رکھتے تھے توصحابہ کرام بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا برتا ؤ کرتے تھے۔اس طرح کے واقعات سیرت نبوی کی کتابوں میں بھرے پڑے ہیں جن کی نظیر تاریخ میں ملنی ناممکن ہے ۔
آج محبت کا لفظ صرف خاص معنی میں استعمال ہوتاہے کہ محبت کے اندر شہوانی پہلو پایاجائے جبکہ محبت ایک پاکیزہ اورجامع لفظ ہے ،اس کے اندر سب سے اہم پہلو اللہ اور رسول سے محبت کاہے ، اللہ اور رسول کی محبت کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔
موجودہ دور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخیوں کے واقعات رونماہوتے رہتے ہیں۔لیکن رد عمل کے سلسلے میں جوباتیں آتی ہیں اس کی کئی قسمیں ہیں۔ایک تو مثبت ردعمل ہے اوردسرامنفی۔
سیرت کی کتابوں میں ایک واقعہ ہے کہ ابوعبیدہ بن الجراح غزوہ احد کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے خود کڑیاں اپنے دانتوں سے نکال رہے تھے، اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منھ میں خون بھی بھرآیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اسے تھوک دو ، لیکن وہ پی گئے اور کہا کہ میراپیٹ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کا زمین سے زیادہ مستحق ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سن کر عمررضی اللہ عنہ کا ردعمل:جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفا ت کی خبر عمررضی اللہ عنہ کو پہونچی تو وہ اپنی تلوار کھینچ کر کھڑے ہوگئے اور بلند آواز سے کہنے لگے: منافقوں کے چند لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرماگئے ، حالانکہ وہ فوت نہیں ہوئے ۔ وہ اپنے رب کے پاس اس طرح گئے ہیں جس طرح موسی علیہ السلام گئے تھے۔ وہ ضرور واپس آئیں گے اور لوگوں کے ہاتھ اور پا ؤں کاٹیں گے۔ عمرفاروق رضی اللہ عنہ جوش وجذبہ میں اس طرح کی باتیں کہہ رہے تھے کہ ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ آگئے ، صورتحال جاننے کے بعد علٰیحدہ کھڑے ہوگئے اورفرمایا:”اگر تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پوچتے تھے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو فوت ہوگئے ، اور اگرتم اللہ تعالی کی پرستش کرتے تھے تو اللہ تعالی بے شک زندہ ہے اور وہ کبھی نہیں مرے گا “ پھر ابوبکرصدیقؓ نے قرآن کی یہ آیت پڑھی وما محمد الا رسول قدخلت من قبلہ الرسل…. توسب لوگ پرسکون ہوگئے ۔
محبت کا تقاضا اوراس کا مطالبہ :
کیاصرف مظاہرہ سے تقاضا پورا ہوگا۔ یہ توسب سے آسان ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اللہ سے محبت کا تقاضا اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔اللہ تعالی کا فرمان ہے : قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یعنی اللہ سے محبت کی کسوٹی اتباع ہے۔ اس لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعوی کرنے والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کو اختیار کریں۔
کیاصرف مظاہرہ سے تقاضا پورا ہوگا۔ یہ توسب سے آسان ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اللہ سے محبت کا تقاضا اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔اللہ تعالی کا فرمان ہے : قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یعنی اللہ سے محبت کی کسوٹی اتباع ہے۔ اس لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعوی کرنے والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کو اختیار کریں۔
گستاخی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات :
گستاخی رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ کوئی نیانہیں ہے بلکہ اگرقرآن کامطالعہ کریں تو انبیائے کرام کے ساتھ گستاخیاں کافی کی گئیں ہیں، میں چند واقعات کی طرف اشارہ کرنامناسب سمجھتاہوں :
پہلاکا واقعہ : یہود جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے تو السلام علیکم ’ آپ پر سلامتی ہو‘کے بجائے زبان کو ذرا گھما کر السلام سے حرف لام کو غائب کردیتے ۔ یعنی السّام علیککہاکرتے ۔ ا س کلمہ کے معنی یہ تھے کہ اے مخاطب !تجھ پر موت وارد ہو۔یہ سلوک کیاجارہاتھا۔
اس بدتمیزی پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے پردے کے پیچھے سے سخت ردعمل دکھایا، وہ غصے میں جواب دیئے بغیر نہ رہ سکیںاور کہہ اٹھیں، کہ کمبختو!تم پر موت وارد ہو۔ سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے کان میں یہ آواز پڑگئی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سمجھایا عائشہ !نرمی سے کام لو ۔عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: کچھ آپ نے سنابھی ہے کہ یہودیوں نے کیا کہا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سناتو تھا لیکن میں نے بھی وعلیک کہہ دیا،یہی کافی ہے ۔
دوسراواقعہ :یہودی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آتے ، اور کہیں یہ کہنے کی ضرورت پیش آتی کہ ذرا ٹھہریئے ہمیں بات سمجھنے کا موقع دیجئے ۔ تو اس موقع پر ایک ذومعنی لفظ استعمال کرتے تھے۔ رَاعِنا۔ اس لفظ کاظاہری مطلب تو وہی تھاکہ ہماری کچھ رعایت فرمائیے ۔ ہماری بات سن لیجئے ۔ ہماری جانب توجہ رکھیے ۔ مگر دوسری طرف عبرانی زبان میں اس سے ملتاجلتالفظ اس معنی میں استعمال ہوتا تھاکہ (سن تو بہرا ہوجائے)۔
ماضی میںبھی لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانتیں کی ہیں لیکن عصر حاضر میں اس طرح کے واقعات کچھ زیادہ ہی ہورہے ہیں مثلاً:
٭ 2007ءمیں ڈنمارک میںایک وحشی ، پاگل شخص نے اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مذموم حرکت کی، خاکے بنائے ، یہاں تک کہ اس کے اس گھٹیا اقدام کے حق میں پوروپی ممالک کے ذمہ داروں نے دلیلیں پیش کیں۔ حجاب پر پابندی اور اس کے خلاف پورے یوروپی ممالک میں مہم چلائی گئی ، حجاب کے خلاف طرح طرح کی دلیلیں پیش کی گئیں، اسی طرح مسجدوں کے مینارے بنانے پر بھی پابندی ، ڈاڑھی رکھنے پر اعتراض، قرآن کو جلانے اور پھاڑنے کے واقعات عام ہیں۔
٭ماضی قریب میں ایک اہم واقعہ جواہانت رسول کا پیش آیا ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ میں نائن الیون کی11ویں برسی کے موقع پر اسلام اوررسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی مبینہ اہانت پر مبنی ریلیز کی جانے والی فلم کاہے جس کی عالم اسلام میں شدید مذمت کی جارہی ہے، اس اشتعال انگیز فلم Innocence of Muslims ’مسلمانوں کی معصومیت ‘ کابنانے والا ۵۵سالہ اسرائیلی یہودی ڈائرکٹر سیم باسل ہے جوکیلیفورنیامیں پراپرٹی بلڈرہے ، باسل نے فلم خود لکھی اور خود ہی اسکی ہدایت کاری کی ہے۔اس نے فلم کی تیاری لیے سویہودیوں سے 50لاکھ امریکی ڈالرس جمع کی ہے۔
اس فلم کو30جون کوہالی وڈکے ایک چھوٹے سے سینما گھر میں دکھایا گیاتھا ، بعد میں اس فلم کے کچھ ٹکڑے یوٹیوب پر ڈال دیئے گئے،یکم جولائی کو آن لائن پوسٹ کیا گیا تھا۔مسلم ممالک میں اس فلم کے متعلق معلومات اس وقت ہوئیں جب ایک مصری ٹی وی چینل الناس نے ویڈیو سے عربی میں ترجمہ شدہ ٹکڑے نشر کئے تومسلم ممالک میں احتجاج شروع ہوگیا۔
Innocence of Muslims ’مسلمانوں کی معصومیت ‘فلم میں پیغمبر اسلام کی کردار کشی کرنے کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوایسے گروہ کا رہنما دکھانے کی کوشش کی گئی ہے جو قتل وغارت گری کے شوقین تھے۔
اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد :ان حالات میں مسلمانوںکی طرف سے دو رد عمل سامنے آتے ہیں ایک ایجابی اوردوسراردعمل جذباتی ہے ۔ یہود منصوبہ بند طریقہ سے مسلمانوں کو بھڑکاتے ہیں اورجذباتی ردعمل کو منظر عام پر لانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ عالمی پیمانے پر بتاسکیں کہ مسلمان صرف جذبا ت سے بھرے ہوئے ہیں امن عالم کے لیے نقصان دہ ہیں، وہ ہمیشہ جذباتی حرکتیں کرتے رہتے ہیں، اصل بات یہ ہے کہ :
ہمارادشمن ہمیں جذبات میں مبتلاکرکے اصل مقاصد سے ہٹانے کی کوشش کررہاہے۔
گستاخی رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ کوئی نیانہیں ہے بلکہ اگرقرآن کامطالعہ کریں تو انبیائے کرام کے ساتھ گستاخیاں کافی کی گئیں ہیں، میں چند واقعات کی طرف اشارہ کرنامناسب سمجھتاہوں :
پہلاکا واقعہ : یہود جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے تو السلام علیکم ’ آپ پر سلامتی ہو‘کے بجائے زبان کو ذرا گھما کر السلام سے حرف لام کو غائب کردیتے ۔ یعنی السّام علیککہاکرتے ۔ ا س کلمہ کے معنی یہ تھے کہ اے مخاطب !تجھ پر موت وارد ہو۔یہ سلوک کیاجارہاتھا۔
اس بدتمیزی پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے پردے کے پیچھے سے سخت ردعمل دکھایا، وہ غصے میں جواب دیئے بغیر نہ رہ سکیںاور کہہ اٹھیں، کہ کمبختو!تم پر موت وارد ہو۔ سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے کان میں یہ آواز پڑگئی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سمجھایا عائشہ !نرمی سے کام لو ۔عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: کچھ آپ نے سنابھی ہے کہ یہودیوں نے کیا کہا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سناتو تھا لیکن میں نے بھی وعلیک کہہ دیا،یہی کافی ہے ۔
دوسراواقعہ :یہودی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آتے ، اور کہیں یہ کہنے کی ضرورت پیش آتی کہ ذرا ٹھہریئے ہمیں بات سمجھنے کا موقع دیجئے ۔ تو اس موقع پر ایک ذومعنی لفظ استعمال کرتے تھے۔ رَاعِنا۔ اس لفظ کاظاہری مطلب تو وہی تھاکہ ہماری کچھ رعایت فرمائیے ۔ ہماری بات سن لیجئے ۔ ہماری جانب توجہ رکھیے ۔ مگر دوسری طرف عبرانی زبان میں اس سے ملتاجلتالفظ اس معنی میں استعمال ہوتا تھاکہ (سن تو بہرا ہوجائے)۔
ماضی میںبھی لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانتیں کی ہیں لیکن عصر حاضر میں اس طرح کے واقعات کچھ زیادہ ہی ہورہے ہیں مثلاً:
٭ 2007ءمیں ڈنمارک میںایک وحشی ، پاگل شخص نے اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مذموم حرکت کی، خاکے بنائے ، یہاں تک کہ اس کے اس گھٹیا اقدام کے حق میں پوروپی ممالک کے ذمہ داروں نے دلیلیں پیش کیں۔ حجاب پر پابندی اور اس کے خلاف پورے یوروپی ممالک میں مہم چلائی گئی ، حجاب کے خلاف طرح طرح کی دلیلیں پیش کی گئیں، اسی طرح مسجدوں کے مینارے بنانے پر بھی پابندی ، ڈاڑھی رکھنے پر اعتراض، قرآن کو جلانے اور پھاڑنے کے واقعات عام ہیں۔
٭ماضی قریب میں ایک اہم واقعہ جواہانت رسول کا پیش آیا ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ میں نائن الیون کی11ویں برسی کے موقع پر اسلام اوررسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی مبینہ اہانت پر مبنی ریلیز کی جانے والی فلم کاہے جس کی عالم اسلام میں شدید مذمت کی جارہی ہے، اس اشتعال انگیز فلم Innocence of Muslims ’مسلمانوں کی معصومیت ‘ کابنانے والا ۵۵سالہ اسرائیلی یہودی ڈائرکٹر سیم باسل ہے جوکیلیفورنیامیں پراپرٹی بلڈرہے ، باسل نے فلم خود لکھی اور خود ہی اسکی ہدایت کاری کی ہے۔اس نے فلم کی تیاری لیے سویہودیوں سے 50لاکھ امریکی ڈالرس جمع کی ہے۔
اس فلم کو30جون کوہالی وڈکے ایک چھوٹے سے سینما گھر میں دکھایا گیاتھا ، بعد میں اس فلم کے کچھ ٹکڑے یوٹیوب پر ڈال دیئے گئے،یکم جولائی کو آن لائن پوسٹ کیا گیا تھا۔مسلم ممالک میں اس فلم کے متعلق معلومات اس وقت ہوئیں جب ایک مصری ٹی وی چینل الناس نے ویڈیو سے عربی میں ترجمہ شدہ ٹکڑے نشر کئے تومسلم ممالک میں احتجاج شروع ہوگیا۔
Innocence of Muslims ’مسلمانوں کی معصومیت ‘فلم میں پیغمبر اسلام کی کردار کشی کرنے کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوایسے گروہ کا رہنما دکھانے کی کوشش کی گئی ہے جو قتل وغارت گری کے شوقین تھے۔
اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد :ان حالات میں مسلمانوںکی طرف سے دو رد عمل سامنے آتے ہیں ایک ایجابی اوردوسراردعمل جذباتی ہے ۔ یہود منصوبہ بند طریقہ سے مسلمانوں کو بھڑکاتے ہیں اورجذباتی ردعمل کو منظر عام پر لانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ عالمی پیمانے پر بتاسکیں کہ مسلمان صرف جذبا ت سے بھرے ہوئے ہیں امن عالم کے لیے نقصان دہ ہیں، وہ ہمیشہ جذباتی حرکتیں کرتے رہتے ہیں، اصل بات یہ ہے کہ :
ہمارادشمن ہمیں جذبات میں مبتلاکرکے اصل مقاصد سے ہٹانے کی کوشش کررہاہے۔
ماخذ:http://www.misbahmagazine.com/archives/1499
Qari Hanif Dar
گھڑے کی مچھلی !
ھادیہ ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتی تھی، اس کا ایک ھی بھائی تھا جو اس سے بڑا تھا ،، یہ گھرانہ مغل کشمیری ذات سے تعلق رکھتا تھا - ھادیہ کے والد سابقہ ائیر فورس کے ریٹائرڈ آفیسر تھے ، کاروبار میں آئے تو ان کی ایمانداری نے دنیا میں بھی پھل کچھ اس طرح دیا کہ وہ مٹی کو ھاتھ لگاتے تو وہ سونا بن جاتی - وہ کراچی میں ڈیفینس سوسائٹی میں رھتے تھے جہاں ان کے بہت سارے ولاز تھے جن کو انہوں نے رینٹ آؤٹ کر رکھا تھا !
بیٹا امریکہ میں پڑھنے کے بعد جاب کے لئے کنیڈا شفٹ ھو گیا تھا ، ھادیہ ان کے پاس تھی اور وھی ان کی دنیا تھی ،، ھادیہ نہایت ذھین اور باکردار لڑکی تھی ، اللہ پاک نے حسن کے خزانے اس پر لُٹا دیئے تھے اور وہ ان کی امین بھی تھی - یونیورسٹی میں لڑکے پاگل ھوئے پھرتے تھے اور وہ تھی کہ لپٹی لپٹائی گاڑی سے اترتی کلاس میں اپنے کام سے کام رکھتی ،سہیلیوں کے انتخاب میں بھی وہ نہایت باذوق تھی ، چند ایک لڑکیوں کے سوا اس نے کسی کو دوستی کے قابل نہ سمجھا ، تین سال یونیورسٹی میں پڑھتے ھوئے ھو چکے تھے مگر ھادیہ نے یونیورسٹی کی کینٹین تک نہیں دیکھی تھی،،
ایسا بھی نہیں کہ وہ ھر وقت ھاتھ میں تسبیح رکھتی تھی اور قبر کو یاد کر کے روتی سسکتی رھتی تھی ،گھر کی ھادیہ کوئی نرالی چیز تھی ، وہ گھر میں چہچہاتی پھرتی لطیفے سنتی اور سناتی تھی، گھر اس کے قہقوں سے گونجتا رھتا تھا، والدین کے ساتھ اس کے تعلقات اب بھی بچگانہ بنیادوں پر تھے ،، وہ اسے بچی سمجھ کر ڈیل کرتے تھے اور وہ ان کے ساتھ بچی بن کے رھتی تھی !
ھادیہ کی کانووکیشن کے موقعے پہ ڈاکٹر سرفراز کی والدہ نے ھادیہ کو دیکھا اور اگلے ھی ھفتے بیٹے کا رشتہ لئے آ پہنچیں ،، ھادیہ کے والدین کو پہلی دفعہ احساس ھوا کہ ان کی بیٹی نہ صرف جوان ھو گئ ھے بلکہ پرائی چیز ھے اور اب آنے والوں کا سلسلہ شروع ھو جائے گا - ڈاکٹر سرفراز سائیکالوجسٹ تھا مگر ذرا مغرور قسم کا تھا ،لگتا تھا خود اس کے ساتھ کوئی نفسیاتی مسئلہ تھا ،شاید اس نے اسی وجہ سے اس فیلڈ کو چنا تھا - والدہ کے اصرار اور ھادیہ کی تصویر دیکھنے کے بعد اس نے ماں کو اپنی رضامندی کا سگنل دے دیا ،، ھادیہ کے والد نے بھی بیٹے اور بیٹی سے مشورہ کرنے کے بعد ھاں کر دی ،،
اگلے چھ ماہ شادی کی تیاری میں گزرے اور ھادیہ دھوم دھام سے اپنے پیا کے گھر سدھار گئ - چند ماہ تو نہایت خوشی سے گزرے اور پھر آئستہ آئستہ رشتے برفناک ٹھنڈک کا شکار ھوتے چلے گئے ،، ڈاکٹر سرفراز مریضوں کے ساتھ تو نہایت پیار اور گرم جوشی سے پیش آتے ، شاید یہ ان کا بزنس تھا ،،مگر گھر داخل ھوتے ھی ان کی شخصیت پر دھند کی چادر تن جاتی ،، وہ ھادیہ کو بیوی اور گھر کا فرد سمجھنے کی بجائے ھاؤس میڈ سمجھنا شروع ھو گئے ،، وہ جو نرس کو بلاتے تو آواز سے شہد ٹپکتا مگر ھادیہ کو بلاتے وقت رعونت اور اجنبیت ان کے لہجے پہ غالب ھوتی ! ھادیہ مغل کے والدین بھی بیٹے کے پاس کنیڈا منتقل ھو گئے تھے ، دو سال گزر گئے تھے اور ابھی تک گھر میں تیسرے فرد کی آمد کے کوئی آثار نہ تھے ،، اولاد ھو تو عورت کو اپنا دکھ بھلانے میں مدد مل جاتی ھے اور وہ اپنے آپ کو اولاد میں گم کر دیتی ھے ،مگر یہاں یہ بہانہ بھی میسر نہ تھا ،، سارا دکھ اکیلی ھادیہ کی جان کو ھی بھگتنا تھا ! والدین کو اپنے بیٹے کی نفسیاتی کیفیت کا علم تھا ،انہوں نے سوچا تھا کہ اتنی خوبصورت بیوی پا کر شاید ان کا بیٹا نفسیاتی طور پہ متوازن ھو جائے مگر ھادیہ کو اپنے بیٹے کی دوا کے طور پر استعمال کرنے والے والدین اب شرمندہ شرمندہ سے تھے ،، ھر بگڑے بچے کو درست کرنے کا ایک ھی فارمولا والدین کے دماغ مین آتا ھے کہ " شادی کر دو ٹھیک ھو جائے گا " اور اگر ٹھیک نہ بھی ھو تو ان کا جاتا ھی کیا ھے ؟
یہ انسانی نفسیات کا المیہ ھے کہ جونہی کوئی چیز اس کی ملکیت میں آتی ھے وہ اپنی اھمیت کھو دیتی ھے ،بیوی ھو یا گھر - گاڑی ھو یا گھڑی ،، چشمہ ھو یا جوتا ،، ،، جونہی وہ اس کی ملکیت بنتی ھے تو ملکیت کی نفسیات ایکٹیو ھو جاتی ھے ،، یہ تو ھے ھی میری ،، یہ تو میرے گھڑے کی مچھلی اور گھر کی مرغی ھے جب جی چاھے پکڑ لو ،، توجہ طلب تو دوسری ھیں جو کسی اور کی ملکیت ھیں اور جنہیں ھنس بول کر چارہ ڈالنا مقصود ھوتا ھے ! آپ کسی کو بھی رستے میں پکڑ کر پوچھیں کہ آج اس کی بیوی نے کس رنگ کے کپڑے پہنے ھیں ؟ یقین جانیں 99٪ لوگ نہیں بتا سکیں گے ،، یہ تو ھے توجہ کا معاملہ ۔۔، اسی سے آپس میں قلبی تعلق کا اندازہ بھی کر سکتے ھیں !!
آپ نے لطیفہ پڑھا ھو گا حالانکہ یہ لطیفہ نہیں حقیقت ھے ،،
ایک صاحب نے اپنا مکان بیچنا تھا تو اپنے دوست پراپرٹی ڈیلر سے کہا کہ وہ ان کے مکان کے لئے اچھا سا گاھک ڈھونڈے ،، دوست نے ایک اچھا سا اشتہار بنا کر لگا دیا ،جس میں مکان کی لوکیشن اور خوبیاں بڑی تفصیل سے بیان کی گئیں تھیں،، دوسرے دن اشتہار پڑھ کر اس کے دوست نے اسے فون کیا کہ اشتہار منسوخ کر دے وہ مکان بیچنے کا ارادہ ترک کر چکا ھے ،، دوست کے استفسار پہ انہوں نے اعتراف کیا کہ انہیں احساس ھی نہیں تھا کہ وہ اتنی خوبیوں کے حامل ایک مکان کا مالک ھے جو اس کے لئے بہت بڑی نعمت ھے !
ھادیہ اسی ملکیت کی نفسیات کے عذاب سے گزر رھی تھی - اسے اللہ نے حوروں کے حسن سے ھی نہیں نوازا تھا ،جنتیوں کی سیرت بھی عطا کی تھی، اس نے کسی کو اس معاملے کی ھوا بھی نہ لگنے دی آخرکار اللہ پاک کو اس کی بےبسی پر ترس آ گیا ! ڈاکٹر سرفراز کے کلینک میں شاھنواز چانڈیو نام کا مریض اپنے نفسیاتی مرض کے علاج کے لئے آیا ،،شاھنواز چانڈیو ایک جاگیردار کا اکلوتا بیٹا تھا جو لندن سے ماسٹر کر کے لوٹا تھا ،، دو سالوں میں دو بیویوں کا طلاق دینے والا شاھنواز اب تیسری بیوی کو بھی طلاق دینا چاھتا تھا ،مگر یہ بیوی بھی ایک بہت بڑے جاگیردار کی بیٹی تھی جو بارسوخ سیاستدان بھی تھا،، شاھنواز کے والدین کو خطرہ تھا کہ اگر اس نے اپنی بیوی کو طلاق دی تو اس کا سسر اس کو مروا دے گا ، وہ پوچھتے پچھاتے اسے مشہور ماھرنفسیات ڈاکٹر سرفراز کے پاس لے آئے تھے ! یہ شاھنواز " ھادیہ " سے ایک سال سینئر تھا جو اسی آغا خان یونیورسٹی میں پڑھتا تھا ، وہ بھی جاگیرداروں کی سی اکڑ رکھتا تھا اور کسی کو لفٹ نہیں کراتا تھا مگر ھادیہ نے اسے توڑ پھوڑ کر رکھ دیا تھا ،، وہ ھادیہ کی ایک مسکراھٹ کے لئے ترستا تھا ،، مگر ھادیہ نے کبھی پلٹ کر کسی کی طرف نہیں دیکھا تھا ،، شاھنواز نے ڈاکٹر سرفراز کو بتایا کہ وہ ھادیہ سے شادی کرنا چاھتا تھا کوئی فلرٹ نہیں کرنا چاھتا تھا ،، ڈاکٹر صاحب وہ لڑکی اس زمین کی مخلوق نہیں تھی ،، وہ کوئی دیوی تھی جو اس زمین پر اتار دی گئ تھی ، میں اس کا کچھ بھی بیان نہیں کر سکتا وہ بس دیکھنے کی چیز تھی ، حسین لڑکیوں سے گلیاں محلے ،اسکول کالجز اور یونیورسٹیاں بھری پڑی ھیں ،، وہ حسین نہیں تھی وہ تو حسن کا ماڈل تھی حسن کا تعارف تھی ،، اس کا چلنا ، بات کرنا ،جمائی لینا ،، دیکھا ،منہ موڑنا ، الغرض ھر حرکت اتنی نپی تلی ھوتی تھی کہ نظر نہیں ھٹتی تھی،، میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ کیا اس مخلوق کو اپنے بارے میں کوئی علم بھی ھے کہ وہ کیا چیز ھے یا نہیں ،،کیا وہ شیشہ نہیں دیکھتی ھو گی ،، وہ شیشہ ٹوٹ نہیں جاتا ھو گا ،،،، ڈاکٹر صاحب میں نے کئ دفعہ کوشش کی کہ اس میں کوئی عیب ڈھونڈ لوں جس کو ہتھوڑا بنا کر میں ھادیہ کے بت کو توڑ سکوں ،مگر مجھے عیب کی تلاش میں بھی خوبیاں ھی ملیں ،، شاھنواز چانڈیو بول رھا تھا اور ڈاکٹر سرفراز کے اندر بگولے اٹھ رھے تھے ،چیزیں اس کے اندر یوں آواز کے ساتھ ٹوٹ رھی تھیں جیسے برتنوں سے بھری ٹرے کسی کے ھاتھ سے گرے تو ھر برتن اپنی مخصوص آوازکے ساتھ ٹوٹتا ھے ،، اس کے اندر کا مرد بیدار ھو چکا تھا وہ چاھتا تھا کہ شاھنواز چپ کر جائے ،، وہ اسے بتانا چاھتا تھا کہ وہ دیوی کب سے ایک دیو کی قید میں ھے ، جو اسے گھر میں ڈال کر بھول گیا ھے کہ اسے کس نعمت سے نوازا گیا تھا ،،
شاھنواز نے بتایا کہ اب اسے ھر عورت ھادیہ لگنا شروع ھو گئ تھی ،، ھر طرف نظر آنے لگ گئ تھی ، وہ کبھی کبھی کسی عورت کو ھادیہ کے نام سے پکار بھی لیتا ،مگر پاس جانے پر وہ کوئی اور ھی عورت نکلتی ، اسے چھ ماہ کے لئے لندن کے ایک نفسیاتی اسپتال میں داخل بھی کرایا گیا ،، پاکستان آ کر اسے جب پہلی عورت کی تصویر شادی کے لئے پیش کی گئ تو وہ اسے ھادیہ ھی سمجھا اور ھاں کر دی ،،مگر پہلے دن ھی اسے پتہ چل گیا کہ اس کے ساتھ فراڈ ھوا ھے ، اسے تصویر تو ھادیہ کی دکھائی گئ مگر نکاح کسی اور عورت کا کرا دیا گیا ،، تین ماہ بعد طلاق ھو گئ ،، ایک سال کے بعد پھر شاھنواز کی شادی کی کوشش کی گئ اور اس دفعہ بھی ایسا ھی ھوا کہ وہ اسے ھادیہ سمجھ کر بیاہ لایا اور پھر فراڈ کا شور مچا دیا ،، اب کہ چھ ماہ بعد طلاق ھو گئ ،، تیسری بیوی کے ساتھ بھی یہی چکر چل رھا ھے،،
اگلے دو ماہ بڑے انقلاب انگیز تھے ،، شاھنواز ھادیہ کا بت ڈاکٹر سرفراز کے اندر بناتا جا رھا تھا جس طرح مادام تساؤ کے میوزیم میں مجسمے بنائے جاتے ھیں اور ڈاکٹر سرفراز اپنی پوری کوشش کر رھا تھا کہ شاھنواز کے اندر سے ھادیہ کے اس بت کو توڑ دے جو تیسری عورت کا گھر برباد کرنے جا رھا تھا !شاھنواز آئستہ آئستہ ھادیہ کو ڈاکٹر سرفراز کے اندر انسٹال کر رھا تھا ،جبکہ ڈاکٹر سرفراز اسی ھادیہ کو شاھنواز چانڈیو کے اندر سے ان انسٹال کرنے کے جتن کر رھا تھا - کئ قسم کی دوائیوں کے استعمال اور کئ نشتوں کے تنویمی عمل کے بعد آخر کار ھادیہ کو شاھنواز کے اندر سے نکال باھر کیا گیا تھا ،، آخری نشست کے بعد ڈاکٹر سرفراز ،، شاھنواز کو اس کی پراڈو تک چھوڑنے آیا ،، اس نے آج تک ادا کی گئ ساری فیس کا چیک شاھنواز کی گاڑی کے ڈیش بورڈ پہ رکھا اور کہا شاھنواز صاحب ،، آپ میرے دوست ھیں ،، میں آپ کی ساری ادا کردہ فیس واپس کر رھا ھوں ،، اللہ پاک آپ کے گھر کو آباد کرے ،،یہ کہہ کر سرفراز آئستہ آئستہ قدم اٹھاتا اپنے کلینک کی طرف چل دیا ،، شاھنواز ھکا بکا اسے دیکھتے کا دیکھتا رہ گیا !!
ڈاکٹر سرفراز اس دن جب گھر واپس آیا تو وہ حسبِ معمول اپنے کمرے میں جانے کی بجائے کچن میں کھانا گرم کرتی ھادیہ کی طرف چلا گیا ،، ھادیہ نے چونک کر پیچھے دیکھا تو سرفراز کو گھورتے پایا ،، وہ گھبرا سی گئ ،، آج سرفراز اسے شاھنواز کی نظروں سے دیکھ رھا تھا ،، آج وہ اسے ایک غیر مرد کی نظروں سے دیکھ رھا تھا اور ایک غیر عورت کی حیثیت سے دیکھ رھا تھا ،، گھڑے کی مچھلی کی حیثیت سے نہیں ،، وہ آئستہ آئستہ آگے بڑھا ،، ھادیہ کے ھاتھ میں پکڑا برتن اس کے ھاتھ سے لے کر سامنے ریک میں رکھا اور ھادیہ کے ھاتھوں کو پکڑ کر چوم لیا ،، ھادیہ مجھے معاف کردو اگرچہ میں معاف کیئے جانے کے قابل نہیں ھوں ،، میں نے تمہارے ساتھ بہت ظلم کیا ھے ، تمہاری بہت ناقدری کی ھے ،، اللہ مجھے معاف فرمائے مگر یہ تو تبھی ھو گا جب تم مجھے معاف کرو گی ،، ندامت اور پچھتاوے آنسو بن کر ڈاکٹر سرفراز کی آنکھوں سے بہے چلے جا رھے تھے ،، ھادیہ اسے سہارا دے کر ڈرائنگ روم میں لائی اور اسے صوفے پر بٹھا کر اس کے سامنے اپنے قدموں پر بیٹھ گئ اور سر اس کی گود میں رکھ کر بولی ،، ڈاکٹر صاحب صبح کا بھولا شام کو واپس آ جائے تو اسے بھولا ھوا نہیں کہتے ،، آپ نے مجھے کوئی فزیکل سزا تو نہیں دی تھی ،، رویئے کا تشدد تھا جسے آپ کے رویئے نے پل میں مندمل کر دیا ،،
اللہ پاک نے اگلے سال انہیں ایک بیٹے سے نواز دیا جب کہ مزید دو سال بعد وہ ایک بیٹی سے بھی نوازے گئے،
ھادیہ ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتی تھی، اس کا ایک ھی بھائی تھا جو اس سے بڑا تھا ،، یہ گھرانہ مغل کشمیری ذات سے تعلق رکھتا تھا - ھادیہ کے والد سابقہ ائیر فورس کے ریٹائرڈ آفیسر تھے ، کاروبار میں آئے تو ان کی ایمانداری نے دنیا میں بھی پھل کچھ اس طرح دیا کہ وہ مٹی کو ھاتھ لگاتے تو وہ سونا بن جاتی - وہ کراچی میں ڈیفینس سوسائٹی میں رھتے تھے جہاں ان کے بہت سارے ولاز تھے جن کو انہوں نے رینٹ آؤٹ کر رکھا تھا !
بیٹا امریکہ میں پڑھنے کے بعد جاب کے لئے کنیڈا شفٹ ھو گیا تھا ، ھادیہ ان کے پاس تھی اور وھی ان کی دنیا تھی ،، ھادیہ نہایت ذھین اور باکردار لڑکی تھی ، اللہ پاک نے حسن کے خزانے اس پر لُٹا دیئے تھے اور وہ ان کی امین بھی تھی - یونیورسٹی میں لڑکے پاگل ھوئے پھرتے تھے اور وہ تھی کہ لپٹی لپٹائی گاڑی سے اترتی کلاس میں اپنے کام سے کام رکھتی ،سہیلیوں کے انتخاب میں بھی وہ نہایت باذوق تھی ، چند ایک لڑکیوں کے سوا اس نے کسی کو دوستی کے قابل نہ سمجھا ، تین سال یونیورسٹی میں پڑھتے ھوئے ھو چکے تھے مگر ھادیہ نے یونیورسٹی کی کینٹین تک نہیں دیکھی تھی،،
ایسا بھی نہیں کہ وہ ھر وقت ھاتھ میں تسبیح رکھتی تھی اور قبر کو یاد کر کے روتی سسکتی رھتی تھی ،گھر کی ھادیہ کوئی نرالی چیز تھی ، وہ گھر میں چہچہاتی پھرتی لطیفے سنتی اور سناتی تھی، گھر اس کے قہقوں سے گونجتا رھتا تھا، والدین کے ساتھ اس کے تعلقات اب بھی بچگانہ بنیادوں پر تھے ،، وہ اسے بچی سمجھ کر ڈیل کرتے تھے اور وہ ان کے ساتھ بچی بن کے رھتی تھی !
ھادیہ کی کانووکیشن کے موقعے پہ ڈاکٹر سرفراز کی والدہ نے ھادیہ کو دیکھا اور اگلے ھی ھفتے بیٹے کا رشتہ لئے آ پہنچیں ،، ھادیہ کے والدین کو پہلی دفعہ احساس ھوا کہ ان کی بیٹی نہ صرف جوان ھو گئ ھے بلکہ پرائی چیز ھے اور اب آنے والوں کا سلسلہ شروع ھو جائے گا - ڈاکٹر سرفراز سائیکالوجسٹ تھا مگر ذرا مغرور قسم کا تھا ،لگتا تھا خود اس کے ساتھ کوئی نفسیاتی مسئلہ تھا ،شاید اس نے اسی وجہ سے اس فیلڈ کو چنا تھا - والدہ کے اصرار اور ھادیہ کی تصویر دیکھنے کے بعد اس نے ماں کو اپنی رضامندی کا سگنل دے دیا ،، ھادیہ کے والد نے بھی بیٹے اور بیٹی سے مشورہ کرنے کے بعد ھاں کر دی ،،
اگلے چھ ماہ شادی کی تیاری میں گزرے اور ھادیہ دھوم دھام سے اپنے پیا کے گھر سدھار گئ - چند ماہ تو نہایت خوشی سے گزرے اور پھر آئستہ آئستہ رشتے برفناک ٹھنڈک کا شکار ھوتے چلے گئے ،، ڈاکٹر سرفراز مریضوں کے ساتھ تو نہایت پیار اور گرم جوشی سے پیش آتے ، شاید یہ ان کا بزنس تھا ،،مگر گھر داخل ھوتے ھی ان کی شخصیت پر دھند کی چادر تن جاتی ،، وہ ھادیہ کو بیوی اور گھر کا فرد سمجھنے کی بجائے ھاؤس میڈ سمجھنا شروع ھو گئے ،، وہ جو نرس کو بلاتے تو آواز سے شہد ٹپکتا مگر ھادیہ کو بلاتے وقت رعونت اور اجنبیت ان کے لہجے پہ غالب ھوتی ! ھادیہ مغل کے والدین بھی بیٹے کے پاس کنیڈا منتقل ھو گئے تھے ، دو سال گزر گئے تھے اور ابھی تک گھر میں تیسرے فرد کی آمد کے کوئی آثار نہ تھے ،، اولاد ھو تو عورت کو اپنا دکھ بھلانے میں مدد مل جاتی ھے اور وہ اپنے آپ کو اولاد میں گم کر دیتی ھے ،مگر یہاں یہ بہانہ بھی میسر نہ تھا ،، سارا دکھ اکیلی ھادیہ کی جان کو ھی بھگتنا تھا ! والدین کو اپنے بیٹے کی نفسیاتی کیفیت کا علم تھا ،انہوں نے سوچا تھا کہ اتنی خوبصورت بیوی پا کر شاید ان کا بیٹا نفسیاتی طور پہ متوازن ھو جائے مگر ھادیہ کو اپنے بیٹے کی دوا کے طور پر استعمال کرنے والے والدین اب شرمندہ شرمندہ سے تھے ،، ھر بگڑے بچے کو درست کرنے کا ایک ھی فارمولا والدین کے دماغ مین آتا ھے کہ " شادی کر دو ٹھیک ھو جائے گا " اور اگر ٹھیک نہ بھی ھو تو ان کا جاتا ھی کیا ھے ؟
یہ انسانی نفسیات کا المیہ ھے کہ جونہی کوئی چیز اس کی ملکیت میں آتی ھے وہ اپنی اھمیت کھو دیتی ھے ،بیوی ھو یا گھر - گاڑی ھو یا گھڑی ،، چشمہ ھو یا جوتا ،، ،، جونہی وہ اس کی ملکیت بنتی ھے تو ملکیت کی نفسیات ایکٹیو ھو جاتی ھے ،، یہ تو ھے ھی میری ،، یہ تو میرے گھڑے کی مچھلی اور گھر کی مرغی ھے جب جی چاھے پکڑ لو ،، توجہ طلب تو دوسری ھیں جو کسی اور کی ملکیت ھیں اور جنہیں ھنس بول کر چارہ ڈالنا مقصود ھوتا ھے ! آپ کسی کو بھی رستے میں پکڑ کر پوچھیں کہ آج اس کی بیوی نے کس رنگ کے کپڑے پہنے ھیں ؟ یقین جانیں 99٪ لوگ نہیں بتا سکیں گے ،، یہ تو ھے توجہ کا معاملہ ۔۔، اسی سے آپس میں قلبی تعلق کا اندازہ بھی کر سکتے ھیں !!
آپ نے لطیفہ پڑھا ھو گا حالانکہ یہ لطیفہ نہیں حقیقت ھے ،،
ایک صاحب نے اپنا مکان بیچنا تھا تو اپنے دوست پراپرٹی ڈیلر سے کہا کہ وہ ان کے مکان کے لئے اچھا سا گاھک ڈھونڈے ،، دوست نے ایک اچھا سا اشتہار بنا کر لگا دیا ،جس میں مکان کی لوکیشن اور خوبیاں بڑی تفصیل سے بیان کی گئیں تھیں،، دوسرے دن اشتہار پڑھ کر اس کے دوست نے اسے فون کیا کہ اشتہار منسوخ کر دے وہ مکان بیچنے کا ارادہ ترک کر چکا ھے ،، دوست کے استفسار پہ انہوں نے اعتراف کیا کہ انہیں احساس ھی نہیں تھا کہ وہ اتنی خوبیوں کے حامل ایک مکان کا مالک ھے جو اس کے لئے بہت بڑی نعمت ھے !
ھادیہ اسی ملکیت کی نفسیات کے عذاب سے گزر رھی تھی - اسے اللہ نے حوروں کے حسن سے ھی نہیں نوازا تھا ،جنتیوں کی سیرت بھی عطا کی تھی، اس نے کسی کو اس معاملے کی ھوا بھی نہ لگنے دی آخرکار اللہ پاک کو اس کی بےبسی پر ترس آ گیا ! ڈاکٹر سرفراز کے کلینک میں شاھنواز چانڈیو نام کا مریض اپنے نفسیاتی مرض کے علاج کے لئے آیا ،،شاھنواز چانڈیو ایک جاگیردار کا اکلوتا بیٹا تھا جو لندن سے ماسٹر کر کے لوٹا تھا ،، دو سالوں میں دو بیویوں کا طلاق دینے والا شاھنواز اب تیسری بیوی کو بھی طلاق دینا چاھتا تھا ،مگر یہ بیوی بھی ایک بہت بڑے جاگیردار کی بیٹی تھی جو بارسوخ سیاستدان بھی تھا،، شاھنواز کے والدین کو خطرہ تھا کہ اگر اس نے اپنی بیوی کو طلاق دی تو اس کا سسر اس کو مروا دے گا ، وہ پوچھتے پچھاتے اسے مشہور ماھرنفسیات ڈاکٹر سرفراز کے پاس لے آئے تھے ! یہ شاھنواز " ھادیہ " سے ایک سال سینئر تھا جو اسی آغا خان یونیورسٹی میں پڑھتا تھا ، وہ بھی جاگیرداروں کی سی اکڑ رکھتا تھا اور کسی کو لفٹ نہیں کراتا تھا مگر ھادیہ نے اسے توڑ پھوڑ کر رکھ دیا تھا ،، وہ ھادیہ کی ایک مسکراھٹ کے لئے ترستا تھا ،، مگر ھادیہ نے کبھی پلٹ کر کسی کی طرف نہیں دیکھا تھا ،، شاھنواز نے ڈاکٹر سرفراز کو بتایا کہ وہ ھادیہ سے شادی کرنا چاھتا تھا کوئی فلرٹ نہیں کرنا چاھتا تھا ،، ڈاکٹر صاحب وہ لڑکی اس زمین کی مخلوق نہیں تھی ،، وہ کوئی دیوی تھی جو اس زمین پر اتار دی گئ تھی ، میں اس کا کچھ بھی بیان نہیں کر سکتا وہ بس دیکھنے کی چیز تھی ، حسین لڑکیوں سے گلیاں محلے ،اسکول کالجز اور یونیورسٹیاں بھری پڑی ھیں ،، وہ حسین نہیں تھی وہ تو حسن کا ماڈل تھی حسن کا تعارف تھی ،، اس کا چلنا ، بات کرنا ،جمائی لینا ،، دیکھا ،منہ موڑنا ، الغرض ھر حرکت اتنی نپی تلی ھوتی تھی کہ نظر نہیں ھٹتی تھی،، میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ کیا اس مخلوق کو اپنے بارے میں کوئی علم بھی ھے کہ وہ کیا چیز ھے یا نہیں ،،کیا وہ شیشہ نہیں دیکھتی ھو گی ،، وہ شیشہ ٹوٹ نہیں جاتا ھو گا ،،،، ڈاکٹر صاحب میں نے کئ دفعہ کوشش کی کہ اس میں کوئی عیب ڈھونڈ لوں جس کو ہتھوڑا بنا کر میں ھادیہ کے بت کو توڑ سکوں ،مگر مجھے عیب کی تلاش میں بھی خوبیاں ھی ملیں ،، شاھنواز چانڈیو بول رھا تھا اور ڈاکٹر سرفراز کے اندر بگولے اٹھ رھے تھے ،چیزیں اس کے اندر یوں آواز کے ساتھ ٹوٹ رھی تھیں جیسے برتنوں سے بھری ٹرے کسی کے ھاتھ سے گرے تو ھر برتن اپنی مخصوص آوازکے ساتھ ٹوٹتا ھے ،، اس کے اندر کا مرد بیدار ھو چکا تھا وہ چاھتا تھا کہ شاھنواز چپ کر جائے ،، وہ اسے بتانا چاھتا تھا کہ وہ دیوی کب سے ایک دیو کی قید میں ھے ، جو اسے گھر میں ڈال کر بھول گیا ھے کہ اسے کس نعمت سے نوازا گیا تھا ،،
شاھنواز نے بتایا کہ اب اسے ھر عورت ھادیہ لگنا شروع ھو گئ تھی ،، ھر طرف نظر آنے لگ گئ تھی ، وہ کبھی کبھی کسی عورت کو ھادیہ کے نام سے پکار بھی لیتا ،مگر پاس جانے پر وہ کوئی اور ھی عورت نکلتی ، اسے چھ ماہ کے لئے لندن کے ایک نفسیاتی اسپتال میں داخل بھی کرایا گیا ،، پاکستان آ کر اسے جب پہلی عورت کی تصویر شادی کے لئے پیش کی گئ تو وہ اسے ھادیہ ھی سمجھا اور ھاں کر دی ،،مگر پہلے دن ھی اسے پتہ چل گیا کہ اس کے ساتھ فراڈ ھوا ھے ، اسے تصویر تو ھادیہ کی دکھائی گئ مگر نکاح کسی اور عورت کا کرا دیا گیا ،، تین ماہ بعد طلاق ھو گئ ،، ایک سال کے بعد پھر شاھنواز کی شادی کی کوشش کی گئ اور اس دفعہ بھی ایسا ھی ھوا کہ وہ اسے ھادیہ سمجھ کر بیاہ لایا اور پھر فراڈ کا شور مچا دیا ،، اب کہ چھ ماہ بعد طلاق ھو گئ ،، تیسری بیوی کے ساتھ بھی یہی چکر چل رھا ھے،،
اگلے دو ماہ بڑے انقلاب انگیز تھے ،، شاھنواز ھادیہ کا بت ڈاکٹر سرفراز کے اندر بناتا جا رھا تھا جس طرح مادام تساؤ کے میوزیم میں مجسمے بنائے جاتے ھیں اور ڈاکٹر سرفراز اپنی پوری کوشش کر رھا تھا کہ شاھنواز کے اندر سے ھادیہ کے اس بت کو توڑ دے جو تیسری عورت کا گھر برباد کرنے جا رھا تھا !شاھنواز آئستہ آئستہ ھادیہ کو ڈاکٹر سرفراز کے اندر انسٹال کر رھا تھا ،جبکہ ڈاکٹر سرفراز اسی ھادیہ کو شاھنواز چانڈیو کے اندر سے ان انسٹال کرنے کے جتن کر رھا تھا - کئ قسم کی دوائیوں کے استعمال اور کئ نشتوں کے تنویمی عمل کے بعد آخر کار ھادیہ کو شاھنواز کے اندر سے نکال باھر کیا گیا تھا ،، آخری نشست کے بعد ڈاکٹر سرفراز ،، شاھنواز کو اس کی پراڈو تک چھوڑنے آیا ،، اس نے آج تک ادا کی گئ ساری فیس کا چیک شاھنواز کی گاڑی کے ڈیش بورڈ پہ رکھا اور کہا شاھنواز صاحب ،، آپ میرے دوست ھیں ،، میں آپ کی ساری ادا کردہ فیس واپس کر رھا ھوں ،، اللہ پاک آپ کے گھر کو آباد کرے ،،یہ کہہ کر سرفراز آئستہ آئستہ قدم اٹھاتا اپنے کلینک کی طرف چل دیا ،، شاھنواز ھکا بکا اسے دیکھتے کا دیکھتا رہ گیا !!
ڈاکٹر سرفراز اس دن جب گھر واپس آیا تو وہ حسبِ معمول اپنے کمرے میں جانے کی بجائے کچن میں کھانا گرم کرتی ھادیہ کی طرف چلا گیا ،، ھادیہ نے چونک کر پیچھے دیکھا تو سرفراز کو گھورتے پایا ،، وہ گھبرا سی گئ ،، آج سرفراز اسے شاھنواز کی نظروں سے دیکھ رھا تھا ،، آج وہ اسے ایک غیر مرد کی نظروں سے دیکھ رھا تھا اور ایک غیر عورت کی حیثیت سے دیکھ رھا تھا ،، گھڑے کی مچھلی کی حیثیت سے نہیں ،، وہ آئستہ آئستہ آگے بڑھا ،، ھادیہ کے ھاتھ میں پکڑا برتن اس کے ھاتھ سے لے کر سامنے ریک میں رکھا اور ھادیہ کے ھاتھوں کو پکڑ کر چوم لیا ،، ھادیہ مجھے معاف کردو اگرچہ میں معاف کیئے جانے کے قابل نہیں ھوں ،، میں نے تمہارے ساتھ بہت ظلم کیا ھے ، تمہاری بہت ناقدری کی ھے ،، اللہ مجھے معاف فرمائے مگر یہ تو تبھی ھو گا جب تم مجھے معاف کرو گی ،، ندامت اور پچھتاوے آنسو بن کر ڈاکٹر سرفراز کی آنکھوں سے بہے چلے جا رھے تھے ،، ھادیہ اسے سہارا دے کر ڈرائنگ روم میں لائی اور اسے صوفے پر بٹھا کر اس کے سامنے اپنے قدموں پر بیٹھ گئ اور سر اس کی گود میں رکھ کر بولی ،، ڈاکٹر صاحب صبح کا بھولا شام کو واپس آ جائے تو اسے بھولا ھوا نہیں کہتے ،، آپ نے مجھے کوئی فزیکل سزا تو نہیں دی تھی ،، رویئے کا تشدد تھا جسے آپ کے رویئے نے پل میں مندمل کر دیا ،،
اللہ پاک نے اگلے سال انہیں ایک بیٹے سے نواز دیا جب کہ مزید دو سال بعد وہ ایک بیٹی سے بھی نوازے گئے،
ماھنامہ سچے واقعات:ماخذ
دو نوجوان عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں “یا عمر یہ ہے وہ شخص”
عمر رضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے ہیں ” کیا کیا ہے اس شخص نے ؟” “یا امیر المؤمنین ۔ اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے” عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں “کیا کہہ رہے ہو ۔ اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے ؟” عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں ” کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے ؟” وہ شخص کہتا ہے “ہاں امیر المؤمنین ۔ مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ” عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں ” کس طرح قتل ہوا ہے ؟” وہ شخص کہتا ہے “یا عمر ۔ انکا باپ اپنے اُونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا ۔ میں نے منع کیا ۔ باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا ” عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ” پھر تو قصاص دینا پڑے گا ۔ موت ہے اسکی سزا ” نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں ۔ نہ ہی اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے، نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں، معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے ؟ ان سب باتوں سے بھلا عمر رضی اللہ عنہ کو مطلب ہی کیا ۔ کیونکہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر رضی اللہ عنہ پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ کو روک سکتا ہے۔ حتٰی کہ سامنے عمر کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو ۔ قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔ وہ شخص کہتا ہے ”ا ے امیر المؤمنین ۔ اُس کے نام پر جس کے حُکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحرا میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجئے تاکہ میں ان کو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے ۔ میں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا” عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ”کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحرا میں جا کر واپس بھی آ جائے گا؟” مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اسکا نام تک بھی جانتا ہو۔ اسکے قبیلے ۔ خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے ۔ کون ضمانت دے اسکی ؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے ؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔ اور کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ سے اعتراض کرے یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہو جائے اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔ محفل میں موجود صحابہ پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے۔ اس صورتحال سے خود عمر رضی اللہ عنہ بھی متأثر ہیں۔ کیونکہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں ؟ یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا، خود عمر رضی اللہ عنہ بھی سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں اس صورتحال پر، سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں ”معاف کر دو اس شخص کو ” نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں ”نہیں امیر المؤمنین ۔ جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ دیں ۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا ” عمر رضی اللہ عنہ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں ”اے لوگو ۔ ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے؟” ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں ”میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی” عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں “ابوذر ۔ اس نے قتل کیا ہے” ابوذر رضی اللہ عنہ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں “چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو” عمر رضی اللہ عنہ “جانتے ہو اسے ؟” ابوذر رضی اللہ عنہ ” نہیں جانتا ” عمر رضی اللہ عنہ ” تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو ؟” ابوذر رضی اللہ عنہ ”میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا ۔ انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا ” عمر رضی اللہ عنہ ”ابوذر دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا ” ابوذر رضی اللہ عنہ اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں ” امیر المؤمنین ۔ پھر اللہ مالک ہے” عمر رضی اللہ عنہ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے ۔ کچھ ضروری تیاریوں کیلئے ۔ بیوی بچوں کو الوداع کہنے ۔ اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے اور پھر اس کے بعد قصاص کی ادائیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے۔ اور پھر تین راتوں کے بعد عمر رضی اللہ عنہ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے ۔ انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا۔ عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے ۔ نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے ۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ سوال کرتے ہیں ” کدھر ہے وہ آدمی ؟” ابوذر رضی اللہ عنہ مختصر جواب دیتے ہیں “مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین” ابوذر رضی اللہ عنہ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ محفل میں ہُو کا عالم ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے ؟ یہ سچ ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں بستے ہیں، عمرؓ رضی اللہ عنہ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمر رضی اللہ عنہ دیر نہ کریں کاٹ کر ابوذر رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیں ۔ لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے ۔ اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے ۔ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا ۔ نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے ۔ حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے۔ مغرب سے چند لحظات پہلے وہ شخص آ جاتا ہے ۔ بے ساختہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے۔ ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں ” اے شخص ۔ اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا۔ نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا ” وہ بولا ” امیر المؤمنین ۔ اللہ کی قسم ۔ بات آپکی نہیں ہے بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے ۔ دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں ۔ اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کر ۔ جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان ۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں ۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے” عمر رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کی طرف رخ کر کے پوچھا ” ابوذر ۔ تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی ؟” ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا ” اے عمر ۔ مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے” سید عمرؓ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا کہتے ہو اب؟ نوجوانوں نے جن کا باپ مرا تھا روتے ہوئے کہا ” اے امیر المؤمنین ۔ ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں ۔ ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے” عمر رضی اللہ عنہ اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو ان کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر نے لگے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمايا ۔۔۔ ” اے نوجوانو ۔ تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے” ” اے ابو ذر ۔ اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے” ” اور اے شخص ۔ اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے” ” اور اے امیر المؤمنین ۔ اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے ماہنامہ سچے واقعات اسلام آباد :ماخذ |
دنیا اور آخرت کے چشم دید انوکھے سچے واقعات مجموعہ جو دل کی اجڑی ویران دنیا کو بدل دیت
خوف خدا کے سچے واقعات سے ماخوذ
لقمان حکیم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ”
آپ کی دانشمندی مسلم تھی۔ ” آپ کے آقا نے آپ کو بیچنے کے لئے پیش کیا تو ایک آدمی جو
کاشتکار تھا، آپ کو خرید لیا اور اپنے ساتھ گھر لے گیا۔ آپ سارا دن اس کی خدمت میں
مصروف رہے حتیٰ کہ رات آگئی…. جب آپ نے عشاء کی نماز پڑھی تو آپ کا آقا سوگیا۔ لہذا
آپ ایک خالی کمرہ میں تشریف لے گئے، اور نما ادا کرنے لگے۔
جب رات ایک پہر بیت چکی تو آپ نے اپنے آقا
سے کہا:”میرے آقا ! بہشت کو آراستہ کردیا گیا ہے……. اور جہنم کو بھڑکادیا گیا ہے….جو
شخص آخروی نعمتوں کو حاصل کرنا چاہتا ہے، وہ اتنا زیادہ سویا نہیں کرتا۔”
مالک نے جواب دیا: اے غلام ! چلے جاوٴ،
میرا رب بڑا غفور رحیم ہے۔ یہ کہہ کر وہ پھر سوگیا، اور حضرت لقمان اپنی جگہ وآپس آگئے۔
اور پھر نماز میں مشغول ہوگئے…… جب رات کا دوسرا پہر بھی گزر گیا، تو پھر اپنے آقا
کے پاس آئے، اور اس کو ہلا کر کہنے لگے: ” میرے آقا جو وقت گزر گیا وہ تو گزر گیا،اب
بھی اٹھ جاوٴ …..اور باقی وقت میں رب کی رحمت طلب کر لو، اور توشہ آخرت تیار کرلو،
کیونکہ تھوڑی دیر ہی بعد تجھے آخرت کے سفر پر روانہ ہونا ہے۔ ”
اب کے مالک نے پھر جواب دیا کہ اے غلام
! چلے جاوٴ، مجھے سونے دو…. میرا رب بڑا غفور ہے… اور نہایت مہربان ہے…. حضرت لقمان
پھر اپنی جگہ وآپس آگئے اور نماز ادا کرنے لگے… رات کا تیسرا پہر بیت گیا، اور صبح
ہونے کے قریب ہوگئ… تو آپ پھر اپنے مالک کے پاس گئے،اور کہا: ”میرے آقا اب تو پرندے
بھی اپنے گھونسلوں سے نکل کر ذکر میں مشغول ہوچکے ہیں۔
بیابانوں میں جنگلی درندے بھی اپنے ٹھکانوں
کو چھوڑ کر اللّٰہ تعالٰی کی حمد وثناء میں مصروف ہیں ، آپ بھی اپنے رب کی بارگاہ سے
جو مانگنا چاہتے ہیں ….تو اس کے لیے یہ بہترین وقت ہے۔ ”
مالک نے جواب دیا؛ ” اے غلام مجھے کچھ دیر
اور سونے دو … میرا رب بڑا غفور اور مہربان ہے، حضرت لقمان پھر وآپس چلے گئے…اور صبح
کی نماز ادا کرنے لگے، نماز کے بعد اپنے اوراد میں مصروف ہوگئے، اتنے میں آپ کا آقا
بھی بیدار ہوگیا۔
اس نے آپ کو دس سیر جو دئیے اور کہا کہ
جاوٴ ان کو زمین میں کاشت کرو، حضرت لقمان علیہ السلام وہ جو لیکر اپنے پڑوسی کے پاس
گئے. اور جو اس کو دے دیا، اور اس لے بدلے میں باجرہ لیا…اور زمین میں باجرہ کاشت کر
دیا۔
کچھ عرصہ بعد وہ باجرہ اگ آیا، تو لقمان
اور ان کا مالک زمین میں چکر لگانے گئے ، جب اس نے زمین میں باجرہ اگا دیکھا….تو کہنے
لگا: ” اے لقمان ! میں نے تو تجھے کہا تھا کہ زمین میں جو بونا ہے، لیکن تونے باجرہ
کیسے بودیا؟
حضرت لقمان نے کہا: ” میرے آقا! میرا رب
بڑا غفور رحیم ہے” وہ ضرور جو اگا دے گا مالک نے کہا : تو نے درست کہا ہے…لیکن جب تو
زمین میں باجرہ بوئے گا تو پھر اس میں سے جو كيسے نکلے گا؟؟؟ حضرت لقمان نے فرمایا:”
بالکل اسی طرح میرے آقا! جب آپ غافلوں کیطرح پڑے سوتے رہیں گے ،تو صالحین کے درجات
کو کیسے پاسکیں گے۔”
تحریر:شعیب تنول
ماخذ:http://www.geourdu.co/columns-and-articles/fear-god-true-events-derived/
ہلا دینے والے سچے واقعات
صحرا میں پیاسی موت , جڑواں لوگ , موت سے
واپسی
صحرا میں پیاسی موت: زندگی موت کے بن ادھوری
ہے پھر بھی جانے کیوں اس حقیقت سے آنکھیں چرائی جاتی ہیں۔ ہر کوئی موت سے ڈرتا ہے
اور بھاگتا ہے لیکن موت آخر گھیر ہی لیتی ہے۔ کئی اموات بہت ہی عبرتناک اور اتنی
خوفناک ہوتی ہیں کہ روح تک کانپ جاتی ہے۔ تصور کریں کہ 14سال کی لڑکی ،جس نے جلتے
صحرا میں جہاں نہ سایہ ہو اور نہ ہی کوئی ذی روح ،بھوک اور پیاس سے مرنے والی ماں
او ر دو بہنوں کو ریت کی قبر میں دفن کرتے ہوئے کس کرب سے گزری ہو گی۔ یہ تیونس کی
شفا کی کہانی ہے جو اپنے ملک سے ایک بڑے صحرا کو عبور کر کے پڑوسی ملک کا سفر کر
رہے تھے۔ ان کی منزل مصر تھی اور ان دیکھے خوابوں کی تکمیل کے لئے انہوں نے سفر
شروع کیا جو آخر موت کا سفر ثابت ہوا۔ دکھوں بھرے اس سفر کی پہلی مشکل تب سامنے
آئی جب یہ لوگ غیر قانونی طور پر ایک ٹرک پرسفر کرتے جا رہے تھے کہ الجیریا کے
بارڈر پر فوجیوں نے انہیں روکنا چاہا تو ڈرائیو رپکڑے جانے کے خوف سے واپس پلٹے
اور یہ سوچے بغیر ٹرک بھگاتے رہے کہ اس میں پٹرول بھی ہے کہ نہیں۔ آخر بیچ راستے میں
ٹرک کا ایندھن ختم ہوا اور وہ ریت کے سمندر میں بے یارو مددگار کسی کے آنے یا
انسانی آبادی کو دیکھنے لگے مگر سینکڑوں میل تک کچھ بھی میسر نہ تھا۔ عورتوں اور
بچوں کا یہ قافلہ رات کی تاریکی میں پیدل ہی کسی انجان منزل کی طرف سے روانہ ہوا ۔
نہ راستہ تھا نہ ٹھکانہ۔ بھوک و پیاس سے زبانیں باہر آتیں ، کئی عورتیں اور بچے
موت کا شکار ہوئے۔ لوگ اپنے پیاروں کو وہیں ریت میں دفناتے اور آگے بڑھ جاتے ۔
ڈرائیور اتنا ظالم تھا کہ اپنی کین میں رکھے پانی کی دو بوند دینے کو تیار نہ تھا۔
اس پر کسی کے واسطہ اور منت کاکوئی اثر نہیںتھا۔ سفر کو دو دن ہو گئے ۔ پانی اور
خوراک بالکل ختم ہو چکی تھی ۔ راستے میں کھڑی ایک پک اپ میں ہڈیوں کے تین ڈھانچے
ان کے انجام کا پتہ دے رہے تھے۔ شفا کی بوڑھی ماں پیاس سے ہلکان تھی۔ اس کی دونوں
بہنیںزرد چہروںکے ساتھ آگے بڑھتی جا رہی تھیں۔ راستے میں ایک ٹنڈ منڈ درخت کے نہ
ہونے والے سائے میں بیٹھے تھے کہ اس کی شفا کی ماں کا سر ڈھلک گیا اور اس کی روح
نے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا ۔ شفا کی بلکتی آواز صحرا میں محض ایک گونج بنی او ر
کوئی مدد کو نہ آیا۔ اس نے اپنی ماں کا منہ چادر سے ڈھانپ دیا اور بے تحاشا روئی۔
پھر ساری ہمتیں جمع کر کے ہاتھوں سے ریت کا ٹیلا کھودا اور ایک بہن نے ماں کے بازو
پکڑے اور شفا نے پائوں اور اس گڈھے میں ڈال کر ریت سے بھر دیا۔ نہ کفن تھا ،نہ
جنازہ ۔وہ اپنی دونوں بہنوں کے ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھی۔ دور جاتے جاتے پیچھے مڑ کر
دیکھا تو ریت کا ڈھیر ان کی ماں کی شبیہ بنا رہا تھا۔ وہ بھاگ کر اس سے لپٹنا
چاہتی تھی لیکن دھوپ اور پیاس اسے آگے بڑھنے پر مجبور کر رہی تھی۔ ایک دن مزید
چلتی رہیں،اس کے باوجود حدّ نظر تک ریت کے سوا کچھ نہ تھا۔ شفا کی چھوٹی بہن اپنی
ماں کی موت سے اگلے دن موت کا شکار ہوئی۔ اس سے چلا نہیں جا رہا تھا اور آخر ایک
جگہ ڈھیر ہو گئی۔ شفا نے اس کی گردن پرہاتھ رکھا تو جسم ٹھنڈا ہو چکا تھا اور اس
کی روح پرواز کر چکی تھی۔ شفا ماں کی موت پر یوں چیخی تھی کہ صحرا بھی کانپ اٹھا
تھا لیکن بہن کی موت پر اس کی خاموشی نے صحرا کو حیرت ذدہ کر دیا۔ اس نے اسے بھی
بھی ایسے ہی دفنایا جیسے اپنی ماں کو دفنایا تھا۔اور چپ چاپ قدم بڑھا دئیے۔ طویل
مسافت کے بعد ریت پر آگے بڑھتے ہوئے آخر ایک سڑک آ گئی اور یوں لگا جیسے منزل
قریب آ گئی ہے۔ اس نے سڑک کے دونوں جانب دور تک دیکھنے کی کوشش کی اور پھر پیچھے
مڑ کر دیکھا تو چھوٹی بہن بھی سڑک کنارے جان دے چکی تھی۔ وہ دھاڑیں مار مارکر اس
ننھی جان کو پکار رہی تھی۔ روتے روتے اس نے دیکھا کہ سڑک پر ایک چھوٹا ٹرک آ رہا
ہے ۔وہ سڑک کے درمیان میں کھڑی ہو گئی اور دونوں ہاتھ پھیلا کر اسے روکنے کا اشارہ
کیا۔ ٹرک رکا اور اس سے دو آدمی باہر آئے ان کے آنے تک وہ گر کر بے ہوش ہو چکی
تھی۔ اسے ہوش آیا تو وہ ٹرک میں پڑی ہوئی تھی۔ اس نے اٹھ کر کیبن سے ٹرک کا پچھلا
حصہ دیکھا تو وہاں کوئی لاش چادر میں پڑی تھی ۔ ٹرک ڈرائیور نے اسے چائے اور بسکٹ
دیئے اور قریبی قصبے پہنچ کر انہوں نے سب سے پہلے اس کی بہن کی تدفین کی۔ جنازے
میں چند لوگ شامل ہوئے اور شفا دور کھڑی آنسو بہاتی رہی۔ اگلے دن تیونس کے
اخبارات میں یہ ہولناک کہانی چھپی تو انسانی حقوق تنظیمیں متحرک ہوئیں ۔ فوری طور
پر تیونس سے شمال کی جانب عورتوں اور بچوں کے سفر کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی
اور اقوام متحدہ نے رپورٹ جاری کی کہ 80ہزار سے زائد تارکین وطن لوگ اس صحرا میں
موت کا شکار ہوئے ہیں۔ ****************** جڑواں لوگ: جڑواں بچے عموماً شکل و صورت
میں ایک جیسے ہوتے ہیں۔ دنیا میں لاکھوں ایسے بچے ہیں جو ایک ساتھ پیدا ہوتے اور
زندگی کی بہاریں دیکھتے ہیں۔ انڈیا میں ایک گائوں ایسا بھی ہے جہاں ہر گھر میں
جڑواں ہی پیدا ہوتے ہیں۔ جڑواں ہونا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ ان کا ہمشکل ہونا
بھی کوئی غیر معمولی بات نہیں لیکن جب یہ کہا جائے کہ جڑواں کی قسمت اور زندگی میں
ہونیوالے واقعات میں حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے تو حیرانی تو ہو گی اور اس سے
بھی بڑھ کر یہ کہ کینیڈا کے دو جڑواں بھائی بچپن میں بچھڑ گئے اور ان کی ملاقات
30برسوں بعد ہوئی۔ اس ملاقات کے موقع پر دونوں نے اپنے اپنے حالات زندگی شیئر کئے
تو پھر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ یہ ناقابل یقین تو تھا مگر سچ تھا۔ ایڈورڈ لیوس نے
اپے جڑواں بھائی جیمز ایڈم کو بتایا کہ اس نے لنڈا نامی عورت سے شادی کی تھی لیکن
طلاق دیدی۔ اس کے بعد اس کی زندگی میں پیٹل لیزا آئی اور اس میں سے اس کا ایک
بیٹا ہے جس کا نام ڈینیل ہے۔ ایڈورڈ جیسے جیسے یہ کہانی سنا رہا تھا اس کے بھائی
جیمز ایڈم کی آنکھیں حیرت سے پھیلتی جا رہی تھیں۔ جب ایڈورڈ خاموش ہوا تو جیمز نے
بتایا کیا اتفاق ہے میں نے بھی پہلے لنڈا سے ہی شادی کی۔ طلاق کے بعد میری شادی
پیٹل لیزا سے ہوئی اور اس میں سے ہونے والے بیٹے کا نام ڈینیل ہی ہے۔ حد تو یہ
ہوئی کہ جب ایڈم نے ایڈورڈ کو بتایا کہ میرے کتے کا نام جیک ہے تو ایڈورڈ کے کتے
کا نام بھی جیک ہی تھا۔ دونوں کے چوکیداروں کا نام ایک ہے۔ گھروں کی شکل ایک ہی ہے
اور کام کی نوعیت بھی حیرت انگیز طور پر ایک ہی ہے۔ جڑواں بچوں کے حوالے سے یہ
حقائق حیران کن ہیں۔ جب یہ کہانی کینیڈا کے اخبارات کی زینت بنی تو بہت سے جڑواں
لوگوں نے اپنی زندگی کے غیر معمولی واقعات شیئر کئے۔ ان میں ایک واقعہ یہ ہے کہ
1993ء میں رونلڈ اینڈرسن کو اپنی بیوی پر وحشیانہ تشدد کے جرم میں گرفتار کر لیا۔
گرفتار شدہ رونلڈ چیخ رہا تھا کہ وہ اس جرم کا مرتکب نہیں ہے اور نہ ہی اس نے کوئی
ایسی حرکت کی ہے۔ تحقیقات پر معلوم ہوا کہ اینڈرسن تو گزشتہ چھ ماہ سے کسی جرم کی
پاداش میں جیل میں بند ہے۔ مزید تحقیق سے یہ حیران کن حقیقت سامنے آئی کہ رونلڈ
اینڈرسن بے گناہ تھا۔ اصل رونلڈ جیل میں تھا اور اس کی بیوی کو پیٹنے والا کوئی
چور اچکا تھا۔ چوری کے دوران رونلڈ کی بیوی نے اپنا شوہر سمجھا اور اس سے لپٹنے کی
کوشش کی توچور کو لگا کہ جیسے وہ اسے پکڑنا چا ہ رہی ہے۔ چنانچہ اس نے بے رحمی سے
اسے تشدد کا نشانہ بنا ڈالا اور بھاگ گیا۔ ایمرجنسی پولیس کو بلایا گیا اور بتایا
گیا کہ مطلوبہ شخص اس گلی میں فرار ہوا ہے۔ پیچھا کرنے پر ایک کلو میٹر کی دوری پر
جس شخص کو گرفتار کیا گیا اسے رونلڈ کی بیوی نے پہچان لیا۔ تین ہم شکل افراد کے اس
ڈرامے کی سمجھ تو قارئین کو آگئی ہوگی۔ اوپر جس انڈین گائوں کا ذکر کیا گیا ہے اس
میں بھی بہت دلچسپ واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ جیسے کمار پروین کو پولیس کسی
مقدمے میں گرفتار کر کے لے گئی۔ اس کا واویلا محض بے کار ثابت ہوا اور پولیس نے
اسے وین میں بٹھا لیا۔ جب وہ لوگ پولیس اسٹیشن پہنچے تو اصل مجرم حوالات میں بند
تھا۔ پولیس نے اس مجرم کے ہم شکل جڑواں بھائی کو گرفتار کر لیا تھا۔ حقیقت معلوم
ہونے پر اسے معذرت کے ساتھ چھوڑ دیا گیا۔ اسی طرح اس گائوں کے اکثر بچوں کے ہاتھوں
پر ربن باندھ کر اس کی شناخت کا تعین کیا جاتا ہے۔ ورنہ گھر اور سکول میں کسی ایک
بچے کی شرارت کا خمیازہ اس کے جڑواں بھائی کو بھگتنا پڑتا ہے ، فیس بک پر لگی ایک
خوبصورت تصویر کسی کو خوش کرنے کے لئے کافی ہے جس میں د وہمشکل بچے دکھائے گئے ہیں
ایک رو رہا ہے جبکہ دوسرا مسکرا رہا ہے اور مسکراتے ہوئے کہہ رہا ہے میری ماں اسے
ہی دو مرتبہ نہلادیتی ہے اور مجھے دو مرتبہ دودھ کا فیڈر دے جاتی ہے۔ہاہاہاہا۔
**************************** موت سے واپسی: ایک یورپی ملک کے رہائشی جم اینڈرسن
کو انوکھے تجربے سے گزرنا پڑاا،ایسا واقعہ جوصرف کہانیوں اور فلموں میں ہی ملتا
ہے۔جم اینڈرسن شدید دل کے دورے کا شکار ہوا اور اس کی سانسیں رک گئیں۔ ڈاکٹر نے
ڈیپریشن کو موت کی وجہ قرار دیا۔ وہ دن میں پانی فلٹر کرنے والے پلانٹ پر 13گھنٹے
کام کرتا تھا اور اسے لوگوں کی طلب کو پورا کرنے کے لئے بہت سے اقدامات کی نگرانی
کرنا ہوتی تھی۔ ایک دن وہ تھکا ٹوٹا سونے کی تیاری میں تھا کہ سینے میں دردکا
احساس ہوا ۔ درد بڑھتا چلا گیا اور اس کی سانسیں بے ترتیب ہونے لگی۔ سائیڈ ٹیبل پر
پڑے پانی کے گلاس کو پینا چاہا تو کانپتے ہاتھوں سے گلاس زمین پر گرا اور آواز
پیدا ہوئی جسے سن کر اس کی بیوی الزبتھ بھی جاگ گئی۔ وہ چلانے لگی ،جم کیا ہوا…؟اس
نے دیکھا کہ جم کی آنکھیں ابلی ہوئی ہیں اور ماتھے پر پسینہ اور وہ نزع کی حالت
میں تھا۔ ایمرجنسی کال کی گئی اور ایمبولینس فراٹے بھرتی آ گئی جم کو ہسپتال
پہنچایا تو اس کی آدھی جان نکل چکی تھی۔ اسے معلوم تو تھا کہ دل کا مریض ہے اور
کسی وقت بھی دھچکا لگ سکتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ڈاکٹر سے زیر علاج بھی رہا۔ دل
کے ٹرانسپلانٹ کے لئے اس کا نام فہرست میں شامل تھا۔ کئی گھنٹوں کی طویل مشقت کے
بعد ڈاکٹر جم کو سانس دلانے میں کامیاب ہوئے۔ اسے آئی سی یو میں رکھا گیا اس دل
کے دورے کے نویں روز اسے ہوش آیا اور ہوش میں آنے کے بعد اس نے پہلی بات اپنی
بیٹی سے کی۔ ’’میں زندہ بچ گیا ہوں‘‘ لیزا نے اسے بتایا کہ پاپا آپ خیریت سے ہیں
اور خدا نے آپ کی جان بخش دی ہے۔ کچھ دنوں بعد وہ اپنی صحت کے حوالے سے مستحکم
تھا۔ اس نے اپنی بیٹی کو بتایا کہ جب دل کا دورہ پڑا تو درد ناقابل برداشت تھا
۔سانسیں مشکل سے آ رہی تھیں اور دل ڈوبتا محسوس ہو رہا تھا۔ پھر مجھے ہوش نہ رہا
اورلگا جیسے میں کسی دائرے کی گہرائی میں گرتا جا رہا ہوں۔مجھے ایک سفید روشنی کی
پٹی نظر آئی۔ یہ بہت خوبصور ت تھی۔ مسحور کن اور شفاف روشنی کی طرح جسے دیکھ
کرمیں اپنا درد بھول گیا۔ میں روشنی کی طرف بڑھا تو یہ آگے کی طرف چل دی اس روشنی
کے تعاقب میں ہوائوں میں اڑتا چلا گیا جب میں روشنی کے قریب پہنچا تو میرے کانوں
میں مختلف آوازیں آنا شروع ہوئیں ۔میرا ایک دھیان روشنی کی طرف اور دوسرا ان
آوازوں کی طرف۔ جلد ہی یہ آوازیں واضح ہوئیں تو محسوس ہوا کہ میرے بہت سے پیارے
میرے ہی لئے خدا سے دعائیں مانگ رہے تھے۔ میری زندگی کی دعائیں تھیں جن سے مجھے
طاقت ملی۔ میں یہاں خود کو بہت ہی محفوظ تصور کرنے لگا پھر فوراً میں نے خود کو
ہسپتال کی میز پر پایا۔ مجھے لگا جیسے بیسوں ڈاکٹر میرے ساتھ کھیل رہے ہیں کوئی
کہیں سے چیر پھاڑ کر رہا ہے تو کوئی کہیں سے۔ وہ جو باتیں کر رہے تھے مجھے سنائی
دے رہی تھیں۔ دو نرسیں دروازے کے پاس کھڑی تھیں ۔ ایک نے کہا مشکل سے مجھے زندہ
بچا سکیںگے ؟ دوسری نے کہا ایسے نہ کہو۔ اپنے کام پر دھیان دو ۔ پھر مجھے ڈولی کی
آواز آئی وہ رو رہی تھی اور خدا سے میری زندگی کی بھیک مانگ رہی تھی ۔ (ڈولی جم
کی بیوی تھی) پھر مجھے وہ دن یاد آیا جب میری پہلی ملاقات ڈولی سے ہوئی تھی۔ جم
نے شادی کی۔ پھر بچے ہوئے، ڈولی کے جذبات کے تمام رنگ میرے سامنے آئے اور وہ دنیا
کی حسین ترین عورت دکھائی دی۔ اس کے گالوں پر لڑھکتے آنسو اور دعا کے لئے ہلنے
والے ہونٹ مجھے کل کائنات دکھائی دیئے اسے روتا دیکھ کر میں زور سے چلایا اور خدا
کو پکارا۔ اے خدا میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں لیکن اس وقت مجھے واپس جانے دو۔
میری ڈولی اور لیزا آپریشن تھیٹر کے باہر بے بسی کی تصاویر بنی کھڑی ہیں مجھے ان
کے پاس جانا ہے انہیں گلے لگانا ہے اے خدا مجھے واپس جانے دو۔’’ابھی یہ الفاظ میرے
منہ میں تھے میری آواز کا نپ رہی تھی اور میں دائرے کی گہرائی سے اوپر کی طرف
آنے لگا۔ ڈاکٹر نے بجلی کا جھٹکا دیا اور مجھے سینئر ڈاکٹر کی نرم آواز سنائی دی
دھڑکن واپس آ چکی ہے‘‘ پھر مجھے اپنی سانس محسوس ہوئی۔ جونئیرڈاکٹر کی ہلکی سی
چیخ اور چہرے کی سرخی مجھے زندگی کی نوید سنا رہی تھی ۔ نرس نے باہر اعلان کیا’’جم
کو بچا لیا گیا ہے لیکن ابھی دل کی دھڑکن بحال کرنے میں وقت لگے گا۔ میں نے اپنی
بیوی کا روتا چہرہ مگر خوشی سے دمکتا مکھڑا دیکھا۔ جس دن میں ہسپتال سے ڈسچارج ہوا
تو رات کو خواب میں ایک فرشتہ آیا اورکہنے لگا ’’جم میں نے تمہیں گرفتار کیا اور
لے جانا چاہتا تھا لیکن تمہارے پیچھے دل سے کی گئی دعائیں تمہیں مجھ سے چھڑا کر لے
گئیں تم مبارک باد کے مستحق ہو ،نئی زندگی مبارک ہو۔ جائو لوگوں میں پیار بانٹو۔
http://mag.dunya.com.pk/index.php/dilchasp-dunya/1069/2013-11-17ماخذ
پُر اسرار بیماریاں چند حیر انگیز طبّی
کیسز کا احوال
فیصل ظفر کہا جاتا ہے کہ موجودہ عہد میں
انسان نے سائنس کے میدان میں جتنی ترقی کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ طبی دنیا میں تو
لگ بھگ روزانہ کی بنیاد پر کوئی نہ کوئی نئی ایسی تحقیق سامنے آتی رہتی ہے جس میں
کسی مرض کے علاج کی دریافت یا اسباب معلوم ہوجانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ نت نئی ویکسینز
اور طریقہ علاج بھی ناقابل یقین تیز رفتاری سے سامنے آرہے ہیں۔ ماضی قریب کی کئی مہلک
بیماریوں کا علاج بھی ہونے لگا ہے۔ اس کے باوجود اب بھی ایسے کیسز سامنے آجاتے ہیں
جو عام معالجین تو کیا طبی ماہرین کو ششدر کردیتے ہیں۔ ایسی چند مثالیں ہوسکتا ہے کہ
آپ کی حیرانی کا بھی سبب بنیں۔ اُسے آنکھیں ’’سُنائی‘‘ دیتی ہیں۔۔۔۔ آٹھ سال پہلے
کی بات ہے کہ برطانوی علاقے لنکاشائر سے تعلق رکھنے والی جولی ریڈ فرن مقبول کمپیوٹر
گیم ٹیٹریس کھیلنے میں مصروف تھی کہ اس نے ایک مزاحیہ سی تیز آواز سنی، شروع میں تو
اسے اندازہ نہیں ہوسکا کہ یہ شور کہاں سے آرہا ہے مگر پھر اسے احساس ہوا کہ یہ آواز
اسی وقت آتی ہے جب وہ اپنی آنکھوں کو حرکت دیتی ہے یعنی جولی اپنی آنکھوں کی پتلیوں
کی آواز سن رہی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ جولی کو یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ اپنی شریانوں
میں دوڑتے خون کی آواز کو سننے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ کھانا چبانے کی آواز
تو اس کے لیے اتنی بلند ہوتی ہے کہ اسے کھانے کی میز پر کسی اور کی بات سنائی ہی نہیں
دیتی مگر پھر بھی سب سے بدترین چیز اس وقت ہوتی تھی جب ٹیلیفون بجنے کے بعد اس کی آنکھیں
خودبخود تیزی سے گھومنا شروع ہوجاتی۔جولی میں ایس سی ڈی ایس نامی مرض کی تشخیص ہوئی
یہ ایک ایسا نایاب مرض ہے جس سے کان کی اندرونی ہڈیاں کثافت سے محروم ہوجاتی ہیں جس
سے سماعت بہت زیادہ حساس یا تیز ہوجاتی ہے۔ڈاکٹروں کو اس مرض کا علم 1990 کی دہائی
میں ہوا تھا اور جولی کو بھی اس سے نجات دلانے کے لیے بڑا آپریشن ہوا۔ طبی ماہر جولی
کے ایک کان کی سماعت کو معمول پر لانے میں کام یاب ہوگئے تاہم اب بھی اس کا ایک کان
آنکھوں سے لے کر جسم کے ہر حصے میں پیدا ہونے والی آواز سننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
بھوک ہی نہیں لگتی بارہ سالہ لنڈن جونز امریکی ریاست آئیووا کا رہائشی ہے۔ 2013 کی
ایک صبح جب وہ بیدار ہوا تو اسے معمول کے مطابق بھوک محسوس نہیں ہوئی، وہ غشی سی محسوس
کررہا تھا اور اس کی کھانسی رک ہی نہیں پارہی تھی کیونکہ بلغم نے اس کے سینے کو جکڑ
رکھا تھا۔ لنڈن کے والدین اسے فوری طور پر ہسپتال لے کر گئے جہاں بچے کے بائیں پھیپھڑے
میں انفیکشن کا انکشاف ہوا اور جلد ہی اس کا علاج کرلیا گیا۔ مگر صحت یابی کے بعد گھر
واپسی پر بھی لنڈن کو پھر کبھی بھوک محسوس نہیں ہوئی جس کی وجہ کھانے پینے کی خواہش
نہ ہونا تھا جس کے نتیجے میں اس کا وزن تیزی سے کم ہوا۔ڈاکٹر لنڈن کے اندر بھوک اور
پیاس کی کمی کی وجہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں مگر ایک سال کا عرصہ گزر جانے اور پانچ
مختلف شہروں کے ماہرین کو دکھانے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا، مگر ڈاکٹروں نے یہ ضرور
جان لیا ہے کہ لنڈن ممکنہ طور پر اس انوکھے مرض کا شکار دنیا کا واحد فرد ہے۔اب لنڈن
کو کھانا اور پینا یاد دلایا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کے اساتذہ اسکول کے اندر اسے کھانے
کی عادت کے لیے رغبت دلانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب ڈاکٹر تاحال لنڈن
کی اس بیماری کی وجہ جاننے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں مگر ابھی بھی اس بارے میں یقین
سے کوئی بات سامنے نہیں آسکی ہے۔ پراسرار انداز میں مفلوج ہوجانے والی لڑکی سال
2013 میں کرسمس سے کچھ عرصہ پہلے امریکی ریاست فلوریڈا سے تعلق رکھنے والی میریسیو
گریونا کو اس کی ماں فلو ویکسین لگوانے کے لیے ہسپتال لے کر آئی اور تین دن بعد اس
بچی کو ایک صبح اٹھنے میں مشکلات کا سامنا ہوا اور وہ قوت گویائی سے محروم ہوگئی۔ پریشان
حال والدین اسے لے کر ہسپتال پہنچے جہاں معلوم ہوا کہ ان کی بیٹی اے ڈی ای ایم نامی
ایسے مرض کا شکار ہوگئی ہے جس میں فلو میں مبتلا ہونے کے بعد اس کی جسمانی قوت مدافعت
نے شحم اعصاب (عصبی ریشوںکامغزی غلاف)کو نشانہ بنایا جہاں سے یہ دماغ اور ریڑھ کی ہڈی
کے اعصابی نظام تک پھیل گیا۔ دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کے اندر کا سفید مادہ شحم اعصاب
کے بغیر بہت زیادہ کمزور ہوگیا اور اس میں شدت سے فالج اور بینائی جانے کا خدشہ بڑھ
جاتا ہے۔ڈاکٹروں نے والدین کے ان الزامات کی تصدیق یا تردید نہیں کی کہ میریسیو کو
دی جانے والی فلو ویکسین ہی اس مرض کا سبب بنی ہے۔ تاہم طبی ماہرین نے اس بات کی تصدیق
ضرور کی ہے کہ اے ڈی ای ایم کی حقیقی وجہ نامعلوم ہے اور بچی کے ٹیسٹوں میں اب تک اس
مرض میں مبتلا ہونے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوسکا ہے۔اگرچہ ڈاکٹروں کو ایسا لگتا
ہے کہ بچی میں بیماری کی علامات جس پراسرار انداز میں سامنے آئی واپس ریورس بھی ہوسکتی
ہے مگر پھر بھی اس کا مستقبل تاریک نظرآتا ہے۔ وہ آنسوؤں سے نہیں پتھروں سے روتی
ہے! سال 2014 کے آغاز میں یمن کا شہری محمد صالح الجہارانی اس وقت حیرت سے گنگ رہ
گیا جب اس کی آٹھ سالہ بیٹی سعدیہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جگہ ننھے منے پتھر نکلنا
شروع ہوگئے۔ سعدیہ محمد صالح کی دو بیویوں کے بطن سے پیدا ہونے والے بارہ بچوں میں
سے ایک ہے مگر اس کی آنکھوں سے پتھروں کے اشک کا برسنا ہر ایک کے لیے حیرت کا باعث
ہے کیونکہ اب تک اس کی وجہ معلوم نہیں ہوسکی ہے اور ڈاکٹروں کو اس کی آنکھوں کے معائنے
کے دوران کوئی غیرمعمولی چیز بھی نظر نہیں آئی۔ اس سے پہلے اسی خطے کی ایک پندرہ سالہ
لڑکی ثبورا حسن الفارغ کو بھی آنکھوں سے ننھے پتھروں والے آنسو نکلنے کا تجربہ ہوا
تھا تاہم اردن میں علاج کے بعد وہ صحت یاب ہونے لگی مگر بدقسمتی سے سعدیہ کے ساتھ ایسا
نہیں ہوسکا۔ ڈاکٹر اس کی مدد کرنے میں ناکام نظرآتے ہیں اور اس کے گاؤں کے رہائشیوں
نے تو ماننا شروع کردیا ہے کہ یہ بچی کسی روح کے زیراثر یا جادو کا شکار ہے۔اس کے والد
نے ایک انٹرویو کے دوران تصدیق کی کہ سعدیہ اکثر عام لوگوں کی طرح بھی اشک بہاتی ہے
اور پتھر عموماً سہ پہر اور رات کو ہی آنکھوں سے برستے ہیں خوش قسمتی سے آنکھوں سے
آنسوؤں کی جگہ پتھر نکلنے کے باوجود سعدیہ کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ وہ لڑکی جس کی
عمر کبھی نہیں بڑھی امریکی ریاست میری لیڈ میں بروک گری برگ نامی لڑکی کا جب بیس سال
کی عمر میں انتقال ہوا تو اس وقت تک وہ کبھی بولنا نہیں سیکھ سکی تھی اور چلنے کے لیے
بھی چاروں ہاتھوں پیروں کا استعمال کرتی تھی۔ درحقیقت عمر بڑھنے کے باوجود اس کے جسم
نے نشوونما سے انکار کردیا تھا اور اپنی موت کے وقت بروک کی نہ صرف ذہنی حالت بلکہ
اس کا جسم بھی ایک نومولود بچے جیسا ہی تھا۔ سائنسدان اور ڈاکٹر اب بھی بروک کی طبی
حالت کی وضاحت کرنے سے قاصر ہیں اور اسے پیدائش کے بعد سے ہی ایک ’’کرشماتی‘‘ بچی قرار
دیا جاتا ہے کیونکہ وہ معدے میں ہونے والے پھوڑوں کے ساتھ ساتھ ایک بار فالج سے بھی
بچنے میں کام یاب رہی تھی۔ اسے ایک بار دماغی رسولی کا بھی سامنا ہوا جس کے باعث وہ
دو ہفتے تک سوتی رہی اور حیرت انگیز طور پر جب وہ جاگی تو رسولی بھی کہیں غائب ہوگئی
اس وقت سے اب تک ڈاکٹروں کے لیے وہ چیز بھی معمہ بنی ہوئی ہے۔ اس کی جسمانی نشوونما
بھی بہت عجیب تھی کیونکہ سولہ سال کی عمر تک اس کے دودھ کے دانت نہیں ٹوٹے تھے مگر
اس کی ہڈیاں مضبوطی کے لحاظ سے کسی دس سالہ بچے کی طرح تھی (مگر سائز یا حجم نہیں تھا)۔
اس کے بالوں اور ناخنوں کے بڑھنے کی رفتار معمول کے مطابق تھی اور وہ اپنے بہن بھائیوں
کو پہچاننے اور خوشی کے اظہار کی صلاحیت رکھتی تھی۔ ’’میں دیکھ سکتی ہوں!!‘‘ نیوزی
لینڈ کے شہر آک لینڈ کی رہائشی لیزا ریڈ گیارہ سال کی عمر میں بینائی کی نعمت سے محروم
ہوگئی تھی اور اس کی بحالی کی کوئی امید بھی نہیں رہی تھی مگر چوبیس سال کی عمر میں
ایک روز اس کا سر حادثاتی طور پر ایک جگہ ٹکرا گیا اور اگلی صبح جب وہ سو کر اٹھی تو
اس کی بینائی دوبارہ بحال ہوچکی تھی۔ بچپن میں لیزا ایک رسولی کا شکار ہوئی تھی جس
نے اس کی آنکھوں کے اعصاب کو بری طرح متاثر کیا تھا جس کی وجہ سے وہ دیکھنے کی صلاحیت
سے محروم ہوگئی تھی جس کے بعد ڈاکٹروں نے بھی جواب دے دیا تھا اور اس نے اپنی حالت
پر سمجھوتا کرتے ہوئے ایک گائیڈ کتا لے لیا تھا۔درحقیقت یہ کتا ہی اس کی بینائی کی
دوبارہ بحالی کا ذریعہ بنا کیونکہ سال 2000 کی ایک رات لیزا جب اپنے کتے کو بوسہ دینے
کی کوشش کررہی تھی تو اس کا سر کافی کی میز سے جا ٹکرایا تھا اور فوری طورپر ہلکے سردرد
سے زیادہ کچھ نہیں مگر اگلی صبح اس کی آنکھوں کے سامنے چھایا اندھیرا چھٹ چکا تھا۔
ڈاکٹر اس کی کوئی بھی وجہ بتانے سے قاصر رہے اور اس واقعے کو چودہ سال گزر جانے کے
بعد بھی لیزا کی بینائی تاحال برقرار ہے۔ وہ بچہ جو اپنا منہ نہیں کھول سکتا جبڑوں
کا لاک یا ان کی حرکت تھم جانا کتوں میں عام ہے مگر کینیڈا کے شہر اوٹاوہ میں رواں
برس کے شروع میں ایک نومولود بچہ اس کیفیت کا شکار ہوا تو ڈاکٹروں کے ہاتھ پاؤں پھول
گئے۔ وائٹ نامی بچہ جون 2013 میں پیدا ہوا تو رونے کے دوران وہ اپنا منہ کھول نہیں
پاتا تھا جس کے بعد اسے اپنی زندگی کے اولین تین ماہ ہسپتال میں گزارنے پڑے جہاں ڈاکٹروں
نے اس کی مدد کے لیے اپنی ہرممکن کوشش کی۔تاہم ننھے بچے کی کوئی مدد نہ کرپانے پر ڈاکٹروں
نے اسے گھر بھیج دیا اور والدین کو اس انوکھی بیماری کی کوئی وجہ بھی بتانے سے قاصر
رہے۔ اس کے بعد کئی مہینوں کے دوران یہ ننھا بچہ چھ مواقعوں پر زندگی سے محروم ہونے
کے قریب پہنچ گیا جس کی وجہ منہ کی حرکت رک جانے سے ہوا یا آکسیجن کا جسم میں داخل
نہ ہونا تھا درحقیقت اس کا لعاب دہن منہ میں جم کر ہوا کی گزرگاہ کو بند کردیتا تھا۔
ڈاکٹروں نے اس کے بعد اس مرض پر قابو پانے کے لیے کئی کوششیں کیں مگر اب بھی وہ بچہ
خطرے سے دوچار ہے کیونکہ عمر بڑھنے کے ساتھ اس کے عارضے کی شدت بھی بڑھ رہی ہے اور
اپنی پہلی سالگرہ کے بعد سے اس ننھے فرشتے کو غذا ایک نالی کے ذریعے معدے تک پہنچائی
جاتی ہے اور حال ہی میں والدین کو یہ بھی معلوم ہوا کہ وائٹ اپنی دونوں پلکیں بیک وقت
جھپکانے کی صلاحیت بھی رکھتا۔ فالج کے بعد بولی بدل گئی سال 2006 کی بات ہے جب کینیڈین
شہر اونٹاریو کی رہائشی روزمیری ڈورے نے الجھن اور کم زوری کی کیفیت محسوس کرکے قریبی
ہسپتال کا رخ کیا وہاں پتا چلا کہ اس کے دماغ کے بائیں حصے پر فالج کا ہلکا سا دورہ
ہوا ہے۔ ہسپتال میں داخلے سے قبل روزمیری عملے سے سدرن اونٹاریو کے لہجے (بولی) میں
بات چیت کی مگر کچھ دن بعد سب اس وقت حیران رہ گئے جب وہ اچانک ہی مشرقی کینیڈین بولی
بولنا شروع ہوگئی۔ یہاںتک کہ وہ اپنے معمول کی بولی بولنے کی کوشش بھی کرتی مگر وہ
کچھ کر نہیں پاتی جس پر ڈاکٹروں نے یہ خیال پیش کیا کہ فالج کے نتیجے میں روزمیری ڈورے
فارن اسینٹ سائنڈروم میں مبتلا ہوگئی ہے۔ اس کی کیفیت کی مزید جانچ پڑتال سے انکشاف
ہوا کہ درحقیقت روزمیری فال سے قبل ہی آہستگی سے بولنے لگی تھی اور اس کی بولی پہلے
سے ہی تبدیل ہونا شروع ہوگئی تھی مگر اس کا دماغ اس نئے لہجے کے خلاف رکاوٹ پیدا کررہا
تھا۔ درد نہیں ہوتا امریکی ریاست کے علاقے بگ لیک کی رہائشی گیبی گینجراس جب بہت چھوٹی
تھی تو وہ اپنی انگلیاں مسلسل اپنی آنکھوں پر مسلتی رہتی تھی جس کے نتیجے میں اس کی
آنکھ ضائع ہوگئی جبکہ وہ اپنی انگلیاں بھی چبانے کی بھی عادی تھی۔ درحقیقت گیبی ایک
انتہائی نایاب قسم کے طبی عارضے کی شکار ہے جس میں مریض کو درد ہی محسوس نہیں ہوتا
یہی وہ ہے کہ جب یہ بچی سات سال کی ہوئی تو اسے ہیلمٹ اور گلاسز پہننے پڑتے تھے تاکہ
خود کو محفوظ رکھ سکے یہاں تک کہ اس کے سر پر تیزدھار سے خراشیں بھی پڑتی تو بھی اس
کے ماتھے پر ایک شکن نہیں پڑتی تھی۔ سال 2005 میں گیبی کو اوپرا انفراے کے شو میں بھی
خاندان سمیت مدعو کیا گیا جہاں اس کے والدین نے وہ سب کچھ بتایا جس کا انہیں روزمرہ
میں سامنا ہوتا تھا، انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ کس طرح گیبی کا جبڑہ ٹوٹ گیا اور
اسے کچھ محسوس ہی نہیں ہوا اور حیرت انگیز طور پر ایک ماہ تک گھر میں بھی کوئی اس پر
توجہ نہیں دے سکا۔ بارہ لڑکیوں کوبہ یک وقت ہونے والی بیماری ہوسکتا ہے کہ متعدد افراد
اسے ہسٹریا کا ایک واقعہ قرار دے کر نظر انداز کردیں مگر نیویارک کے ایک ہائی اسکول
میں زیرتعلیم بارہ لڑکیوں کو ایک ایسے مشترکہ تجربے کا سامنا ہوا جس نے ڈاکٹروں کو
وضاحت تلاش کرنے پر مجبور کردیا۔ سال 2011 میں دوپہر کے قیلولے کے بعد ایک طالبہ تھیرا
سانچز بیدار ہوئی تو اس کے لیے اپنے ہاتھوں پیروں کو کنٹرول کرنا ناممکن ہوگیا تھا
بلکہ وہ مسلسل چیخ چلا رہی تھی اور ایسا اس کے ساتھ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا خاص طور
پر ایسی عجیب آوازیں جن کو سن کر لگ رہا تھا جیسے اس پر تشدد ہورہا ہو۔ مگر سب سے
عجیب بات اس کے بعد سامنے آئی کہ سانچز کے اسکول کی گیارہ لڑکیوں کو بھی اسی شکایت
کا سامنا ہوا، ایک دماغی ماہر نے یہ خیال پیش کیا کہ ان لڑکیوں کو ہسٹریا کا دورہ پڑا
جبکہ دیگر ڈاکٹروں کا ماننا تھا کہ کسی قسم کا تناؤ اس عجیب عارضے کا سبب بنا ہے۔
باقی لڑکیاں تو ٹھیک ہوگئیں مگر تھیرا کو تاحال اس طرح کے دورے پڑتے ہیں اور اب تک
ڈاکٹر اس حوالے سے کوئی قابل اطمینان وضاحت پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ٭٭٭٭
کہا جاتا ہے کہ موجودہ عہد میں انسان نے
سائنس کے میدان میں جتنی ترقی کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ طبی دنیا میں تو لگ بھگ
روزانہ کی بنیاد پر کوئی نہ کوئی نئی ایسی تحقیق سامنے آتی رہتی ہے جس میں کسی مرض
کے علاج کی دریافت یا اسباب معلوم ہوجانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ نت نئی ویکسینز اور
طریقہ علاج بھی ناقابل یقین تیز رفتاری سے سامنے آرہے ہیں۔ ماضی قریب کی کئی مہلک
بیماریوں کا علاج بھی ہونے لگا ہے۔ اس کے باوجود اب بھی ایسے کیسز سامنے آجاتے ہیں
جو عام معالجین تو کیا طبی ماہرین کو ششدر کردیتے ہیں۔ ایسی چند مثالیں ہوسکتا ہے کہ
آپ کی حیرانی کا بھی سبب بنیں۔ اُسے آنکھیں ’’سُنائی‘‘ دیتی ہیں۔۔۔۔ آٹھ سال پہلے
کی بات ہے کہ برطانوی علاقے لنکاشائر سے تعلق رکھنے والی جولی ریڈ فرن مقبول کمپیوٹر
گیم ٹیٹریس کھیلنے میں مصروف تھی کہ اس نے ایک مزاحیہ سی تیز آواز سنی، شروع میں تو
اسے اندازہ نہیں ہوسکا کہ یہ شور کہاں سے آرہا ہے مگر پھر اسے احساس ہوا کہ یہ آواز
اسی وقت آتی ہے جب وہ اپنی آنکھوں کو حرکت دیتی ہے یعنی جولی اپنی آنکھوں کی پتلیوں
کی آواز سن رہی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ جولی کو یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ اپنی شریانوں
میں دوڑتے خون کی آواز کو سننے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ کھانا چبانے کی آواز
تو اس کے لیے اتنی بلند ہوتی ہے کہ اسے کھانے کی میز پر کسی اور کی بات سنائی ہی نہیں
دیتی مگر پھر بھی سب سے بدترین چیز اس وقت ہوتی تھی جب ٹیلیفون بجنے کے بعد اس کی آنکھیں
خودبخود تیزی سے گھومنا شروع ہوجاتی۔جولی میں ایس سی ڈی ایس نامی مرض کی تشخیص ہوئی
یہ ایک ایسا نایاب مرض ہے جس سے کان کی اندرونی ہڈیاں کثافت سے محروم ہوجاتی ہیں جس
سے سماعت بہت زیادہ حساس یا تیز ہوجاتی ہے۔ڈاکٹروں کو اس مرض کا علم 1990 کی دہائی
میں ہوا تھا اور جولی کو بھی اس سے نجات دلانے کے لیے بڑا آپریشن ہوا۔ طبی ماہر جولی
کے ایک کان کی سماعت کو معمول پر لانے میں کام یاب ہوگئے تاہم اب بھی اس کا ایک کان
آنکھوں سے لے کر جسم کے ہر حصے میں پیدا ہونے والی آواز سننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
بھوک ہی نہیں لگتی بارہ سالہ لنڈن جونز امریکی ریاست آئیووا کا رہائشی ہے۔ 2013 کی
ایک صبح جب وہ بیدار ہوا تو اسے معمول کے مطابق بھوک محسوس نہیں ہوئی، وہ غشی سی محسوس
کررہا تھا اور اس کی کھانسی رک ہی نہیں پارہی تھی کیونکہ بلغم نے اس کے سینے کو جکڑ
رکھا تھا۔ لنڈن کے والدین اسے فوری طور پر ہسپتال لے کر گئے جہاں بچے کے بائیں پھیپھڑے
میں انفیکشن کا انکشاف ہوا اور جلد ہی اس کا علاج کرلیا گیا۔ مگر صحت یابی کے بعد گھر
واپسی پر بھی لنڈن کو پھر کبھی بھوک محسوس نہیں ہوئی جس کی وجہ کھانے پینے کی خواہش
نہ ہونا تھا جس کے نتیجے میں اس کا وزن تیزی سے کم ہوا۔ڈاکٹر لنڈن کے اندر بھوک اور
پیاس کی کمی کی وجہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں مگر ایک سال کا عرصہ گزر جانے اور پانچ
مختلف شہروں کے ماہرین کو دکھانے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا، مگر ڈاکٹروں نے یہ ضرور
جان لیا ہے کہ لنڈن ممکنہ طور پر اس انوکھے مرض کا شکار دنیا کا واحد فرد ہے۔اب لنڈن
کو کھانا اور پینا یاد دلایا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کے اساتذہ اسکول کے اندر اسے کھانے
کی عادت کے لیے رغبت دلانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب ڈاکٹر تاحال لنڈن
کی اس بیماری کی وجہ جاننے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں مگر ابھی بھی اس بارے میں یقین
سے کوئی بات سامنے نہیں آسکی ہے۔ پراسرار انداز میں مفلوج ہوجانے والی لڑکی سال
2013 میں کرسمس سے کچھ عرصہ پہلے امریکی ریاست فلوریڈا سے تعلق رکھنے والی میریسیو
گریونا کو اس کی ماں فلو ویکسین لگوانے کے لیے ہسپتال لے کر آئی اور تین دن بعد اس
بچی کو ایک صبح اٹھنے میں مشکلات کا سامنا ہوا اور وہ قوت گویائی سے محروم ہوگئی۔ پریشان
حال والدین اسے لے کر ہسپتال پہنچے جہاں معلوم ہوا کہ ان کی بیٹی اے ڈی ای ایم نامی
ایسے مرض کا شکار ہوگئی ہے جس میں فلو میں مبتلا ہونے کے بعد اس کی جسمانی قوت مدافعت
نے شحم اعصاب (عصبی ریشوںکامغزی غلاف)کو نشانہ بنایا جہاں سے یہ دماغ اور ریڑھ کی ہڈی
کے اعصابی نظام تک پھیل گیا۔ دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کے اندر کا سفید مادہ شحم اعصاب
کے بغیر بہت زیادہ کمزور ہوگیا اور اس میں شدت سے فالج اور بینائی جانے کا خدشہ بڑھ
جاتا ہے۔ڈاکٹروں نے والدین کے ان الزامات کی تصدیق یا تردید نہیں کی کہ میریسیو کو
دی جانے والی فلو ویکسین ہی اس مرض کا سبب بنی ہے۔ تاہم طبی ماہرین نے اس بات کی تصدیق
ضرور کی ہے کہ اے ڈی ای ایم کی حقیقی وجہ نامعلوم ہے اور بچی کے ٹیسٹوں میں اب تک اس
مرض میں مبتلا ہونے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوسکا ہے۔اگرچہ ڈاکٹروں کو ایسا لگتا
ہے کہ بچی میں بیماری کی علامات جس پراسرار انداز میں سامنے آئی واپس ریورس بھی ہوسکتی
ہے مگر پھر بھی اس کا مستقبل تاریک نظرآتا ہے۔ وہ آنسوؤں سے نہیں پتھروں سے روتی
ہے! سال 2014 کے آغاز میں یمن کا شہری محمد صالح الجہارانی اس وقت حیرت سے گنگ رہ
گیا جب اس کی آٹھ سالہ بیٹی سعدیہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جگہ ننھے منے پتھر نکلنا
شروع ہوگئے۔ سعدیہ محمد صالح کی دو بیویوں کے بطن سے پیدا ہونے والے بارہ بچوں میں
سے ایک ہے مگر اس کی آنکھوں سے پتھروں کے اشک کا برسنا ہر ایک کے لیے حیرت کا باعث
ہے کیونکہ اب تک اس کی وجہ معلوم نہیں ہوسکی ہے اور ڈاکٹروں کو اس کی آنکھوں کے معائنے
کے دوران کوئی غیرمعمولی چیز بھی نظر نہیں آئی۔ اس سے پہلے اسی خطے کی ایک پندرہ سالہ
لڑکی ثبورا حسن الفارغ کو بھی آنکھوں سے ننھے پتھروں والے آنسو نکلنے کا تجربہ ہوا
تھا تاہم اردن میں علاج کے بعد وہ صحت یاب ہونے لگی مگر بدقسمتی سے سعدیہ کے ساتھ ایسا
نہیں ہوسکا۔ ڈاکٹر اس کی مدد کرنے میں ناکام نظرآتے ہیں اور اس کے گاؤں کے رہائشیوں
نے تو ماننا شروع کردیا ہے کہ یہ بچی کسی روح کے زیراثر یا جادو کا شکار ہے۔اس کے والد
نے ایک انٹرویو کے دوران تصدیق کی کہ سعدیہ اکثر عام لوگوں کی طرح بھی اشک بہاتی ہے
اور پتھر عموماً سہ پہر اور رات کو ہی آنکھوں سے برستے ہیں خوش قسمتی سے آنکھوں سے
آنسوؤں کی جگہ پتھر نکلنے کے باوجود سعدیہ کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ وہ لڑکی جس کی
عمر کبھی نہیں بڑھی امریکی ریاست میری لیڈ میں بروک گری برگ نامی لڑکی کا جب بیس سال
کی عمر میں انتقال ہوا تو اس وقت تک وہ کبھی بولنا نہیں سیکھ سکی تھی اور چلنے کے لیے
بھی چاروں ہاتھوں پیروں کا استعمال کرتی تھی۔ درحقیقت عمر بڑھنے کے باوجود اس کے جسم
نے نشوونما سے انکار کردیا تھا اور اپنی موت کے وقت بروک کی نہ صرف ذہنی حالت بلکہ
اس کا جسم بھی ایک نومولود بچے جیسا ہی تھا۔ سائنسدان اور ڈاکٹر اب بھی بروک کی طبی
حالت کی وضاحت کرنے سے قاصر ہیں اور اسے پیدائش کے بعد سے ہی ایک ’’کرشماتی‘‘ بچی قرار
دیا جاتا ہے کیونکہ وہ معدے میں ہونے والے پھوڑوں کے ساتھ ساتھ ایک بار فالج سے بھی
بچنے میں کام یاب رہی تھی۔ اسے ایک بار دماغی رسولی کا بھی سامنا ہوا جس کے باعث وہ
دو ہفتے تک سوتی رہی اور حیرت انگیز طور پر جب وہ جاگی تو رسولی بھی کہیں غائب ہوگئی
اس وقت سے اب تک ڈاکٹروں کے لیے وہ چیز بھی معمہ بنی ہوئی ہے۔ اس کی جسمانی نشوونما
بھی بہت عجیب تھی کیونکہ سولہ سال کی عمر تک اس کے دودھ کے دانت نہیں ٹوٹے تھے مگر
اس کی ہڈیاں مضبوطی کے لحاظ سے کسی دس سالہ بچے کی طرح تھی (مگر سائز یا حجم نہیں تھا)۔
اس کے بالوں اور ناخنوں کے بڑھنے کی رفتار معمول کے مطابق تھی اور وہ اپنے بہن بھائیوں
کو پہچاننے اور خوشی کے اظہار کی صلاحیت رکھتی تھی۔ ’’میں دیکھ سکتی ہوں!!‘‘ نیوزی
لینڈ کے شہر آک لینڈ کی رہائشی لیزا ریڈ گیارہ سال کی عمر میں بینائی کی نعمت سے محروم
ہوگئی تھی اور اس کی بحالی کی کوئی امید بھی نہیں رہی تھی مگر چوبیس سال کی عمر میں
ایک روز اس کا سر حادثاتی طور پر ایک جگہ ٹکرا گیا اور اگلی صبح جب وہ سو کر اٹھی تو
اس کی بینائی دوبارہ بحال ہوچکی تھی۔ بچپن میں لیزا ایک رسولی کا شکار ہوئی تھی جس
نے اس کی آنکھوں کے اعصاب کو بری طرح متاثر کیا تھا جس کی وجہ سے وہ دیکھنے کی صلاحیت
سے محروم ہوگئی تھی جس کے بعد ڈاکٹروں نے بھی جواب دے دیا تھا اور اس نے اپنی حالت
پر سمجھوتا کرتے ہوئے ایک گائیڈ کتا لے لیا تھا۔درحقیقت یہ کتا ہی اس کی بینائی کی
دوبارہ بحالی کا ذریعہ بنا کیونکہ سال 2000 کی ایک رات لیزا جب اپنے کتے کو بوسہ دینے
کی کوشش کررہی تھی تو اس کا سر کافی کی میز سے جا ٹکرایا تھا اور فوری طورپر ہلکے سردرد
سے زیادہ کچھ نہیں مگر اگلی صبح اس کی آنکھوں کے سامنے چھایا اندھیرا چھٹ چکا تھا۔
ڈاکٹر اس کی کوئی بھی وجہ بتانے سے قاصر رہے اور اس واقعے کو چودہ سال گزر جانے کے
بعد بھی لیزا کی بینائی تاحال برقرار ہے۔ وہ بچہ جو اپنا منہ نہیں کھول سکتا جبڑوں
کا لاک یا ان کی حرکت تھم جانا کتوں میں عام ہے مگر کینیڈا کے شہر اوٹاوہ میں رواں
برس کے شروع میں ایک نومولود بچہ اس کیفیت کا شکار ہوا تو ڈاکٹروں کے ہاتھ پاؤں پھول
گئے۔ وائٹ نامی بچہ جون 2013 میں پیدا ہوا تو رونے کے دوران وہ اپنا منہ کھول نہیں
پاتا تھا جس کے بعد اسے اپنی زندگی کے اولین تین ماہ ہسپتال میں گزارنے پڑے جہاں ڈاکٹروں
نے اس کی مدد کے لیے اپنی ہرممکن کوشش کی۔تاہم ننھے بچے کی کوئی مدد نہ کرپانے پر ڈاکٹروں
نے اسے گھر بھیج دیا اور والدین کو اس انوکھی بیماری کی کوئی وجہ بھی بتانے سے قاصر
رہے۔ اس کے بعد کئی مہینوں کے دوران یہ ننھا بچہ چھ مواقعوں پر زندگی سے محروم ہونے
کے قریب پہنچ گیا جس کی وجہ منہ کی حرکت رک جانے سے ہوا یا آکسیجن کا جسم میں داخل
نہ ہونا تھا درحقیقت اس کا لعاب دہن منہ میں جم کر ہوا کی گزرگاہ کو بند کردیتا تھا۔
ڈاکٹروں نے اس کے بعد اس مرض پر قابو پانے کے لیے کئی کوششیں کیں مگر اب بھی وہ بچہ
خطرے سے دوچار ہے کیونکہ عمر بڑھنے کے ساتھ اس کے عارضے کی شدت بھی بڑھ رہی ہے اور
اپنی پہلی سالگرہ کے بعد سے اس ننھے فرشتے کو غذا ایک نالی کے ذریعے معدے تک پہنچائی
جاتی ہے اور حال ہی میں والدین کو یہ بھی معلوم ہوا کہ وائٹ اپنی دونوں پلکیں بیک وقت
جھپکانے کی صلاحیت بھی رکھتا۔ فالج کے بعد بولی بدل گئی سال 2006 کی بات ہے جب کینیڈین
شہر اونٹاریو کی رہائشی روزمیری ڈورے نے الجھن اور کم زوری کی کیفیت محسوس کرکے قریبی
ہسپتال کا رخ کیا وہاں پتا چلا کہ اس کے دماغ کے بائیں حصے پر فالج کا ہلکا سا دورہ
ہوا ہے۔ ہسپتال میں داخلے سے قبل روزمیری عملے سے سدرن اونٹاریو کے لہجے (بولی) میں
بات چیت کی مگر کچھ دن بعد سب اس وقت حیران رہ گئے جب وہ اچانک ہی مشرقی کینیڈین بولی
بولنا شروع ہوگئی۔ یہاںتک کہ وہ اپنے معمول کی بولی بولنے کی کوشش بھی کرتی مگر وہ
کچھ کر نہیں پاتی جس پر ڈاکٹروں نے یہ خیال پیش کیا کہ فالج کے نتیجے میں روزمیری ڈورے
فارن اسینٹ سائنڈروم میں مبتلا ہوگئی ہے۔ اس کی کیفیت کی مزید جانچ پڑتال سے انکشاف
ہوا کہ درحقیقت روزمیری فال سے قبل ہی آہستگی سے بولنے لگی تھی اور اس کی بولی پہلے
سے ہی تبدیل ہونا شروع ہوگئی تھی مگر اس کا دماغ اس نئے لہجے کے خلاف رکاوٹ پیدا کررہا
تھا۔ درد نہیں ہوتا امریکی ریاست کے علاقے بگ لیک کی رہائشی گیبی گینجراس جب بہت چھوٹی
تھی تو وہ اپنی انگلیاں مسلسل اپنی آنکھوں پر مسلتی رہتی تھی جس کے نتیجے میں اس کی
آنکھ ضائع ہوگئی جبکہ وہ اپنی انگلیاں بھی چبانے کی بھی عادی تھی۔ درحقیقت گیبی ایک
انتہائی نایاب قسم کے طبی عارضے کی شکار ہے جس میں مریض کو درد ہی محسوس نہیں ہوتا
یہی وہ ہے کہ جب یہ بچی سات سال کی ہوئی تو اسے ہیلمٹ اور گلاسز پہننے پڑتے تھے تاکہ
خود کو محفوظ رکھ سکے یہاں تک کہ اس کے سر پر تیزدھار سے خراشیں بھی پڑتی تو بھی اس
کے ماتھے پر ایک شکن نہیں پڑتی تھی۔ سال 2005 میں گیبی کو اوپرا انفراے کے شو میں بھی
خاندان سمیت مدعو کیا گیا جہاں اس کے والدین نے وہ سب کچھ بتایا جس کا انہیں روزمرہ
میں سامنا ہوتا تھا، انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ کس طرح گیبی کا جبڑہ ٹوٹ گیا اور
اسے کچھ محسوس ہی نہیں ہوا اور حیرت انگیز طور پر ایک ماہ تک گھر میں بھی کوئی اس پر
توجہ نہیں دے سکا۔ بارہ لڑکیوں کوبہ یک وقت ہونے والی بیماری ہوسکتا ہے کہ متعدد افراد
اسے ہسٹریا کا ایک واقعہ قرار دے کر نظر انداز کردیں مگر نیویارک کے ایک ہائی اسکول
میں زیرتعلیم بارہ لڑکیوں کو ایک ایسے مشترکہ تجربے کا سامنا ہوا جس نے ڈاکٹروں کو
وضاحت تلاش کرنے پر مجبور کردیا۔ سال 2011 میں دوپہر کے قیلولے کے بعد ایک طالبہ تھیرا
سانچز بیدار ہوئی تو اس کے لیے اپنے ہاتھوں پیروں کو کنٹرول کرنا ناممکن ہوگیا تھا
بلکہ وہ مسلسل چیخ چلا رہی تھی اور ایسا اس کے ساتھ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا خاص طور
پر ایسی عجیب آوازیں جن کو سن کر لگ رہا تھا جیسے اس پر تشدد ہورہا ہو۔ مگر سب سے
عجیب بات اس کے بعد سامنے آئی کہ سانچز کے اسکول کی گیارہ لڑکیوں کو بھی اسی شکایت
کا سامنا ہوا، ایک دماغی ماہر نے یہ خیال پیش کیا کہ ان لڑکیوں کو ہسٹریا کا دورہ پڑا
جبکہ دیگر ڈاکٹروں کا ماننا تھا کہ کسی قسم کا تناؤ اس عجیب عارضے کا سبب بنا ہے۔
باقی لڑکیاں تو ٹھیک ہوگئیں مگر تھیرا کو تاحال اس طرح کے دورے پڑتے ہیں اور اب تک
ڈاکٹر اس حوالے سے کوئی قابل اطمینان وضاحت پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں
ماخذ: http://mag.dunya.com.pk/index.php/health/1931/2015-01-11
شہیدوں کی محفوظ نعشوں کے سچے
واقعات
تحریر: مولانا ابرار عالم
میں
ان شہدائے اسلام کے چند واقعات کو قارئین کے سامنے پیش کررہاہوں جو باوثوق ذرائع
سے مجھ تک پہنچے ہیں اور خود قارئین گرامی ان واقعات اور ان کے علاوہ حضرت محمدﷺ کے زمانے سے لے کر اب تک کے تمام شہدائے اسلام کے جسموں کے محفوظ واقعات کی چھان بین کرسکتے ہیں کہ ان
سب کی نعش ہا ئے مبارکہ محفوظ ہیں یا نہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ میری بات بالکل سچ
ثابت ہوگی۔
67 صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ کی محفوظ نعشیں:
یہ واقعہ تو سب کو معلوم ہے کہ غزوۂ احد میں 70صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شہید ہوئے تھے جن میں سے ایک آپﷺ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ تھے۔ علامہ بنوری حج گروپ کے ہمراہ2008ء میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے حج پر جانے کی توفیق ہوئی۔ مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران ادائیگی حج سے پہلے گروپ لیڈر جناب بھائی رفیق شیخ صاحب نے ایک دن ہم لوگوں کو زیارات مقدسہ کیلئے بذریعہ بس لے جانے کا اعلان کیا۔
چناچہ مکہ مکرمہ کے مختلف مقامات مقدسہ کی زیارت کرتے ہوئے ہم لوگ میدانِ احد پہنچے جہاں اسلام و کفر کے مابین دوسری جنگ لڑی گئی تھی۔ میں نے دیکھا کہ اس میدان میں ایک چار دیواری ہے جس کا دروازہ لوہے کی جالی دار چادر سے بنا ہوا ہے اوردروازہ کے علاوہ دیگر اطراف میں بھی زائرین کی سہولت کیلئے لوہے کی جالی دار کھڑکی بھی لگی ہوئی ہے۔اس چار دیواری کے اندر چند قبریں واضح طور پر دکھائی دیتی ہیں۔ وہاں موجود ترجمان نے بتایا کہ اس چار دیواری میں 67شہید صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ کی نعش ہائے مبارکہ محفوظ اور صحیح و سالم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے ان تمام شہیدوں کی قبریں مختلف جگہ پر واقع تھیں ۔ سعودی حکومت نے بعد میں ان تمام قبروں سے لاشوں کو منتقل کرکے اس چار دیواری کے اندر یکجا طور پر دفن کیا جن کی تعداد 67تھی۔ جب ان شہیدوں کی نعشیں موجودہ جگہ منتقل کی جارہی تھیں تو بعض کا جسم کٹا ہوا تھا اور بعض کا جسم زخمی تھا اور جسم کے ٹکڑے ہونے کے باوجود بھی وہ صحیح و سالم تھا حالانکہ ان کو دفن کئے ہوئے بھی صدیاں بیت گئی تھیں۔ قارئین گرامی!یہ واقعہ میں نے خود اپنے کانوں سے سنا ہے۔آج بھی آپ لوگ ان حجاج کرام سے پوچھ سکتے ہیں جو غزۂ احد کی زیارت کرچکے ہوں۔
لالک جان شہید رحمتہ اللہ علیہ:
باوثوق ذرائع سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ ہندوستان و پاکستان کے درمیان کارگل میں جو جنگ ہوئی تھی اس میں پاکستان کے مالک جان رحمتہ اللہ علیہ شہید ہوگئے تھے۔ پاکستان ٹیلی ویژن نے انباوثوق ذرائع سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ ہندوستان و پاکستان کے درمیان کارگل میں جو جنگ ہوئی تھی اس میں پاکستان کے لالک جان رحمتہ اللہ علیہ شہید ہوگئے تھے۔ پاکستان ٹیلی ویژن نے ان کے بھائی سے انٹرویو کو ایک پروگرام میں نشر کیا تھا جس کا خلاصہ بقول ان کے بھائی یہ ہے کہ لالک جان رحمتہ اللہ علیہ نے یہ وصیت کر رکھی تھی کہ مجھے فلاں قبرستان میں دفن کیا جائے۔
چناچہ ان کی وصیت کے مطابق 6ماہ بعد جب ان کی قبر کھولی گئی تاکہ ان کو دوسری جگہ دفنایا جائے تو ان کا جسم بالکل صحیح و سالم اور ترو تازہ حالت میں محفوظ پایا گیا۔نیز جو گلاب کی پتیاں ان پر چھڑکی گئی تھیں وہ پتیاں تک بالکل ترو تازہ تھیں اور کفن بھی بوسیدہ نہیں ہوا تھا۔ حتی کہ ان کے چہرے پرڈاڑھی بھی نکل آئی تھی حالانکہ شہادت سے پہلے انکی ڈاڑھی نہیں تھی۔قارئین
گرامی!یہ وہ سچا واقعہ ہے جس کی تصدیق آپ (P.T.V) پاکستان ٹیلی ویژن سے باآسانی کرسکتے ہیں۔جہاں تک ڈاڑھی نکل آنے کی بات ہے تو میری سمجھ کے مطابق اس کی توجیح یہ ہے کہ قبر میں ایک عام آدمی یا ان پڑھ مسلمان سے بھی عربی زبان میں سوال کیا جائے گا حالانکہ عام آدمی عربی زبان نہیں جانتا۔ نیز اگر اسکے اعمال صالح ہونگے تو وہ عربی زبان میں جواب دے گا نیز اگر اسکے اعمال فاسق و فاجرہونے کے سبب برے ہوں گے تو منکر نکیر کے سوالوں کے جواب نفی میں دے گا کہ اسے معلوم نہیں۔
اسی طرح کرامتاً ڈاڑھی والی بات بھی ممکن ہے کیونکہ شہیدجب میدانِ جنگ میں اترتاہے تو اپنی جان کو اللہ کے حوالے کردیتا ہے تو اسکے بدلے میں اللہ اسے جنت دے دیتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ڈاڑھی رکھنے کی سنت تو وہ پوری نہ کرسکے لیکن شہادت چونکہ بہت بڑا عمل ہے لہذا اس کی وجہ سے شہید کو اللہ تعالیٰ سنت پر عمل کرنے والے کا درجہ بھی دے دیتا ہو اور اس بنا پر جب ان کو وہ مقام مل گیا تو انکی ڈاڑھی بھی نکل آئی ہو۔
بہرحال یہ باتیں میری طرف سے ایک قیاس ہے ورنہ اس کی توجیح میری نظر سے نہیں گزری۔ شہید جنتی ہوتا ہے اور جنتی کی ہر خواہش پوری کی جاتی ہے لہذا ممکن ہے کہ لالک جان شہید رحمتہ اللہ علیہ کواپنی زندگی میں ڈاڑھی رکھنے کی خواہش ہو لیکن کسی وجہ سے نہ رکھ سکے ہوں تو اللہ تعالیٰ نے انکی یہ خواہش ان کی شہادت کے بعد پوری کردی ہو۔ یہ کوئی ناممکن بات نہیں کیونکہ جنتی کا جسم لمبائی اور چوڑائی میں بہت بڑھ جاتا ہے یعنی جسمانی طور پر تبدیلی آتی ہے تو ڈاڑھی آنا بھی ایک تبدیلی ہی ہے ۔تروتازہ لاشیں
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان کی حکومت غیرمسلموں کی ہے اور پاکستان کی حکومت مسلمانوں کی ہے چاہے جیسی بھی ہولیکن کفر کے مقابلے میں تو بدرجہا بہتر ہے۔ اسی بنا پر لالک جان رحمتہ اللہ علیہ چونکہ اسلامی حکومت کی طرف سے جنگ میں شریک ہوئے تھے اور مقصد دین اسلام اور اس کے ماننے والوں کی مدد و نصرت تھی لہذا اللہ تعالیٰ نے ان کی نیت کے صحیح ہونے کی بنا پر ان کو شہادت کا مقام دے دیا اور ان کا جسم بھی محفوظ و سالم رہا۔ ان کے علاوہ اس جنگ میں دوسرے شہداء کے جسم بھی محفوظ ہوں گے لیکن چونکہ ان کے واقعات عوام کے سامنے رونما نہ ہوسکے اس لئے ہمیں ان لوگوں کے جسموں کے محفوظ ہونے کے بارے میں مشاہداتی علم نہیں۔
1965ء کی پاکستان بھارت جنگ میں مسلمانوں کی تازہ اور ہندوؤں کی بدبودار لاشیں:
مجھے ایک صاحب نے بتایا کہ ہندوستان اور پاکستان کی جنگ کے دوران 1965ء میں پاکستانی فوجیوں کی نعشیں بھی میدان میں پڑی ہوتی تھیں اور ہندوستانیوں یعنی ہندوؤں کی بھی۔ مسئلہ یہ ہورہا تھا کہ پاکستانیوں کو اپنے شہیدوں کو پہچاننا مشکل ہوجاتا تھا تو اس موقع پر علماءِ کرام نے پہچان کی یہ صورت بتائی تھی کہ جن کی نعشیں تازہ نظر آرہی ہوں گی وہ مسلمانوں کی ہونگی اور جن کی لاشیں تازہ نہیں ہوں گی اور ان سے بدبو آرہی ہو تو وہ ہندوستانیوں اور کافروں کی ہوں گی۔ کیونکہ جو مسلمان قتل ہوئے وہ شہید ہیں اور شہید زندہ ہوتا ہے لہذا انکے جسموں سے زندگی کے آثار نمایاں ہونگے۔
بہرحال چونکہ شہداء کے حوالے سے جنگ کی بات چھڑگئی ہے تو اس حوالے سے ایک اور بات قارئین کے گوش گزار کردیتا ہوں۔
افغانستان میں طالبان کی تازہ اور امریکیوں کی بدبودار لاشیں:
جامعہ بنوریہ العامیہ سائٹ ایریا کراچی کے ڈرائیور، جناب وصی احمد صاحب کے توسط سے یہ معلوم ہواکہ افغانستان میں جتنے بھی طالبان قتل ہوئے ان سب کی نعشیں بالکل صحیح و سالم اور محفوظ ہیں۔ جبکہ امریکی اور نیٹو کے فوجی جب قتل ہوتے ہیں تو ان کی لاشیں محفوظ نہیں رہتیں اور یہ کہ اگر انہیں سرد خانے میں نہ رکھا جائے تو ان کے جسموں سے چند دن بعد ہی بدبو آنے لگتی ہے۔
اس بات کا فرق امریکی فوجیوں نے واضح طور پر دیکھا تو وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ آخر یہ کیا بات ہے کہ طالبان کے جسم کئی کئی دن تک میدان میں پڑے ہوتے ہیں لیکن سڑتے گلتے نہیں اورنہ ہی ان سے بدبو آتی ہے۔جبکہ ہمارے فوجیوں کی لاشیں بدبودار ہوکر سڑنے گلنے لگتی ہیں اگر انہیں چند دن نہ اٹھایا جائے۔
ان میں سے کسی نے سوچا ہوگا کہ شاید ماحول کا اثر ہو کہ طالبان چونکہ یہاں کے ماحول میں رہنے والے ہیں اس بنا پر ان کے جسم سڑتے گلتے نہیں اور ہم لوگ چونکہ اس ماحول کے عادی نہیں ہیں اس بناپرہمارے فوجیوں کی لاشیں چند دن بعد ہی سڑنے لگتی ہیں۔
چنانچہ ان لوگوں نے اپنے فوجیوں کی لاشوں کو افغانستان کے ماحول سے نکالا تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ ماحول کے بدلنے سے کوئی فرق پڑتا ہے یا نہیں۔ مگر یہ بات غلط ثابت ہوئی اور افغانستان کے ماحول سے باہر لے جانے کے بعد بھی ان کی لاشیں خراب ہونے لگیں تب ان پر یہ حقیقت کھلی کہ یہ حفاظت ماحول کے فرق کی وجہ سے نہیں بلکہ مذہب کے فرق کی بنا پر ہے۔
مجھے یہ واقعہ بیان کرنے والے وصی احمد صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ اس حقیقت کے جاننے کے بعد وہ امریکی فوجی مسلمان ہوئے یا نہیں؟ بہرحال ہدایت دینا تو اللہ کا کام ہے لہذا میرے خیال کے مطابق ہوسکتا ہے کہ ان میں سے بعض خفیہ طور پر مسلمان بھی ہوجاتے ہوں ۔ واللہ اعلم بالصواب۔
بہر کیف!قارئین گرامی بات جنگ کی ہورہی تھی۔انشاء اللہ اگر آپ شہداء کے قبرستانوں کی روحانی طورپر اور استخارہ کے ذریعہ بھی چھان بین کریں گے تو ہفتہ نہیں تو ہفتوں میں ضرور اللہ تعالیٰ آپ کو یہ بتائے گا کہ وہاں جتنے بھی مسلمان جنگوں میں شہید ہوئے ان سب کے جسم مبارک بالکل صحیح و سالم اور محفوظ ہیں۔
حضرت مفتی عتیق الرحمان شہید رحمتہ اللہ علیہ:
جامعہ بنوریہ العامیہ سائٹ ایریاکراچی کے مشہور و معروف استاذ الحدیث حضرت مولانا و مفتی عتیق الرحمان صاحب کا واقعہ بیان کرنے جارہا ہوں۔ 2001ء تک میں بھی جامعہ بنوریہ میں پڑھاتا رہا ہوں۔ ان دنوں حضرت مفتی صاحب سے میری ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ چونکہ حضرت بنین و بنات دونوں شعبوں میں پڑھاتے تھے اور میں بھی ان دونوں شعبوں میں پڑھاتا تھا۔
نیز مفتی صاحب کا ایک فرزند جمال عتیق ان دنوں میرا شاگرد بھی تھا۔ مفتی صاحب کی شہادت کے بعد جب میں ان کے موصوف فرزند سے ملااور مفتی صاحب کی شہادت کے بارے میں اور اس کے بعد کے حوالہ سے جاننا چاہا تو موصوف عزیزم نے جو مجھے بتایا مخصراً اپنے الفاظ میں پیش کرتا ہوں۔
انہوں نے بتایا کہ مفتی صاحب برنس روڈ پر مسجد سے آرہے تھے کہ نامعلوم افراد نے ان پر گولیاں برسا کر شہید کردیا۔ مفتی صاحب کے بارے میں بتایا گیاکہ اکثر خصوصی طور پر امریکہ کے خلاف اور عمومی طور پرحق و باطل کے موضوع پر ان کا بیان ہوتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جنازے میں عبدالستار ایدھی تشریف لائے تو ان سے سوال کیا گیاکہ آپ مفتی صاحب کے بارے میں کچھ بتائیں تو ایدھی صاحب نے بتایا کہ میری مفتی صاحب سے کوئی رشتہ داری اوردوستی نہیں لیکن میں جنازہ میں شرکت کیلئے اس لئے آیا ہوں کہ ان کا جنازہ میرے سرد خانے میں تقریباً دس گھنٹے سے زیادہ رہا۔ میں نے دیکھا کہ مفتی صاحب کے زخموں سے مسلسل خون بہہ رہا ہے۔ حالانکہ یہ بات حقیقت ہے کہ کسی بھی زخم سے خون زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے تک جاری رہ سکتا ہے اسکے بعد خون بہنا بند ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ میری زندگی کا عجیب واقعہ ہے کہ مفتی موصوف کا خون دس گھنٹوں تک مسلسل بہہ رہا تھا جس سے میں نے سمجھ لیا کہ ضرور یہ کوئی نیک آدمی ہیں اور انکے جنازے میں ضرور شرکت کرنی چاہئے کہ شاید ان کے صدقے میں میری مغفرت بھی ہوجائے۔
قارئین گرامی !میں پہلے بھی کئی بار عرض کرچکا ہوں کہ شہید زندہ ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کے حوالے سے میں نے عرض کیا ہے اور انکو اللہ تعالیٰ کے پاس سے رزق دیا جاتا ہے چونکہ اللہ تعالیٰ کے پاس سے ان کی شہادت کے بعد رزق ملنا شروع ہوجاتا ہے جو کہ دنیاوی رزق سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے اور رزق کھانے کے بعد خون کا بننا ضروری ہے۔ لہذا انکے زخموں سے مسلسل خون بہتا رہاکیونکہ ان کو اللہ تعالیٰ کے پاس سے روحانی طور پرکھانے پینے کی فراہمی شروع ہوگئی تھی۔ شہیدزندہ ہوتا ہے اور زندہ جسم میں خون کا ہونا ضروری ہے اور جب جسم میں خون بڑھتا ہی جائے گا تو یقینازخم سے مسلسل نکلناتو ضروری ہے۔اسی لئے کرامتاً مسلسل دس گھنٹوں تک خون بہتا رہا۔
بہرحال اسکے بعد عزیزم جمال عتیق صاحب نے بتایا کہ پھر تقریباً 13ماہ بعد کراچی میں بہت موسلادھار بارش ہوئی جس کے نتیجہ میں مفتی صاحب کی قبر جو کہ کچی تھی وہ کھل گئی اور مرمت کی ضرورت پڑگئی۔ چناچہ جامعہ بنوریہ کے علماء و طلباء مرمت کی غرض سے گئے اور مفتی صاحب کے فرزندجمال عتیق قبر میں اترے تاکہ مرمت کرسکیں اور قبر کی صفائی بھی ہوجائے۔تو ان کا مجھ سے بیان ہے کہ قبر سے خوشبو آرہی تھی جو کہ موجود علماء و طلباء نے بھی محسوس کی۔ نیز جب میں نے جسم کو ہاتھ لگایا تو وہ زندہ انسان کی طرح نرم و ملائم اور گرم تھا جبکہ مفتی صاحب کے خون سے بھی خوشبو آرہی تھی اور جو خون صفائی کے دوران میرے ہاتھ پر لگ گیا تھا اسے دھونے کے پندرہ دن بعد بھی ہاتھ سے خوشبو آرہی تھی۔مفتی صاحب کے صاحبزادے اور دیگر علماء کرام و طلباء نیز خود مفتی محمد نعیم صاحب جامعہ بنوریہ ممتہم نے دیکھا کہ مفتی صاحب کا جسم سوا سال بعد بھی بالکل ترو تازہ حالت میں محفوظ اور صحیح و سالم تھا۔مزید تصدیق کیلئے میری ویب سائٹwww.RightfulReligion.comدیکھئے جس پر مفتی عتیق صاحب کے صاحبزادے سے لئے گئے انٹرویو کی ویڈیو موجود ہے۔ اس بارے میں جامعہ بنوریہ فون کرکے یا ای-میل کے ذریعے یا وہاں کے علماء و طلباء سے ملاقات کرکے بھی تصدیق کی جاسکتی ہے۔
مفتی صاحب کی قبر جامعہ بنوریہ کے ذاتی قبرستان میں ہے جہاں بمشکل چھ یا سات قبر یں ہی میں نے دیکھی تھیں۔ قبرستان سے متصل مکان میں مزدور قسم کے لوگ بھی رہتے ہیں اور اس مکان کی بالکونی قبرستان کی جانب ہے۔وہاں کے مکینوں کا کہنا ہے کہ جب ہم لوگ رات کو عشاء کے بعد بالکونی میں آتے ہیں تو مفتی صاحب کی قبر سے تلاوت قرآن کی آواز آرہی ہوتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی محفل منعقد ہے۔
یہ باتیں مفتی صاحب کے صاحبزادے نے مجھے بتائی ہیں۔ یہ بات تو شریعت سے ثابت ہے کہ نیک لوگ اپنی قبروں میں عبادت بھی کرتے ہیں جیسا کہ نماز وغیرہ پڑھنا۔ چناچہ مفتی صاحب چونکہ شہیدہوئے اور شہید زندہ ہوتاہے اس بنا پر جس طرح زندہ انسان کی آواز سنی جاسکتی ہے اسی طرح مفتی صاحب کی تلاوت قرآن کی آواز بھی وہاں کے لوگوں نے سنی اور کرامتاً یہ بات ممکن ہے۔
بہرحال ،قارئین گرامی!یہ ممتاز عالم دین اورمفتی جناب عتیق الرحمان صاحب کے جسم کے محفوظ ہونے کا واقعہ اور اس سے متعلقہ باتیں تھیں۔مفتی صاحب چونکہ حق کی بات کرتے تھے اور باطل کے خلاف تھے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انھیں شہادت سے نوازا۔جب میں حج کیلئے مکہ مکرمہ گیا تو میں نے مفتی صاحب کو خواب میں دیکھاتو میں نے ان سے کہا کہ مفتی صاحب چلیں میں آپ کو آپکے گھر پہنچادیتا ہوں تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ نہیں مجھے یہیں رہنے دیں ، میں یہیں ٹھیک ہوں۔یہ خواب میں نے انکے صاحبزادے عزیزم جمال عتیق سے بھی ذکر کیا۔معلوم ہواکہ مفتی صاحب اللہ کے فضل و کرم سے جنتی ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
67 صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ کی محفوظ نعشیں:
یہ واقعہ تو سب کو معلوم ہے کہ غزوۂ احد میں 70صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شہید ہوئے تھے جن میں سے ایک آپﷺ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ تھے۔ علامہ بنوری حج گروپ کے ہمراہ2008ء میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے حج پر جانے کی توفیق ہوئی۔ مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران ادائیگی حج سے پہلے گروپ لیڈر جناب بھائی رفیق شیخ صاحب نے ایک دن ہم لوگوں کو زیارات مقدسہ کیلئے بذریعہ بس لے جانے کا اعلان کیا۔
چناچہ مکہ مکرمہ کے مختلف مقامات مقدسہ کی زیارت کرتے ہوئے ہم لوگ میدانِ احد پہنچے جہاں اسلام و کفر کے مابین دوسری جنگ لڑی گئی تھی۔ میں نے دیکھا کہ اس میدان میں ایک چار دیواری ہے جس کا دروازہ لوہے کی جالی دار چادر سے بنا ہوا ہے اوردروازہ کے علاوہ دیگر اطراف میں بھی زائرین کی سہولت کیلئے لوہے کی جالی دار کھڑکی بھی لگی ہوئی ہے۔اس چار دیواری کے اندر چند قبریں واضح طور پر دکھائی دیتی ہیں۔ وہاں موجود ترجمان نے بتایا کہ اس چار دیواری میں 67شہید صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ کی نعش ہائے مبارکہ محفوظ اور صحیح و سالم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے ان تمام شہیدوں کی قبریں مختلف جگہ پر واقع تھیں ۔ سعودی حکومت نے بعد میں ان تمام قبروں سے لاشوں کو منتقل کرکے اس چار دیواری کے اندر یکجا طور پر دفن کیا جن کی تعداد 67تھی۔ جب ان شہیدوں کی نعشیں موجودہ جگہ منتقل کی جارہی تھیں تو بعض کا جسم کٹا ہوا تھا اور بعض کا جسم زخمی تھا اور جسم کے ٹکڑے ہونے کے باوجود بھی وہ صحیح و سالم تھا حالانکہ ان کو دفن کئے ہوئے بھی صدیاں بیت گئی تھیں۔ قارئین گرامی!یہ واقعہ میں نے خود اپنے کانوں سے سنا ہے۔آج بھی آپ لوگ ان حجاج کرام سے پوچھ سکتے ہیں جو غزۂ احد کی زیارت کرچکے ہوں۔
لالک جان شہید رحمتہ اللہ علیہ:
باوثوق ذرائع سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ ہندوستان و پاکستان کے درمیان کارگل میں جو جنگ ہوئی تھی اس میں پاکستان کے مالک جان رحمتہ اللہ علیہ شہید ہوگئے تھے۔ پاکستان ٹیلی ویژن نے انباوثوق ذرائع سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ ہندوستان و پاکستان کے درمیان کارگل میں جو جنگ ہوئی تھی اس میں پاکستان کے لالک جان رحمتہ اللہ علیہ شہید ہوگئے تھے۔ پاکستان ٹیلی ویژن نے ان کے بھائی سے انٹرویو کو ایک پروگرام میں نشر کیا تھا جس کا خلاصہ بقول ان کے بھائی یہ ہے کہ لالک جان رحمتہ اللہ علیہ نے یہ وصیت کر رکھی تھی کہ مجھے فلاں قبرستان میں دفن کیا جائے۔
چناچہ ان کی وصیت کے مطابق 6ماہ بعد جب ان کی قبر کھولی گئی تاکہ ان کو دوسری جگہ دفنایا جائے تو ان کا جسم بالکل صحیح و سالم اور ترو تازہ حالت میں محفوظ پایا گیا۔نیز جو گلاب کی پتیاں ان پر چھڑکی گئی تھیں وہ پتیاں تک بالکل ترو تازہ تھیں اور کفن بھی بوسیدہ نہیں ہوا تھا۔ حتی کہ ان کے چہرے پرڈاڑھی بھی نکل آئی تھی حالانکہ شہادت سے پہلے انکی ڈاڑھی نہیں تھی۔قارئین
گرامی!یہ وہ سچا واقعہ ہے جس کی تصدیق آپ (P.T.V) پاکستان ٹیلی ویژن سے باآسانی کرسکتے ہیں۔جہاں تک ڈاڑھی نکل آنے کی بات ہے تو میری سمجھ کے مطابق اس کی توجیح یہ ہے کہ قبر میں ایک عام آدمی یا ان پڑھ مسلمان سے بھی عربی زبان میں سوال کیا جائے گا حالانکہ عام آدمی عربی زبان نہیں جانتا۔ نیز اگر اسکے اعمال صالح ہونگے تو وہ عربی زبان میں جواب دے گا نیز اگر اسکے اعمال فاسق و فاجرہونے کے سبب برے ہوں گے تو منکر نکیر کے سوالوں کے جواب نفی میں دے گا کہ اسے معلوم نہیں۔
اسی طرح کرامتاً ڈاڑھی والی بات بھی ممکن ہے کیونکہ شہیدجب میدانِ جنگ میں اترتاہے تو اپنی جان کو اللہ کے حوالے کردیتا ہے تو اسکے بدلے میں اللہ اسے جنت دے دیتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ڈاڑھی رکھنے کی سنت تو وہ پوری نہ کرسکے لیکن شہادت چونکہ بہت بڑا عمل ہے لہذا اس کی وجہ سے شہید کو اللہ تعالیٰ سنت پر عمل کرنے والے کا درجہ بھی دے دیتا ہو اور اس بنا پر جب ان کو وہ مقام مل گیا تو انکی ڈاڑھی بھی نکل آئی ہو۔
بہرحال یہ باتیں میری طرف سے ایک قیاس ہے ورنہ اس کی توجیح میری نظر سے نہیں گزری۔ شہید جنتی ہوتا ہے اور جنتی کی ہر خواہش پوری کی جاتی ہے لہذا ممکن ہے کہ لالک جان شہید رحمتہ اللہ علیہ کواپنی زندگی میں ڈاڑھی رکھنے کی خواہش ہو لیکن کسی وجہ سے نہ رکھ سکے ہوں تو اللہ تعالیٰ نے انکی یہ خواہش ان کی شہادت کے بعد پوری کردی ہو۔ یہ کوئی ناممکن بات نہیں کیونکہ جنتی کا جسم لمبائی اور چوڑائی میں بہت بڑھ جاتا ہے یعنی جسمانی طور پر تبدیلی آتی ہے تو ڈاڑھی آنا بھی ایک تبدیلی ہی ہے ۔تروتازہ لاشیں
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان کی حکومت غیرمسلموں کی ہے اور پاکستان کی حکومت مسلمانوں کی ہے چاہے جیسی بھی ہولیکن کفر کے مقابلے میں تو بدرجہا بہتر ہے۔ اسی بنا پر لالک جان رحمتہ اللہ علیہ چونکہ اسلامی حکومت کی طرف سے جنگ میں شریک ہوئے تھے اور مقصد دین اسلام اور اس کے ماننے والوں کی مدد و نصرت تھی لہذا اللہ تعالیٰ نے ان کی نیت کے صحیح ہونے کی بنا پر ان کو شہادت کا مقام دے دیا اور ان کا جسم بھی محفوظ و سالم رہا۔ ان کے علاوہ اس جنگ میں دوسرے شہداء کے جسم بھی محفوظ ہوں گے لیکن چونکہ ان کے واقعات عوام کے سامنے رونما نہ ہوسکے اس لئے ہمیں ان لوگوں کے جسموں کے محفوظ ہونے کے بارے میں مشاہداتی علم نہیں۔
1965ء کی پاکستان بھارت جنگ میں مسلمانوں کی تازہ اور ہندوؤں کی بدبودار لاشیں:
مجھے ایک صاحب نے بتایا کہ ہندوستان اور پاکستان کی جنگ کے دوران 1965ء میں پاکستانی فوجیوں کی نعشیں بھی میدان میں پڑی ہوتی تھیں اور ہندوستانیوں یعنی ہندوؤں کی بھی۔ مسئلہ یہ ہورہا تھا کہ پاکستانیوں کو اپنے شہیدوں کو پہچاننا مشکل ہوجاتا تھا تو اس موقع پر علماءِ کرام نے پہچان کی یہ صورت بتائی تھی کہ جن کی نعشیں تازہ نظر آرہی ہوں گی وہ مسلمانوں کی ہونگی اور جن کی لاشیں تازہ نہیں ہوں گی اور ان سے بدبو آرہی ہو تو وہ ہندوستانیوں اور کافروں کی ہوں گی۔ کیونکہ جو مسلمان قتل ہوئے وہ شہید ہیں اور شہید زندہ ہوتا ہے لہذا انکے جسموں سے زندگی کے آثار نمایاں ہونگے۔
بہرحال چونکہ شہداء کے حوالے سے جنگ کی بات چھڑگئی ہے تو اس حوالے سے ایک اور بات قارئین کے گوش گزار کردیتا ہوں۔
افغانستان میں طالبان کی تازہ اور امریکیوں کی بدبودار لاشیں:
جامعہ بنوریہ العامیہ سائٹ ایریا کراچی کے ڈرائیور، جناب وصی احمد صاحب کے توسط سے یہ معلوم ہواکہ افغانستان میں جتنے بھی طالبان قتل ہوئے ان سب کی نعشیں بالکل صحیح و سالم اور محفوظ ہیں۔ جبکہ امریکی اور نیٹو کے فوجی جب قتل ہوتے ہیں تو ان کی لاشیں محفوظ نہیں رہتیں اور یہ کہ اگر انہیں سرد خانے میں نہ رکھا جائے تو ان کے جسموں سے چند دن بعد ہی بدبو آنے لگتی ہے۔
اس بات کا فرق امریکی فوجیوں نے واضح طور پر دیکھا تو وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ آخر یہ کیا بات ہے کہ طالبان کے جسم کئی کئی دن تک میدان میں پڑے ہوتے ہیں لیکن سڑتے گلتے نہیں اورنہ ہی ان سے بدبو آتی ہے۔جبکہ ہمارے فوجیوں کی لاشیں بدبودار ہوکر سڑنے گلنے لگتی ہیں اگر انہیں چند دن نہ اٹھایا جائے۔
ان میں سے کسی نے سوچا ہوگا کہ شاید ماحول کا اثر ہو کہ طالبان چونکہ یہاں کے ماحول میں رہنے والے ہیں اس بنا پر ان کے جسم سڑتے گلتے نہیں اور ہم لوگ چونکہ اس ماحول کے عادی نہیں ہیں اس بناپرہمارے فوجیوں کی لاشیں چند دن بعد ہی سڑنے لگتی ہیں۔
چنانچہ ان لوگوں نے اپنے فوجیوں کی لاشوں کو افغانستان کے ماحول سے نکالا تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ ماحول کے بدلنے سے کوئی فرق پڑتا ہے یا نہیں۔ مگر یہ بات غلط ثابت ہوئی اور افغانستان کے ماحول سے باہر لے جانے کے بعد بھی ان کی لاشیں خراب ہونے لگیں تب ان پر یہ حقیقت کھلی کہ یہ حفاظت ماحول کے فرق کی وجہ سے نہیں بلکہ مذہب کے فرق کی بنا پر ہے۔
مجھے یہ واقعہ بیان کرنے والے وصی احمد صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ اس حقیقت کے جاننے کے بعد وہ امریکی فوجی مسلمان ہوئے یا نہیں؟ بہرحال ہدایت دینا تو اللہ کا کام ہے لہذا میرے خیال کے مطابق ہوسکتا ہے کہ ان میں سے بعض خفیہ طور پر مسلمان بھی ہوجاتے ہوں ۔ واللہ اعلم بالصواب۔
بہر کیف!قارئین گرامی بات جنگ کی ہورہی تھی۔انشاء اللہ اگر آپ شہداء کے قبرستانوں کی روحانی طورپر اور استخارہ کے ذریعہ بھی چھان بین کریں گے تو ہفتہ نہیں تو ہفتوں میں ضرور اللہ تعالیٰ آپ کو یہ بتائے گا کہ وہاں جتنے بھی مسلمان جنگوں میں شہید ہوئے ان سب کے جسم مبارک بالکل صحیح و سالم اور محفوظ ہیں۔
حضرت مفتی عتیق الرحمان شہید رحمتہ اللہ علیہ:
جامعہ بنوریہ العامیہ سائٹ ایریاکراچی کے مشہور و معروف استاذ الحدیث حضرت مولانا و مفتی عتیق الرحمان صاحب کا واقعہ بیان کرنے جارہا ہوں۔ 2001ء تک میں بھی جامعہ بنوریہ میں پڑھاتا رہا ہوں۔ ان دنوں حضرت مفتی صاحب سے میری ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ چونکہ حضرت بنین و بنات دونوں شعبوں میں پڑھاتے تھے اور میں بھی ان دونوں شعبوں میں پڑھاتا تھا۔
نیز مفتی صاحب کا ایک فرزند جمال عتیق ان دنوں میرا شاگرد بھی تھا۔ مفتی صاحب کی شہادت کے بعد جب میں ان کے موصوف فرزند سے ملااور مفتی صاحب کی شہادت کے بارے میں اور اس کے بعد کے حوالہ سے جاننا چاہا تو موصوف عزیزم نے جو مجھے بتایا مخصراً اپنے الفاظ میں پیش کرتا ہوں۔
انہوں نے بتایا کہ مفتی صاحب برنس روڈ پر مسجد سے آرہے تھے کہ نامعلوم افراد نے ان پر گولیاں برسا کر شہید کردیا۔ مفتی صاحب کے بارے میں بتایا گیاکہ اکثر خصوصی طور پر امریکہ کے خلاف اور عمومی طور پرحق و باطل کے موضوع پر ان کا بیان ہوتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جنازے میں عبدالستار ایدھی تشریف لائے تو ان سے سوال کیا گیاکہ آپ مفتی صاحب کے بارے میں کچھ بتائیں تو ایدھی صاحب نے بتایا کہ میری مفتی صاحب سے کوئی رشتہ داری اوردوستی نہیں لیکن میں جنازہ میں شرکت کیلئے اس لئے آیا ہوں کہ ان کا جنازہ میرے سرد خانے میں تقریباً دس گھنٹے سے زیادہ رہا۔ میں نے دیکھا کہ مفتی صاحب کے زخموں سے مسلسل خون بہہ رہا ہے۔ حالانکہ یہ بات حقیقت ہے کہ کسی بھی زخم سے خون زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے تک جاری رہ سکتا ہے اسکے بعد خون بہنا بند ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ میری زندگی کا عجیب واقعہ ہے کہ مفتی موصوف کا خون دس گھنٹوں تک مسلسل بہہ رہا تھا جس سے میں نے سمجھ لیا کہ ضرور یہ کوئی نیک آدمی ہیں اور انکے جنازے میں ضرور شرکت کرنی چاہئے کہ شاید ان کے صدقے میں میری مغفرت بھی ہوجائے۔
قارئین گرامی !میں پہلے بھی کئی بار عرض کرچکا ہوں کہ شہید زندہ ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کے حوالے سے میں نے عرض کیا ہے اور انکو اللہ تعالیٰ کے پاس سے رزق دیا جاتا ہے چونکہ اللہ تعالیٰ کے پاس سے ان کی شہادت کے بعد رزق ملنا شروع ہوجاتا ہے جو کہ دنیاوی رزق سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے اور رزق کھانے کے بعد خون کا بننا ضروری ہے۔ لہذا انکے زخموں سے مسلسل خون بہتا رہاکیونکہ ان کو اللہ تعالیٰ کے پاس سے روحانی طور پرکھانے پینے کی فراہمی شروع ہوگئی تھی۔ شہیدزندہ ہوتا ہے اور زندہ جسم میں خون کا ہونا ضروری ہے اور جب جسم میں خون بڑھتا ہی جائے گا تو یقینازخم سے مسلسل نکلناتو ضروری ہے۔اسی لئے کرامتاً مسلسل دس گھنٹوں تک خون بہتا رہا۔
بہرحال اسکے بعد عزیزم جمال عتیق صاحب نے بتایا کہ پھر تقریباً 13ماہ بعد کراچی میں بہت موسلادھار بارش ہوئی جس کے نتیجہ میں مفتی صاحب کی قبر جو کہ کچی تھی وہ کھل گئی اور مرمت کی ضرورت پڑگئی۔ چناچہ جامعہ بنوریہ کے علماء و طلباء مرمت کی غرض سے گئے اور مفتی صاحب کے فرزندجمال عتیق قبر میں اترے تاکہ مرمت کرسکیں اور قبر کی صفائی بھی ہوجائے۔تو ان کا مجھ سے بیان ہے کہ قبر سے خوشبو آرہی تھی جو کہ موجود علماء و طلباء نے بھی محسوس کی۔ نیز جب میں نے جسم کو ہاتھ لگایا تو وہ زندہ انسان کی طرح نرم و ملائم اور گرم تھا جبکہ مفتی صاحب کے خون سے بھی خوشبو آرہی تھی اور جو خون صفائی کے دوران میرے ہاتھ پر لگ گیا تھا اسے دھونے کے پندرہ دن بعد بھی ہاتھ سے خوشبو آرہی تھی۔مفتی صاحب کے صاحبزادے اور دیگر علماء کرام و طلباء نیز خود مفتی محمد نعیم صاحب جامعہ بنوریہ ممتہم نے دیکھا کہ مفتی صاحب کا جسم سوا سال بعد بھی بالکل ترو تازہ حالت میں محفوظ اور صحیح و سالم تھا۔مزید تصدیق کیلئے میری ویب سائٹwww.RightfulReligion.comدیکھئے جس پر مفتی عتیق صاحب کے صاحبزادے سے لئے گئے انٹرویو کی ویڈیو موجود ہے۔ اس بارے میں جامعہ بنوریہ فون کرکے یا ای-میل کے ذریعے یا وہاں کے علماء و طلباء سے ملاقات کرکے بھی تصدیق کی جاسکتی ہے۔
مفتی صاحب کی قبر جامعہ بنوریہ کے ذاتی قبرستان میں ہے جہاں بمشکل چھ یا سات قبر یں ہی میں نے دیکھی تھیں۔ قبرستان سے متصل مکان میں مزدور قسم کے لوگ بھی رہتے ہیں اور اس مکان کی بالکونی قبرستان کی جانب ہے۔وہاں کے مکینوں کا کہنا ہے کہ جب ہم لوگ رات کو عشاء کے بعد بالکونی میں آتے ہیں تو مفتی صاحب کی قبر سے تلاوت قرآن کی آواز آرہی ہوتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی محفل منعقد ہے۔
یہ باتیں مفتی صاحب کے صاحبزادے نے مجھے بتائی ہیں۔ یہ بات تو شریعت سے ثابت ہے کہ نیک لوگ اپنی قبروں میں عبادت بھی کرتے ہیں جیسا کہ نماز وغیرہ پڑھنا۔ چناچہ مفتی صاحب چونکہ شہیدہوئے اور شہید زندہ ہوتاہے اس بنا پر جس طرح زندہ انسان کی آواز سنی جاسکتی ہے اسی طرح مفتی صاحب کی تلاوت قرآن کی آواز بھی وہاں کے لوگوں نے سنی اور کرامتاً یہ بات ممکن ہے۔
بہرحال ،قارئین گرامی!یہ ممتاز عالم دین اورمفتی جناب عتیق الرحمان صاحب کے جسم کے محفوظ ہونے کا واقعہ اور اس سے متعلقہ باتیں تھیں۔مفتی صاحب چونکہ حق کی بات کرتے تھے اور باطل کے خلاف تھے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انھیں شہادت سے نوازا۔جب میں حج کیلئے مکہ مکرمہ گیا تو میں نے مفتی صاحب کو خواب میں دیکھاتو میں نے ان سے کہا کہ مفتی صاحب چلیں میں آپ کو آپکے گھر پہنچادیتا ہوں تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ نہیں مجھے یہیں رہنے دیں ، میں یہیں ٹھیک ہوں۔یہ خواب میں نے انکے صاحبزادے عزیزم جمال عتیق سے بھی ذکر کیا۔معلوم ہواکہ مفتی صاحب اللہ کے فضل و کرم سے جنتی ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
ماخذhttp://www.rightfulreligion.com/ur78_true-events-of-muslim-martyrs#sthash.J5vPWZRH.dpuf
اعجاز قرآن ‘‘ پر سچے واقعات
عید الاضحی کے موقعہ پر دوست احباب کو عید مبارک کہنے کیلئے جب میں نے اپنے ایک مہربان استاد کو فون کیا تو پتہ چلا کہ انہیں کچھ عرصہ پہلے زبان پر فالج کا حملہ ہوا ہے آپ بہائو الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے وائس چانسلر بھی رہے۔ آجکل وہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی NDC میں ایک اعلیٰ تدریسی عہدہ پر فائز ہیں۔ میں نے جب ان سے دریافت کیا کہ زبان کے فالج کے باوجود آپکی گفتگو تو پوری طرح سمجھ آ رہی ہے اور لگتا ہے کہ آپکو بولنے میں بھی دقت محسوس نہیں ہو رہی۔ اس قدر جلد آرام کیسے آیا؟ انہوں نے بتایا کہ میں نے اسلام آباد کے شفا انٹر نیشنل ہسپتال میں بھی علاج کرایا اور نشتر ہسپتال ملتان میں بھی لیکن حقیقی آفاقہ مجھے تلاوت کلام پاک اور درود شریف پڑھنے سے ہوا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ایک بزرگ نے مجھے ہدایت کی میں کلام پاک کی تلاوت با آواز بلند کروں۔ تلاوت سے کلام الٰہی کے الفاظ کے خواص کا اثر بھی ہو گا اور تلاوت کے دوران الفاظ کی ادائیگی سے زبان کے ہر مسل (پٹھے) کی ورزش بھی ہو گی۔ انہوں نے بتایا کہ کلام الٰہی کی حدت اور زبان کے پٹھوں کی حرکت سے دوران خون درست ہونے لگا اور چند ہی دنوں میں اس قابل ہو گیا کہ آسانی سے بات کرسکوں وہ کہہ رہے تھے کہ سب کچھ قران پاک کا معجزہ ہے۔
http://www.tebyan.net/index.aspx?pid=38713
چالیس سال میں ایک کڑور لوگوں کے پیٹ بھرنے والا انڈین
مسلمان
عصر حاظر میں انسانیت ک صحیح خدمت اور جنت کا حقدار انسان
پاکستان میں کون ھے آگے آنے والا؟
In 40
years, Biryani Baba has fed 1 crore poor people
DC | Koppara
Gandhi | January 19, 2015, 01.01 am IST
Ataullah Baba
in Vizianagaram
Vizianagaram: Attaullah Shariff Shataj Khadiri Baba,
popularly known as “Biryani Baba”, has been feeding biryani to the poor for the
decades in Vizianagaram and Cheemalapadu of Krishna district.When
assessed, this comes to to be around one crore people in the last 40 years.
Mr Baba, 78, has continued the legacy of his guru Khadar Baba
who passed away 40 years ago.Mr Baba, who shuttles between
Vizianagaram and Cheemalapadu Dargah, blesses the people who
believe in him and offers them anna prasada at Langar Khana on the dargah
premises.
Mr Baba
himself participates in cooking the biryani. Everyday, at least a
thousand people eat in Cheemalapadu and Vizianagaram.On the special days, the
number touches 8,000 to 10,000. Two tonnes of good quality Basmati
rice and quintals of chicken and mutton and pure ghee is used to cook the
biryani. Vegetarian food is also cooked here.Every year, Mr Baba organises a
grand Ursu utsav at the Vizianagaram Dargah and is personally involved
in anna danam organised for thousands of people during
the utsav.This year, the utsav will be held on January 25.
Mr Baba said, “I am
just providing meals to the needy. With the help of donors and devotees, the
programme continues smoothly.I don’t believe in religion or castes,
I appeal to the public to help the poor.
I
believe that service to humans is equal to service to God.”K. Uday
Bhaskar, a close associate and sevak of Mr Baba says, “Mr Baba will stay here
for 15 days to organise the utsav. Around 8,000-10,000 people are expected
to have their meals here daily. Politicians and bureaucrats from north AP
districts also visit the dargah to seek his blessings.”Mr Baba said, “I
am just providing meals to the needy. With the help of donors and devotees, the
programme continues smoothly. I don’t believe in religion or castes,
I appeal to the public to help the poor. I believe that service
to humans is equal to service to God.”Y. Suresh a strong believer of Baba
said, "I have been visiting him for the past ten years. Baba just provides
food to the people who are very poor. I too lend a hand in the service."
Source with thanks:The Deccan Chronicle
اللہ ٹوٹے ھوئے دلوں کے قریب رھتا ھے
پچھلے دنوں مجھے ایک تقریب میں شرکت کا اتفاق ہواجس کا انعقاد ایک
فائیو اسٹار ہوٹل میں کیا گیا تھا۔ یہ تقریب جس ہال میں منعقد کی گئی تھی اس کا
ماحول بہت مسحور کن تھا۔ وسیع ہال، بڑ ے بڑے خوبصورت فانوس، دبیز قالین، ٹھنڈی
فضا، خوش رنگ پردے اور دیواریں اور ان سب کے ساتھ ایک پرتکلف عشائیہ ۔
میں اس محفل میں
بیٹھا یہ سوچ رہا تھا کہ اس طرح کے ماحول میں ایسی محافل دنیا بھر میں عام ہوتی
ہیں ۔ مگر ان میں ہر کس و ناکس کو داخلے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ایسی جگہوں پر داخلے
کی ایک قیمت ہوتی ہے جو صرف نامور، باصلاحیت، صاحب حیثیت
اوربااثرلوگ ہی دے سکتے ہیں ۔ معاشرے کے عام افراد کی پہنچ سے یہ سب کچھ ساری
زندگی باہر ہی رہتا ہے ۔
ایسے میں مجھے خیال آیا کہ
مالک کائنات جب اپنی جنت بنائے گا تو یقیناً وہ دنیا کی ان تمام نعمتوں سے زیادہ
حسین ہو گی۔ مگر اس جنت کی خوبیوں میں سے سب سے بڑ ی خوبی یہ ہے کہ اس میں داخلہ
کے لیے کوئی مال، کوئی نام ، کوئی صلاحیت اور کوئی اثر و رسوخ نہیں چاہیے۔ جنت کی
حسین وادی ، اس کی پرلطف محفلوں ، اس کی ابدی بادشاہی اور اس کی غیر فانی نعمتوں
کے حصول کی قیمت کچھ نہیں ۔ بس اک ٹوٹا ہوا دل ۔ ۔ ۔ رب کی عظمت کے احساس سے پاش
پاش دل ۔ یہی جنت کی قیمت ہے ۔
وہ دل جس میں اخلاص ہو۔ رب
کی سچی چاہت ہو۔ اس کی اطاعت کا جذبہ ہو۔ اس کے نام پر مرمٹنے کی خواہش ہو۔ اس کے
عہد کی پاسداری ہو۔ اس سے وفا کا عزم ہو۔ اس کی رحمت کی امید ہو۔ اس کی پکڑ کا خوف
ہو۔ اس سے ملاقات کا شوق ہو۔ اس کے رسول کی محبت ہو۔ اس کے دین کی حمیت ہو۔ اس کی
فردوس کی رغبت ہو۔ بس یہی ۔ ۔ ۔ بس یہی دل چاہیے ۔
لوگ ٹوٹی ہوئی چیزیں پھینک
دیتے ہیں ۔ مگر خداٹوٹے ہوئے دل کو سب سے زیادہ پسند کرتا ہے ۔ اتنا زیادہ کہ اس
کے بدلے میں اپنی سب سے بڑ ی نعمت۔ فردوس کی ابدی بادشاہی۔ دینے کے لیے تیار ہے ۔
مگر کیا کیجیے کہ آج لوگوں کے پاس ساری دینداری ہے ۔ ۔ ۔ یہی ٹوٹا ہوا دل نہیں
ایک دن ایک بادشاہ نے درباری بڑھی سے کہا کہ میں تجھے کل پھانسی دے دوں گا۔۔بڑھی بیچارہ اس رات سو نہیں پا رہا تھا۔اس کی بیوی نے کہا: ہر رات کی طرح سوئیے کہ آپ کا پروردگار ایک ہے مگر مشکل سے نکلنے کے راستے بہت سے ہیں۔بیوی کی بات اس کے دل میں سکون و اطمینان پیدا کیا۔ آنکھیں بند ہونے لگیں اور وہ سو گیا۔
صبح سویرے سپاہیوں کے پیروں کی آواز سنی تو اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ مایوسی اور پشیمانی سے بیوی کو دیکھا۔ کانپتے ہاتھوں سے دروازہ کھول کر دونوں ہاتھوں کو آگے بڑھا دیا کہ سپاہی اسے ہتھکڑی پہنا دیں۔ دو سپاہیوں نے تعجب سے کہا:
بادشاہ مر گیا ہے۔ ہم اس لئے آئے ہیں کہ بادشاہ کے تابوت بنا دو۔
بڑھی کے بدن میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ معذرت خواہی کے طور پر بیوی پر ایک نظر ڈالی۔ بیوی مسکرائی اور بولی:
ہر رات کی طرح سکون سکون سے سووں کہ پروردگار ایک ہے اور مشکلات سے نجات کے دروازے بہت سارے ہیں۔
زیادہ فکر مندی انسان کو تھکا دیتی ہے جبکہ پروردگار عالم مالک اور سارے امور کی تدبیر کرنے والا ہے
جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے
ملزم ریاض پر لاہور میں اصغرعلی اور
محمد علی نامی 2افراد کو قتل کرنے کا الزام تھا فوٹو: فائل
لاہور: عدالت عالیہ نے دہرے قتل کیس میں
سزائے موت پانے والے ملزم کی سزا کالعدم قراردیتے ہوئے اسے بری کرنے کا
حکم دے دیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژنل بینچ نے دہرے قتل کے الزام میں سزا
یافتہ ملزم محمد ریاض کی اپیل کی سماعت کی، سماعت کے دوران ریاض کے وکیل نے عدالت
کو بتایا کہ اس کے موکل پر قتل کا الزام بے بنیاد ہے کیونکہ استغاثہ سماعت کے
دوران ایک بھی چشم دیدگواہ پیش نہیں کرسکا، اس کے علاوہ جو گواہ پیش کئے گئے ان کے
بیانات میں بھی تضاد ہے۔
سرکاری وکیل نے اپنے جوابی دلائل میں کہا کہ انسداد دہشت گردی کی
عدالت نے قتل کا مجرم ثابت ہونے پر ہی ریاض کو سزائے موت سنائی تھی اس لئے عدالت
عالیہ سے درخواست ہے کہ ملزم کی سزائے موت کو برقرار رکھا جائے۔ عدالت نے دلائل
سننے کے بعد سزائے موت کوکالعدم قرار دیتے ہوئے ملزم محمدریاض کو بری کرنے کا حکم
دے دیا
ہر
انسان کی زندگی میں ایسے واقعات ضرور پیش آتے ہیں جنہیں وہ
کبھی فراموش نہیں کر سکتا، جن میں سے کچھ قابل تحریر، کچھ لائق سماعت اور کچھ سنی
ان سنی کر دینے کے لائق ہوتے ہیں مگر متعلقہ شخص کے ذہن میں وہ ہمیشہ جاودان رہتے
ہیں۔ ان میں کچھ واقعات پر مسرت، کچھ سبق آموز، کچھ غمناک اور کچھ محض قصہ کہانی
کے سے ہوتے ہیں جنہیں بعد میں آنے والی نسلوں کا دل بہلانے کے لئے محفوظ رکھا جاتا
ہے۔ ایسی ہی ایک کہانی میری بھی ہے جو میرے لئے اتنی پر مسرت بھی نہیں لیکن ایک حد
تک خوشگوار ضرور ہے۔
اس
کہانی کا آغاز تو اسی دن سے ہو گیا تھا جب میں نے چائے کے کیبن پر کھڑے ہو کر پہلی
مرتبہ اسے دیکھا۔ سخت بارش تھی اور وہ سڑک کے کنارے سفید کرتا پہنے اپنے دامن سے
الجھ رہی تھی۔ نیلی شرابی آنکھیں پر اتنی تیکھی نظر کہ جسے ایک بار آنکھوں میں
آنکھیں ڈال کر دیکھ لے وہ دوبارہ نظر اٹھانے کی ہمت بھی نہ کرے۔ اور نظروں سے
زیادہ تیکھے نقوش جنہیں دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ یہ شعر
کہتے وقت غالب کے پیش نظر بھی ایسی ہی کوئی صورت ہو گی۔
نقش
کو اس کے مصور پر بھی کتنا ناز ہے
کھینچتا
ہے جس قدر اتنا ہی کھنچتا جائے ہے
اور
بارش میں اس کے آنکھوں سے زیادہ گہرے نیلے ڈپٹے سے نکلتی ہوئی زلف کسی دریائے بے
کراں کی اس نازک لہر کی سی لگتی تھی جسے ہوا کے جھونکے اڑا کر ایک سمت سے دوسری
سمت کی جانب لے جاتے ہیں۔ میں اپنے آپ سے بے خبر ہو کر اس کی سمت چلنے لگا۔ قدرت
کا کرنا کچھ ایسا ہوا کہ میرے وہاں پہنچنے پر اس کی نازک عینک جسے وہ بارش کے
قطروں کی وجہ سے بار بار اتار کر اپنے بھیگے ہوئے گلابی رنگ کے رومال سے صاف کر
رہی تھی گر کر میرے قدموں میں آ پہنچی۔ میں ہڑبڑا گیا، پھر کچھ لمحوں کے بعد اس کی
عینک اٹھا کر اس کے قریب گیا۔ عینک کو بہ صد حیف اس کے حوالے کیا کہ اس کی یہ
نشانی بھی میں اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔ میرے کچھ نہ کہنے پر شاید اس سے رہا نہ گیا
تو دھیمے لہجے میں کہنے لگی، "شکریہ آپ کا" پھر ایک وقفہ لینے کے بعد
کہا، "بارش بہت تیز ہے، کوئی رکشہ بھی نہیں۔ کیا قریب کوئی بس اسٹاپ
ہے؟" میں تو اتنا بے خود ہو چلا تھا کہ ذہن پر بہتیرا زور ڈالنے کے بعد بھی
اپنے ہی علاقے کے بس اسٹاپ کی جگہ یاد نہیں آئی، کچھ بولا نہ گیا۔ کیا کرتا؟ سوچ
میں ہی گم تھا کہ کسی رکشہ کے چلنے کی آواز سے ہوش بحال ہوئے۔ وہ جا چکی تھی۔
پہلی
بار میں ہی اس کا مہر میرے دل میں اتر گیا تھا۔ پھر اس دن کے بعد میں انجانے میں
ہی اس کا شیفتہ ہو گیا، کہ بہ قول شاعر:
کتنا
عجیب شخص تھا کیا کام کر گیا
آنکھوں
کے راستے مرے دل میں اتر گیا
ایک
طویل مدت تک ہر روز اس سڑک پر کھڑا اسی کا انتظار کرتا رہا۔ لیکن پھر کبھی اسے
دیکھ نہ سکا۔ کبھی سوچتا ہوں شاید وہ میرا ایک خوشگوار پر ادھورا خواب تھی۔ لیکن
اب بھی جب کبھی اس سڑک پر جانا ہوتا ہے تو جائے ملاقات پر کھڑا ہو کر کچھ لمحے اس
کی یاد میں ضرور گزارتا ہوں کہ شاید وہ خواب وہیں سے ہی دوبارہ شروع ہو جائے۔
Na qabil-e- faramosh
Choti si thi jab us ki ammi us kay haathoon ka piyala bana kay
kehtin " dua mango hum Allah miyan kay ghar phir say jain" aur wo
foran ankhain sakhti say meech kay hil hil kay is jumlay ki gardaan
karnay lagti ye janay baghair ke Allah miyan ka ghar kia hay ? kahaan
hay? kaisa hay?
paanch saal ki umar main usay to bas itna maloom tha ke is naey
shehar main us ki aik hi saheeli " gurya " thi jis ka ghar waisa hi
sabz rang ka hay jaisa ke us ki man pasand frok ka .
thori bari hoey to kitab ho
ya Tv jahaan bhi nazer ata Us ki ammi
foran kehtin " Sna , ye daikho ye hay Allah miyan ka ghar " wo la
parwahi say tasweer ko daikh kay apni ammi kay chehray ko daikhnay
lagti jahaan na janay kia hota ke wo sochnay lagti ke us ki ammi ko
ye ghar kitna pasand hay , akhir kioon?
foran kehtin " Sna , ye daikho ye hay Allah miyan ka ghar " wo la
parwahi say tasweer ko daikh kay apni ammi kay chehray ko daikhnay
lagti jahaan na janay kia hota ke wo sochnay lagti ke us ki ammi ko
ye ghar kitna pasand hay , akhir kioon?
waqt kay saath saath is
chotay say sawal main aur buhut say sawaloon
ka izafa hota gaia , her saal anay wali Baqr Eid pe Haj aur Qurbani
kay alfaaz aur muhallay main kisi Haji kay anay ya janay ki khabrain
,Aur sab say barh kay , 9 zil haj ko us ki ammi ka TV daikhnay ka
ishteyaaq , jaisay us kay ander tajasus aur shauq ki chingaryaan
roshan karnay lagta.
ka izafa hota gaia , her saal anay wali Baqr Eid pe Haj aur Qurbani
kay alfaaz aur muhallay main kisi Haji kay anay ya janay ki khabrain
,Aur sab say barh kay , 9 zil haj ko us ki ammi ka TV daikhnay ka
ishteyaaq , jaisay us kay ander tajasus aur shauq ki chingaryaan
roshan karnay lagta.
dasween kay imtehaan say farigh
hoey to gurya kay saath mil kay
palmistry ka shauq paal liya ,ab bas her aik ka hath paker kay baith
jaati . pehlay apna phir gurya ka phir ammi papa ka , phir saari class
main sab larkyoon ka , aur kartay kartay khandaan main mashhoor ho
gaey . apnay tak aur larkyoon tak shughal laganay ki baat to usay bari
pasand thi laikin jab bhi wo apni khala bi kay ghar jati wo aik hi
sawal kartin " Sna baiti, a zara daikh mairay hath main Haj ki lakeer
hay ke nahi " us nay aaj tak kisi kitaab main Haj ki lakeer nahi parhi
thi laikin wo aisay hi natak kar kay keh daiti "haan khala bi buhut
bari lakeer hay Haj ki " aur phir khala bi hath khainch laitin aur
pursakoon si ho jatin. khala bi kay is sawal ki waja say us nay kaey
kitabain chaanin laikin Haj ki lakeer kahin nahi mili . phir usay
apni khala bi ki tarha kaey log milay jo yehi sawal kartay " mairay
haath pe Haj ki lakeer hay ?" us kay paas is ka jawaab kabhi na hota
. Haj ki lakeer kay muamay say tang aa kay us nay is shughal ko
khair baad keh diya .
palmistry ka shauq paal liya ,ab bas her aik ka hath paker kay baith
jaati . pehlay apna phir gurya ka phir ammi papa ka , phir saari class
main sab larkyoon ka , aur kartay kartay khandaan main mashhoor ho
gaey . apnay tak aur larkyoon tak shughal laganay ki baat to usay bari
pasand thi laikin jab bhi wo apni khala bi kay ghar jati wo aik hi
sawal kartin " Sna baiti, a zara daikh mairay hath main Haj ki lakeer
hay ke nahi " us nay aaj tak kisi kitaab main Haj ki lakeer nahi parhi
thi laikin wo aisay hi natak kar kay keh daiti "haan khala bi buhut
bari lakeer hay Haj ki " aur phir khala bi hath khainch laitin aur
pursakoon si ho jatin. khala bi kay is sawal ki waja say us nay kaey
kitabain chaanin laikin Haj ki lakeer kahin nahi mili . phir usay
apni khala bi ki tarha kaey log milay jo yehi sawal kartay " mairay
haath pe Haj ki lakeer hay ?" us kay paas is ka jawaab kabhi na hota
. Haj ki lakeer kay muamay say tang aa kay us nay is shughal ko
khair baad keh diya .
College main gaey to is jaisay
dunya aur bhi rangeen ho gaey , Allah
miyan kay ghar ki bajaey ab wo hazaar tareekhi jaghoon aur dunya ki
bay shumaar ala shaan emaratoon kay baray main parhnay lagi .
imartoon kay isi shauq ki waja say wo architecture main masters
karna chahti thi , college kay trips ka silsila bhi chalta raha aur
saath hi saath us kay kamray ki deewarain mukhtalif emartoon kay
posters say bharti rahin . aaj bhi wo abhi taj mehal ka khoobsoorat sa
poster laga rahi thi ke ammi ki awaz aey " Sna , gurya aey hay ."
jaldi say kursi say neechay utri , gurya kay anays say pehlay aina
daikha aur kursi jagah per rakhtay hi , darwazay pe khari Nida ko
garam joshi say salam kiya aur kaha " aray waah , aaj to eid kara di
tum nay " us nay galay miltay hoay kaha. " w , salaam . main nay socha
kabhi kabhi achanak bhi ana chahyay , ziada khushi hoti hay " Nida
baig maiz pe rakhtay hoay boli." to kia ho raha tha , " " aray wah
jaisay tum nay daikha hi nahi , ye daikho " us nay taj mehel kay
poster ki taraf ishara kartay hoay kaha . " waao ...that's nice"
kahaan say mara hay ?" Nida nay paas jatay hoay poocha ." maara nahi
yaar, khareeda hay pooray 75 rupay main" " maira khiyal hay ke dunya
main sirf 7 ujoobay hain laikin tumharay kamray main to hazaroon
ujooboon ki tasweerain lagi hain " Nida nay saray kamray ki deewaroon
per lagi , Eharaam-e- misr , Eiphel tower, Peica tower, WTC, Deewar-e-
cheen , Room aur Spain ki purani emartain, China Aur Pakistan ki
Dhair saari mashhoor-o- maroof emartoon ki choti bari hazaroon
tasweeroon per aik nazer dauratay hoay kaha . "Acha hay na kam az
kam tumharay bhaey jaan kay saRay hoay shauq say acha hay na jinhoon
nay dunya bhar ki garyaan saja rakhi hain dewaroon pe" Sna nay ankh
martay hoay khushgawaar mood main kaha . " Acha to kia tum un say
muqabla karti ho ""Nida nay maanee khaiz nazroon say daikhtay hoay
poocha ." main kahan , wo kartay hain mujh say muqabla " Sna nay
nazrain churatay hoay kaha aur saath hi poocha . " waisay japan ja kay
to buhut khush hoon gay ab" Nida nay qadray udasi say jawaab diya "
haan teen saal bad aein gay engeenering ki degree mukamal kar kay "
Sna nay usay chutki kaati aur hanstay hoay kaha " Aur aik added brand
new japani gaari aur japani gurya lay kay" aur saath hi donoon
hansnay lagin.
miyan kay ghar ki bajaey ab wo hazaar tareekhi jaghoon aur dunya ki
bay shumaar ala shaan emaratoon kay baray main parhnay lagi .
imartoon kay isi shauq ki waja say wo architecture main masters
karna chahti thi , college kay trips ka silsila bhi chalta raha aur
saath hi saath us kay kamray ki deewarain mukhtalif emartoon kay
posters say bharti rahin . aaj bhi wo abhi taj mehal ka khoobsoorat sa
poster laga rahi thi ke ammi ki awaz aey " Sna , gurya aey hay ."
jaldi say kursi say neechay utri , gurya kay anays say pehlay aina
daikha aur kursi jagah per rakhtay hi , darwazay pe khari Nida ko
garam joshi say salam kiya aur kaha " aray waah , aaj to eid kara di
tum nay " us nay galay miltay hoay kaha. " w , salaam . main nay socha
kabhi kabhi achanak bhi ana chahyay , ziada khushi hoti hay " Nida
baig maiz pe rakhtay hoay boli." to kia ho raha tha , " " aray wah
jaisay tum nay daikha hi nahi , ye daikho " us nay taj mehel kay
poster ki taraf ishara kartay hoay kaha . " waao ...that's nice"
kahaan say mara hay ?" Nida nay paas jatay hoay poocha ." maara nahi
yaar, khareeda hay pooray 75 rupay main" " maira khiyal hay ke dunya
main sirf 7 ujoobay hain laikin tumharay kamray main to hazaroon
ujooboon ki tasweerain lagi hain " Nida nay saray kamray ki deewaroon
per lagi , Eharaam-e- misr , Eiphel tower, Peica tower, WTC, Deewar-e-
cheen , Room aur Spain ki purani emartain, China Aur Pakistan ki
Dhair saari mashhoor-o- maroof emartoon ki choti bari hazaroon
tasweeroon per aik nazer dauratay hoay kaha . "Acha hay na kam az
kam tumharay bhaey jaan kay saRay hoay shauq say acha hay na jinhoon
nay dunya bhar ki garyaan saja rakhi hain dewaroon pe" Sna nay ankh
martay hoay khushgawaar mood main kaha . " Acha to kia tum un say
muqabla karti ho ""Nida nay maanee khaiz nazroon say daikhtay hoay
poocha ." main kahan , wo kartay hain mujh say muqabla " Sna nay
nazrain churatay hoay kaha aur saath hi poocha . " waisay japan ja kay
to buhut khush hoon gay ab" Nida nay qadray udasi say jawaab diya "
haan teen saal bad aein gay engeenering ki degree mukamal kar kay "
Sna nay usay chutki kaati aur hanstay hoay kaha " Aur aik added brand
new japani gaari aur japani gurya lay kay" aur saath hi donoon
hansnay lagin.
chaar saal ka arsa parhayi main .
imtehanoon main aur dunya ki
emartoon ko sarahatay hoay kab guzra Sna ko pata bhi na laga . is
dauraan Nida ki shadi ho gaey aur khud us ka nikah Nida kay bhaey
Arsalaan kay saath ho gaia aur ab do mah baad wo rukhsat ho kay
halkay sabz rang kay man pasand ghar main janay wali thi . wo apnay
kamray ki dewaroon per say tasweerain utaar kay sanbhaal kay rakh
rahi thi ke us ki ammi nay daikha to poocha " Sna !! ye tum saath lay
jao gi kia" " haan ammi jaan ,, bhala ye main bhool sakti hoon ..maira
asaasa hain ye" us nay lambay say dibbay ko band kartay hoay kaha ."
tauba hay , bhala in emartoon main Allah jany tumhain kia nazer ata
hay , wahan bhi ja kay ye gand sajao gi dewaroon pe " us ki ammi nay
nagawari say kaha . " ammi jaan aap ki baiti Architect hay koey mazaaq
nahi ...in kay baghair ab mairi pehchaan nahi. " us nay baray fakher
say kaha." acha tum pe to junoon sa sawaar hay , suna hay Japaan main
aur bhi khoobsoorat emartain hain ," us ki ammi nay sochtay hoay kaha
" haan ammi Arsalaan bata rahy thay , bas mujhay wahaan janay dain
phir daikhna kaisay kaisay design karoon gi " , " Acha tumharay janay
kay baad hum tumhari chachi kay paas Jeddah ja rahay hain hain aur
wahaan umray karain gay aur Haj kar kay wapas aein gay " us ki ammi
nay bari khushi say bataia . Sna nay ammi ki ankhoon main chamak
daikhi to sochnay lagi ke ammi ko mairi rukhsati ka koey dukh nahi
laikin Haj ki kitni khushi hay.laikin saath hi usay ye baat
tasaleebakhs bhi lagi kam az kam ab usay ammi papa ki itni fikar nahi
rahy gi.
emartoon ko sarahatay hoay kab guzra Sna ko pata bhi na laga . is
dauraan Nida ki shadi ho gaey aur khud us ka nikah Nida kay bhaey
Arsalaan kay saath ho gaia aur ab do mah baad wo rukhsat ho kay
halkay sabz rang kay man pasand ghar main janay wali thi . wo apnay
kamray ki dewaroon per say tasweerain utaar kay sanbhaal kay rakh
rahi thi ke us ki ammi nay daikha to poocha " Sna !! ye tum saath lay
jao gi kia" " haan ammi jaan ,, bhala ye main bhool sakti hoon ..maira
asaasa hain ye" us nay lambay say dibbay ko band kartay hoay kaha ."
tauba hay , bhala in emartoon main Allah jany tumhain kia nazer ata
hay , wahan bhi ja kay ye gand sajao gi dewaroon pe " us ki ammi nay
nagawari say kaha . " ammi jaan aap ki baiti Architect hay koey mazaaq
nahi ...in kay baghair ab mairi pehchaan nahi. " us nay baray fakher
say kaha." acha tum pe to junoon sa sawaar hay , suna hay Japaan main
aur bhi khoobsoorat emartain hain ," us ki ammi nay sochtay hoay kaha
" haan ammi Arsalaan bata rahy thay , bas mujhay wahaan janay dain
phir daikhna kaisay kaisay design karoon gi " , " Acha tumharay janay
kay baad hum tumhari chachi kay paas Jeddah ja rahay hain hain aur
wahaan umray karain gay aur Haj kar kay wapas aein gay " us ki ammi
nay bari khushi say bataia . Sna nay ammi ki ankhoon main chamak
daikhi to sochnay lagi ke ammi ko mairi rukhsati ka koey dukh nahi
laikin Haj ki kitni khushi hay.laikin saath hi usay ye baat
tasaleebakhs bhi lagi kam az kam ab usay ammi papa ki itni fikar nahi
rahy gi.
do maah baad rukhsat ho kay
wo chand haftay Sabz ghar main rahi aur
phir Arsalaan kay saath japan chali aey . yahaan sharoo kay kaey
maheenay wo arsalaan kay saath mukhtalif jaghain daikhti rahi . phir
Arslaan ki company ki taraf say aik tour main wo log Itally bhi gaey
aur France bhi .dunya ko daikhnay kay saath saath usay ammmi papa kay
phone atay rahay . " kabhi Makkah ki fizaoon kay baray , kabhi
khana kaaba ki tareef kartay hoay aur kabhi madeenay raunaq kay
baray...wo sochti us kay seedhay saadhay waldain inhi do jaghoon ko
daikh kay itnay khush hain yahaan aa kay aaj ki duyna ki taraqi
daikhain to shaid sab bhool jain.
phir Arsalaan kay saath japan chali aey . yahaan sharoo kay kaey
maheenay wo arsalaan kay saath mukhtalif jaghain daikhti rahi . phir
Arslaan ki company ki taraf say aik tour main wo log Itally bhi gaey
aur France bhi .dunya ko daikhnay kay saath saath usay ammmi papa kay
phone atay rahay . " kabhi Makkah ki fizaoon kay baray , kabhi
khana kaaba ki tareef kartay hoay aur kabhi madeenay raunaq kay
baray...wo sochti us kay seedhay saadhay waldain inhi do jaghoon ko
daikh kay itnay khush hain yahaan aa kay aaj ki duyna ki taraqi
daikhain to shaid sab bhool jain.
Shadi kay doosray hi saal
Arsalaan nay aik din kaha " Sna , main
soch raha hoon is baar ammi dady ko Haj karwaoon ..tumhara kia khiyal
hay?" ...Haj kay naam pe jaisay ,,, wo sakit si ho gaey , phir boli "
haan kioon nahi , mujhay kia aetraaz ho sakta hay " phir maiz pe kisi
naqshay pe jhuk gaey. " mager maira khiyal hay ke Hum bhi jain ,
mauqa bhi hay aur ammi dady ko company bhi rahay gi " Arslaan nay
Sna kay haath say pencil pakartay hoay kaha. Sna ko aik dam kuch na
soojha , khoey khoey si boli" haan is say achi kia baat ho sakti hay
" .." bas phir tayari paker lo ", Arsalaan nay ghoom kay khushi say
kaha ... do mah baad wo Haj ki saari tayaroon kay saath jeddah
pohnchay jahan say Arsalan kay waldain ko saath liya aur haj kay
liyay rawana hoay .Sna aur Arsalaan nay Makkah jatay hoay dhair
saari kitaboon ko parha . Ehraam aur Haj kay saray arkaan ko
samjha . aur saas susar ki rahnumaey main Allahumma labaik parhtay
hoay hajyoon ki saf main shamil hoay.
soch raha hoon is baar ammi dady ko Haj karwaoon ..tumhara kia khiyal
hay?" ...Haj kay naam pe jaisay ,,, wo sakit si ho gaey , phir boli "
haan kioon nahi , mujhay kia aetraaz ho sakta hay " phir maiz pe kisi
naqshay pe jhuk gaey. " mager maira khiyal hay ke Hum bhi jain ,
mauqa bhi hay aur ammi dady ko company bhi rahay gi " Arslaan nay
Sna kay haath say pencil pakartay hoay kaha. Sna ko aik dam kuch na
soojha , khoey khoey si boli" haan is say achi kia baat ho sakti hay
" .." bas phir tayari paker lo ", Arsalaan nay ghoom kay khushi say
kaha ... do mah baad wo Haj ki saari tayaroon kay saath jeddah
pohnchay jahan say Arsalan kay waldain ko saath liya aur haj kay
liyay rawana hoay .Sna aur Arsalaan nay Makkah jatay hoay dhair
saari kitaboon ko parha . Ehraam aur Haj kay saray arkaan ko
samjha . aur saas susar ki rahnumaey main Allahumma labaik parhtay
hoay hajyoon ki saf main shamil hoay.
Masjid al haram say kaafi
pehlay hi sarak pe chaltay hoay itnay
rash aur hujoom main Sna nay logoon kay chehroon pe ajeeb sa junoon
daikha , jaisay maqnatees lohay ko khainchta hay usay laga , sab log
kahin khichay chalay ja rahay hain. Allahuma labaik ka wird kartay
hoay wo zameen ko daikh kay chalnay lagi ke Arsalaan nay ishara kar
kay kaha "Sna ,samnay daikho" Sna nay daikha ..sufaid marbal ki
phaili hoaey emarat charoon taraf hajyoon ka hujoom aur fiza main
" Allahuma labaik kay wird kay jadoo main laal choocnhoon walay mast
kabooter , us kay rongattay kharay ho gaey aur qadam ruk gaey,
bait-Allah main usay buhut pehlay hi Allah ka jalaal aur shaan ander
tak mehsoos hoey .Arsalaan nay us ka haath dady ko thamaia aur khud
apni ammi ka hath paker liya . Bait-al haram main dakhil hoay to
jaisay logoon ka sailaab beh raha ho Sna ki nazer jaisay jhapakna
bhool gaey us kay samnay khana kaabah tha . kalay rang kay ghulaaf
main dhaka hoa , khoobsoorat Ayaat say muzayan , us ka dimaghjaisay
shal sa ho gaia ho , usay nahi yaad kab Dady nay usay paker kay
chalatay hoay tawaf main ghaseet liya. phir jaisay us sailab main wo
behnay lagi , dady nay usay yaad karaia ke tawaaf main kia tasbeeh
karni hay . laikin us ki nazer markaz say na hat saki . hajr-e- aswad
kay samnay dady kay kehnay pe takbeer -e- tehreema kahi aur phir
usi markez kay gird behnay lagi . usay nahi yaad zameen pe qadam lagay
ke nahi ? kitna fasla tay hoa ? kaisay hoa? bas aik ajeeb si baykhudi
si thi jis main say her baar dady ko usay nikalna parta . aur aglay
rukan kay liyay samjhana parta .
muqam-e- ibraheem kay baray bhi dady nay usay bataia warna usay to
yaad na rehta .
rash aur hujoom main Sna nay logoon kay chehroon pe ajeeb sa junoon
daikha , jaisay maqnatees lohay ko khainchta hay usay laga , sab log
kahin khichay chalay ja rahay hain. Allahuma labaik ka wird kartay
hoay wo zameen ko daikh kay chalnay lagi ke Arsalaan nay ishara kar
kay kaha "Sna ,samnay daikho" Sna nay daikha ..sufaid marbal ki
phaili hoaey emarat charoon taraf hajyoon ka hujoom aur fiza main
" Allahuma labaik kay wird kay jadoo main laal choocnhoon walay mast
kabooter , us kay rongattay kharay ho gaey aur qadam ruk gaey,
bait-Allah main usay buhut pehlay hi Allah ka jalaal aur shaan ander
tak mehsoos hoey .Arsalaan nay us ka haath dady ko thamaia aur khud
apni ammi ka hath paker liya . Bait-al haram main dakhil hoay to
jaisay logoon ka sailaab beh raha ho Sna ki nazer jaisay jhapakna
bhool gaey us kay samnay khana kaabah tha . kalay rang kay ghulaaf
main dhaka hoa , khoobsoorat Ayaat say muzayan , us ka dimaghjaisay
shal sa ho gaia ho , usay nahi yaad kab Dady nay usay paker kay
chalatay hoay tawaf main ghaseet liya. phir jaisay us sailab main wo
behnay lagi , dady nay usay yaad karaia ke tawaaf main kia tasbeeh
karni hay . laikin us ki nazer markaz say na hat saki . hajr-e- aswad
kay samnay dady kay kehnay pe takbeer -e- tehreema kahi aur phir
usi markez kay gird behnay lagi . usay nahi yaad zameen pe qadam lagay
ke nahi ? kitna fasla tay hoa ? kaisay hoa? bas aik ajeeb si baykhudi
si thi jis main say her baar dady ko usay nikalna parta . aur aglay
rukan kay liyay samjhana parta .
muqam-e- ibraheem kay baray bhi dady nay usay bataia warna usay to
yaad na rehta .
tawaf kay baad saee kartay
waqt bhi us ki nazer behak kay markaz pe
par jaati . too palatna bhool jaati . saee kay baad wo ammi kay saath
Zam zam ki taraf gaey . pehlay piyas bhujhaey phir zaiq mehsoos kiya
to usay laga ke nazer to paani ata hay laikin paani mehsoos kioon
nahi hota . koey nabeena aurat ankhoon pe laga rahi hay to koey apnay
bachy kay sir pe daal rahi hay . usay aik aik nal kay peechay
khawateen ki qatarain nazer ain . aik lamhay ko us nay socha lakhoon
ki taadaad main Haj aur aik Zam zam ka Kunwaan . aur phir hazaroon
saal purana . us kay rongattay phir kharay hoay . dimagh shal sa hoa
aur wo pagaloon ki tarah Zam zam kay paani kay cheentay monh pe
dalnay lagi. wo jaisay jaisay paani kay baray sochti rahi sirshaar
hoti rahi .wo to taqreeban poori bheeg hi chuki thi ke ammi nay kaha "
Sna , abhi kay liyay bas karo " kisi aur ki baari anay do." usay tab
ehsaas hoa ke usay to peechay khari ammi bhool hi gaey thin. wo
sharmindigi say jaldi say peechay hat gaey.
bait -al haram say mina jany lagay to bhi mur mur kay daikhti rahi .
Haj kay tamam manasik ada hotay rahay aur wo bhooli bhatki si
baykhaber si jaisay dunya bhool gaey ho. ammi dady aur Arsalaan ki
rah numaey na hoti to jaisay usay kuch soojhta hi na .maidaan
Araafaat main dhoop ki tamazet main nidhaal si kaifiyat main usay
mehsoos hoa . khali maidaan main kisi ala shaan emarat ka jadoo nahi
hay , aur sooraj ki hararat main rait kay zarray hain ya kuch pather
jo Allah ki tasbeeh biyan kartay hoay mehsoos ho rahy hain . darakht
aur insaan main abadat ka aik jaisa nasha tha jis kay agay Sna ko
kuch dikhaey na diya. kahan say peenay ko paani mil gaia , aur
kahaan say khanay ko khauraak kisi ko koey sar-o-kaar hi nahi jaisay
. Muzdalfa say kankaryaan uthatay waqt usay khiyal aaia ke ibadat
kay is hissay main kia lutf ho ga?
is sawal kay jawab main jab wo kankaryaan marnay gaey to daikha ke
jamaraat per kankaryaan aisay girrahi hain jaisay chakki main say
Aata . usay aur ammi ko Arsalaan aur dady aik jaga khara kar kay ,
aga gaey aur sab kay hissay ki kankaryaan maar kay aey . Sna ko
ajeeb sa shauq jaga , neechay giri hoey kankaryaan utha kay wo us
taraf phainknay lagi.
par jaati . too palatna bhool jaati . saee kay baad wo ammi kay saath
Zam zam ki taraf gaey . pehlay piyas bhujhaey phir zaiq mehsoos kiya
to usay laga ke nazer to paani ata hay laikin paani mehsoos kioon
nahi hota . koey nabeena aurat ankhoon pe laga rahi hay to koey apnay
bachy kay sir pe daal rahi hay . usay aik aik nal kay peechay
khawateen ki qatarain nazer ain . aik lamhay ko us nay socha lakhoon
ki taadaad main Haj aur aik Zam zam ka Kunwaan . aur phir hazaroon
saal purana . us kay rongattay phir kharay hoay . dimagh shal sa hoa
aur wo pagaloon ki tarah Zam zam kay paani kay cheentay monh pe
dalnay lagi. wo jaisay jaisay paani kay baray sochti rahi sirshaar
hoti rahi .wo to taqreeban poori bheeg hi chuki thi ke ammi nay kaha "
Sna , abhi kay liyay bas karo " kisi aur ki baari anay do." usay tab
ehsaas hoa ke usay to peechay khari ammi bhool hi gaey thin. wo
sharmindigi say jaldi say peechay hat gaey.
bait -al haram say mina jany lagay to bhi mur mur kay daikhti rahi .
Haj kay tamam manasik ada hotay rahay aur wo bhooli bhatki si
baykhaber si jaisay dunya bhool gaey ho. ammi dady aur Arsalaan ki
rah numaey na hoti to jaisay usay kuch soojhta hi na .maidaan
Araafaat main dhoop ki tamazet main nidhaal si kaifiyat main usay
mehsoos hoa . khali maidaan main kisi ala shaan emarat ka jadoo nahi
hay , aur sooraj ki hararat main rait kay zarray hain ya kuch pather
jo Allah ki tasbeeh biyan kartay hoay mehsoos ho rahy hain . darakht
aur insaan main abadat ka aik jaisa nasha tha jis kay agay Sna ko
kuch dikhaey na diya. kahan say peenay ko paani mil gaia , aur
kahaan say khanay ko khauraak kisi ko koey sar-o-kaar hi nahi jaisay
. Muzdalfa say kankaryaan uthatay waqt usay khiyal aaia ke ibadat
kay is hissay main kia lutf ho ga?
is sawal kay jawab main jab wo kankaryaan marnay gaey to daikha ke
jamaraat per kankaryaan aisay girrahi hain jaisay chakki main say
Aata . usay aur ammi ko Arsalaan aur dady aik jaga khara kar kay ,
aga gaey aur sab kay hissay ki kankaryaan maar kay aey . Sna ko
ajeeb sa shauq jaga , neechay giri hoey kankaryaan utha kay wo us
taraf phainknay lagi.
ab tak ki saari riazat
kay dauraan usay neend ka ehsaas buhut kam
hoa , usay lagta tha jaisay us ka dimagh soay hoay bhi jaag raha hay .
Mina main qayam kay waqt albatta usay neend nay a liya , thakan ka
ehsaas jaga ye shaitaan ko kankaryaan marnay kay baad ka sakoon tha
shaid . Eid kay din naha dho kay , qurbaani kay baad , sab nay aik
doosray ko Haj ki mubarak di aur phir madeenay ki taraf chalay .
. tawaf al wida keh kay jab wo rukhsat honay lagi to jaisay sakoon
ka lafz yahin chore kay ja rahi ho . wo ronay lagi , ansoon main usay
yaad aaia ke itna to wo apni rukhsati kay waqt bhi nahi roey thi. usay
apni ammi ki ankhoon ki wo chamak yaad aa gaey jis nay unhain apni
baiti ki rukhsati bhula di thi. wo ye soch kay muskaey aur shukranay
ki dua mangaty hoay us nay Madeena munawara say anay waali hawa ko
khushi say mehsoos kiya .
hoa , usay lagta tha jaisay us ka dimagh soay hoay bhi jaag raha hay .
Mina main qayam kay waqt albatta usay neend nay a liya , thakan ka
ehsaas jaga ye shaitaan ko kankaryaan marnay kay baad ka sakoon tha
shaid . Eid kay din naha dho kay , qurbaani kay baad , sab nay aik
doosray ko Haj ki mubarak di aur phir madeenay ki taraf chalay .
. tawaf al wida keh kay jab wo rukhsat honay lagi to jaisay sakoon
ka lafz yahin chore kay ja rahi ho . wo ronay lagi , ansoon main usay
yaad aaia ke itna to wo apni rukhsati kay waqt bhi nahi roey thi. usay
apni ammi ki ankhoon ki wo chamak yaad aa gaey jis nay unhain apni
baiti ki rukhsati bhula di thi. wo ye soch kay muskaey aur shukranay
ki dua mangaty hoay us nay Madeena munawara say anay waali hawa ko
khushi say mehsoos kiya .
masjid Nabwi ki hudood kab sharoo
hoey Sna ko nahi maloom albatta
logoon kay bahao main chalti hoey wo jahan tak ander ja sakti thi
chalti gaey . thandi pursakoon fiza say jaisay thakay hoay hajyoon ka
massag ho gai aho aur wo phir say tar-o- taza ho gaey hoon.
masjid nabwi ki khoobsoorat naey tarz ki wasee emarat main hafta
bhar namazain ada kin aur rozana hi Us muqadas jaali ko daikhnay ki
hasrat barhti gaey. wahaan auratoon aur mardoon ka elehda intezaam
tha aur ziyarat kay makhsoos auqaat thay .phir aik din asar ki namaz
kay baad unhain mauqa mil hi gaia . wo sunherijalyoon ko daikhnay lagi
aur nazer ander tak na janay kia dhoondhti rahi . wahaan darood -o-
salaam ka zikar tha charoon taraf . log duain kar rahay thay nawafil
parh rahay thay . ammi kay kehnay pe nafal ada kiya aur darood parhany
lagi . aik konay main wo baithi logoon kay hujoom kay darmiyaan say
jalyoon kay ander chaey hoay sakoot ko mehsoos karnay lagi . us nay
ankhain band kar lin ke un kay kanoon main peechay baithi aik khatoon
ki hichkiyoon ki awaazain sunaey din. wo halka sa muri. ansoon say
nahaia hoa chehra , dua mangtay hoay kamptay hoay hath . kamptay hoay
alfaaz . us nay zara tairana nigah daali to saray alam ka yehi haal
tha . girgiratay hoey . roti hoey . jholyaan aur daman phailey hoey ..
mangti hoey dunya . us ka dil jaisay halaq main aa kay thehar gia ho.
aik lamhay ko usay kuch nahi soojha ke wo kia mangay ...phir jaisay us
ki ammi ki awaaz sunaey di " Sna dua mango. hum Allah miyan kay ghar
phir say jain " aur jaisay wo kam sin ban gaey ho aur hil hil kay
yehi dua mangti gaey .usay yaad aaia ke Khala bi Haj ki khawhish
liyay hi dunya say rukhsat ho gaey thin . ...khala bi kay chehray kay
saath usay kaey chehray yaad aa gaey aur wo un kay liyay dua mangti
gaey ...
madeenay ki pur- raunaq dukaonoon say khajoorain aur tasbyaan
khareedin kuch aur masjidoon ki ziaratain kin aur wapsi ki tayari
hoey . Haj kay chand dinoo main hi wo dhair saari tabdeeli kay saath
. wapas Jeddah aa gaey . jahaan say Zamzam ki saughaat liyay Ammi aur
dady kay saath Japan aa gaey.
logoon kay bahao main chalti hoey wo jahan tak ander ja sakti thi
chalti gaey . thandi pursakoon fiza say jaisay thakay hoay hajyoon ka
massag ho gai aho aur wo phir say tar-o- taza ho gaey hoon.
masjid nabwi ki khoobsoorat naey tarz ki wasee emarat main hafta
bhar namazain ada kin aur rozana hi Us muqadas jaali ko daikhnay ki
hasrat barhti gaey. wahaan auratoon aur mardoon ka elehda intezaam
tha aur ziyarat kay makhsoos auqaat thay .phir aik din asar ki namaz
kay baad unhain mauqa mil hi gaia . wo sunherijalyoon ko daikhnay lagi
aur nazer ander tak na janay kia dhoondhti rahi . wahaan darood -o-
salaam ka zikar tha charoon taraf . log duain kar rahay thay nawafil
parh rahay thay . ammi kay kehnay pe nafal ada kiya aur darood parhany
lagi . aik konay main wo baithi logoon kay hujoom kay darmiyaan say
jalyoon kay ander chaey hoay sakoot ko mehsoos karnay lagi . us nay
ankhain band kar lin ke un kay kanoon main peechay baithi aik khatoon
ki hichkiyoon ki awaazain sunaey din. wo halka sa muri. ansoon say
nahaia hoa chehra , dua mangtay hoay kamptay hoay hath . kamptay hoay
alfaaz . us nay zara tairana nigah daali to saray alam ka yehi haal
tha . girgiratay hoey . roti hoey . jholyaan aur daman phailey hoey ..
mangti hoey dunya . us ka dil jaisay halaq main aa kay thehar gia ho.
aik lamhay ko usay kuch nahi soojha ke wo kia mangay ...phir jaisay us
ki ammi ki awaaz sunaey di " Sna dua mango. hum Allah miyan kay ghar
phir say jain " aur jaisay wo kam sin ban gaey ho aur hil hil kay
yehi dua mangti gaey .usay yaad aaia ke Khala bi Haj ki khawhish
liyay hi dunya say rukhsat ho gaey thin . ...khala bi kay chehray kay
saath usay kaey chehray yaad aa gaey aur wo un kay liyay dua mangti
gaey ...
madeenay ki pur- raunaq dukaonoon say khajoorain aur tasbyaan
khareedin kuch aur masjidoon ki ziaratain kin aur wapsi ki tayari
hoey . Haj kay chand dinoo main hi wo dhair saari tabdeeli kay saath
. wapas Jeddah aa gaey . jahaan say Zamzam ki saughaat liyay Ammi aur
dady kay saath Japan aa gaey.
Yahaan sab ki mubarkain milin ,
zam zam aur khajoorain bantin . aur
dawtain khaein. kisi nay usay Hajan kaha aur kisi nay khushqismat .
Zindigi jaisay us ki ab sharoo hoey thi . namaz ki pabandi kay saath
us nay dunay ki nit naey taraqi yafta emaroon say mehzooz hona chore
diya tha . wo aik qabil Architect thi ghar ko naey siray say muzayan
kiya .us kay office main ab aik say barh kay aali shaan masajid kay
posters thay , yehi haal ghar ka bhi tha . masjid nabwi kay
mukhtalif zavyay haray balb ki roshni main ghar main dakhil hotay hi
rah daari ki dewar pe tatreeb say lagay thay. aur ghar kay darmiyaan
.living main bait al haram ka nihayat hi khoobsoorat model tha .
aur is kay elawa aisa buhut kuch tha jin kay samany dunya jahaan
ki Architecture ki dunya hairaan aur mabhoot reh jati hay. aur kion
na hoon akhir ye dunya per azal say abad tak zinda rehnay wali
lazawaal emartain hain . jo ke kabhi dunya ka history nahi kehlain
gi.
dawtain khaein. kisi nay usay Hajan kaha aur kisi nay khushqismat .
Zindigi jaisay us ki ab sharoo hoey thi . namaz ki pabandi kay saath
us nay dunay ki nit naey taraqi yafta emaroon say mehzooz hona chore
diya tha . wo aik qabil Architect thi ghar ko naey siray say muzayan
kiya .us kay office main ab aik say barh kay aali shaan masajid kay
posters thay , yehi haal ghar ka bhi tha . masjid nabwi kay
mukhtalif zavyay haray balb ki roshni main ghar main dakhil hotay hi
rah daari ki dewar pe tatreeb say lagay thay. aur ghar kay darmiyaan
.living main bait al haram ka nihayat hi khoobsoorat model tha .
aur is kay elawa aisa buhut kuch tha jin kay samany dunya jahaan
ki Architecture ki dunya hairaan aur mabhoot reh jati hay. aur kion
na hoon akhir ye dunya per azal say abad tak zinda rehnay wali
lazawaal emartain hain . jo ke kabhi dunya ka history nahi kehlain
gi.
teen saal ka arsa guzra ,
Sna ki baiti Eman chotay qadmoon say
bhagti hoey aey aur maan kay braber baith kay , us ki taqleed main
hil hil kay kuch mangny lagi . Sna nay us kay haath piyalay ki tarha
banaey aur kaha ke " Eman ... mangoo ke hum Allah miyan kay ghar
phir jain " ye keh kay Sna nay Eman ki hathaili ko daikha ...aur
halki si muskaan say socha ke Allah karay is kay haath main Haj ki
lakeer zaroor ho , amin.
bhagti hoey aey aur maan kay braber baith kay , us ki taqleed main
hil hil kay kuch mangny lagi . Sna nay us kay haath piyalay ki tarha
banaey aur kaha ke " Eman ... mangoo ke hum Allah miyan kay ghar
phir jain " ye keh kay Sna nay Eman ki hathaili ko daikha ...aur
halki si muskaan say socha ke Allah karay is kay haath main Haj ki
lakeer zaroor ho , amin.
میری زندگی کا ناقابل
فراموش واقعہ
یہ میری
زندگی کا سب سے زیادہ دل خراش واقعہ ہے ہوا کچھ یوں کہ ہمارے علاقے میں ایک صا حب کا
انتقال ہوگیا میں بھی ان
کے جنازے کے ساتھ قبرستان کی طرف
چل دیا میت کو قبر میں لٹا کر حسب رواج آواز لگائی گی تمام بھائی آخری دیدار کرلیں
پر اچانک ایک آواز نے میرے ہوش اڑادیے آواز آئی "بس بس دیکھ لیا بند کرو قبر"
کیا آپ کو پتا ہے وہ آواز کس کی تھی وہ آواز کسی غیر کی نہیں بلکہ میت کے بیٹے کی تھی
ہم حیرت سے اس کا منہ دیکھ رہے تھے پر کیا کہتے لیکن میرے دماغ میں بے شمار سوال ابھرنے
لگے ..نہ جانے اس شخص نے اپنے بیٹے کے ساتھ زندگی میں کیسا سلوک رکھا کہ اس لڑ کے نے
ایسے لمحہ بھی سخت دلی کا مظاھرہ کیا پر آخری بات جس نے رنجیدہ کردیا وہ تھی
"مردے کے صدمے" جی ہاں مردہ سب کی آواز سنتا ہے پر اس کی پکار جن اور انسانوں
کے علاوہ ہر چیز سونتی ہے کیسی حسرت ہوئی ہوگی اس شخص کو اپنے لختے جگر کے آخری کلمات
سن کر میری عرض ہے ان تمام والدین سے جو ہمیشہ سختی کا برتاؤ کرتے ہے اپنے بچوں سے
خدارا ایسا نہ کریں بلکہ اپنے بچوں کو سمجھائیں کیونکہ اللہ قرآن میں فرماتا ہے ...
ترجمہ :. "سمجھاو کہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے "
ہے فلاح و کامرانی نرمی و آسانی میں .....ہر بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانی
میں
میری زندگی کا ایک ناقابل فراموش واقعہ،!!!!
ایک دفعہ شاید سنمبر 1989 میں جب
مجھے سعودی عرب کے ایک اسپتال کے لئے اکاؤنٹنٹ کی ملازمت کے سلسلے میں ایک آفر
لیٹر ملا، جسے میں نے قبول کرکے اپنے دستخط کئے اور واپس بھیج کر ویزے کا انتظآر
کرتا رہا، مگر افسوس کہ ویزا لیٹ ہوگیا کیونکہ یہاں پاکستان میں تمام ویزے میڈیکل
فیلڈ کے تھے، تو اکتوبر 1989کے آخیر میں میرے نام پر ھی ویزا بھیجا گیا، کسی ایجنٹ
کے نام پر نہیں تھا، اس لئے میں نے سوچا کہ کیوں نہ خود ہی قسمت آزمائی کی جائے،
فوراً ہی میں سعودی سفارت خانہ پہنچا، وہاں پہلے ویزا کنفرم کیا، اور فارم کے ساتھ
پاسپورٹ جمع کرادیا، لیکن ویزے کی قسم “میل نرس“ کی ہی تھی،
دوسرے دن ہی مجھے پاسپورٹ بمعہ ویزا اسٹمپ ہوئے مل گیا، مجھے خود حیرانگی ہوئی، کہ کوئی بھی پریشانی آٹھائے ہوئے میرے پاسپورٹ پر ویزا لگ گیا جبکہ پہلے پاسپورٹ کی تجدید کرانے کے لئے بھی کافی پریشانی اٹھانی پڑی تھی،!!!!!!
چلئے خیر اب ھم پہنچے پروٹیکٹر آفس جہاں پر نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ کی اسٹمپ لگتی ھے اور ساتھ ھی انشورینس بھی کرانی پڑتی ہے، پہلے دن تو کچھ تاخیر سے پہنچا تو لائن میں لگ کر جب کھڑکی تک پہنچا تو کھڑکی بند اور پھر دوسرے دن صبح صبح پہنچ گیا اس وقت بھی بہت بڑی لمبی لائن لگی ہوئی تھی، ایسا لگتا تھا کہ لوگوں نے یہیں پر ہی بستر لگائے ہوئے تھے، بہرحال جب نمبر آیا تو فارم پاسپورٹ کے ساتھ دیا، تو انہوں نے یہ کہہ کر واپس کردیا کہ پاسپورٹ پر اپنا پیشہ بدلواؤ، میں نے کہا کہ بھئی پاسپورٹ پر تو پرائویٹ سروس لکھا ہوا ہے، کھڑکی سے اس نے غصہ میں جواب دیا کہ تمھیں نظر نہیں اتا، کہ ویزے پر پیشہ تو “میل نرس“ کا ہے، پاسپورٹ پر بھی یہی پیشہ ہونا چاہئے،
ٌلائن میں لگنے سے پہلے مجھے ایک صاحب ملے تھے اور کہا بھی تھا کہ اگر آپ اپنا کام جلدی کروانا چاہتے ہیں تو میں کرادونگا، وہی صاحب بعد میرے پاس آئے اور اپنی ٹوپی سیدھی کرتے ہوئے بولے، !!!!!!
کیا ہوا بھائی کام نہیں ہوا کیا،؟؟؟؟؟؟
میں نے مایوسی کی حالت میں کہا کہ،!!!
نہیں اس نے پاسپورٹ پر پیشہ بدلوانے کو کہا ہے،!!!!!!
اس آدمی نے میرا پاسپورٹ لیا اور دیکھنے لگا، اور کچھ دیکھ کر کہا!!!!
ہاں بھئی پاسپورٹ آفس جاؤ اور وہاں سے اپنا پیشہ بدلوا کر لاؤ، اور باقی کام میں کرادوں گا،!!!!!
میرا سارا دن وہیں پر ضائع ہو گیا ، مجھے یہ تو معلوم تھا کہ ویزا “میل نرس“ کا ہی تھا، کیونکہ یہاں پاکستان میں اس اسپتال کے سارے ویزے میڈیکل فیلڈ سے ہی تعلق رکھتے تھے، اور میرے پاسپورٹ پر صرف “پرائویٹ سروس“ ہی لکھا ہوا تھا، مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ اس پر کوئی اعتراص تو نہیں ہونا چاہئے تھا، کیونکہ سعودی ایمبیسی نے کوئی بھی اعتراض نہیں اٹھایا تھا، میں نے وہاں سعودی عرب میں اسی اسپتال میں ٹیلیفوں پر بات بھی کی، وھاں سے جواب ملا کہ آپ کا پیشہ یہاں آئیں گے تو بدل دیا جائے گا، لیکن اس وقت ہمارے پاس پاکستان کیلئے صرف میڈیکل پیشے سے تعلق رکھنے والے ہی ویزے ہیں، مجبوری ہے!!!!!
مجبوراً میں وہاں پاسپوٹ آفس پہنچا، کافی پریشانی اٹھائی لیکن سیدھے طریقے سے میرا پیشہ بدل نہیں سکا، جبکہ میں نے ساری صورت حال انہیں بتائی کہ میں تو ایک اکاؤنٹنٹ ہوں اور مجھے وہاں سے ایک آفر لیٹر میں بھی دکھایا جس میں اکاونٹٹ کی ہی تقرری لکھی ہوئی تھی، لیکن وہاں کے کسی بھی انچارج کو میں قائل نہ کرسکا، انہوں نے کہ یہ اسی صورت ہوسکتا ہے کہ آپ “میل نرس“ کا سرٹیفیکیٹ یہاں کے مقامی اسپتال سے لے آئیں اور وہ “پاکستان میڈیکل کونسل آف نرسنگ“ سے تصدیق شدہ ہونا چاہئے،!!!!
میں پاسپورٹ آفس کے مین گیٹ سے مایوسی کے عالم میں باھر نکلا تو کافی لوگ میری حالت دیکھ کر چپک گئے، بھائی صاحب آپ بتائے آپ کا کام کیا ہے ہم فوراً ابھی اسی وقت آپکا کام کرادیں گے، مجھے سامنے ہی وہی آدمی نظر آیا جس نے میرے پاسپورٹ کی تجدید کرائی تھی، وہ میرے پاس آیا اور سب لوگوں کو یہ کہہ کر بھگا دیا کہ یہ میرے گاھک ھیں،!!!، میں بھی انکی ٹیبل کے سامنے ایک اسٹول پر جاکر بیٹھ گیا، اور ساری روداد سنادی، انہوں نے کہا کہ جب میں یہاں آپکا خادم باھر میز لگا کر بیٹھا ہوں تو آپ کو اِدھر اُدھر بھٹکنے کی کیا ضرورت ہے،پہلے بھی آپکو پاسپورٹ تجدید کرانے میں کتنی مشکل پیش آئی تھی اور میں نے آپکا کام ایک گھنٹے میں کروادیا تھا، اب جب بھی کوئی بھی پاسپورٹ کے علاوہ بھی کوئی اور کسی بھی گورنمنٹ کے کھاتے کا کام ہو میرے پاس تشریف لائیں، میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ آپکا کام فوراً سے پیشتر کروادوں گا، مگر جیسا کام ویسا ہی دام بھی ہوگا!!!!
مجبوری تھی کیونکہ اس ویزے کے آتے ہی میں یہاں ایک اچھی خاصی نوکری چھوڑ بیٹھا تھا، بال بچوں کے ساتھ تھا اور والدین بہن بھائی سب تھے ساتھ ہی گھر کا میں بڑا بیٹا بھی تھا، کیا کرتا مجبوراً میں نے اس سے پوچھا اسکے کتنے دام ہونگے،اس نے 500 روپے کا نسخہ بتایا اور اس وقت 300 روپے گورنمنٹ کی فیس اس کے علاؤہ تھی جوکہ میں پہلے ہی بنک میں جمع کراچکا تھا، میں نے بھی کچھ رقم اسی سلسلے کے لئے ایک دوست سے ادھار لی ھوئی تھی، اسی وقت اسے اس کی مطلوبہ رقم اس کے ہاتھ میں رکھی، اور اس نے مجھ سے پاسپورٹ، فارم لئے اور اندر چلا گیا، اور صرف آدھے گھنٹے کے اندر اندر وہ باھر آگیا، میں سمجھا کہ شاید میرا کام نہیں ہوا، لیکن اس نے مجھے پاسپورٹ دے دیا، کھول کر دیکھا تو میرے پیشہ تبدیل ہوچکا تھا، اور ایک صفحہ پر تصدیق شدہ مہر کے ساتھ اور متعلقہ انچارج کے دستخط کے ساتھ، !!!!!!
کمال ہے میں نے اس سے پوچھا بھئی یہ کیسے ہوگیا، اس نے جواب دیا کہ جتنے بھی اندر بیٹھے ہیں، سارے چور ہیں اور ہم سے پیسہ لے کر کام کرتے ہیں، اور ہم بھی یہاں پر کچھ ان کی بدولت کچھ نہ کچھ کما لیتے ہیں، اگر کوئی بھی کام ہوا کرے میرے پاس بلاجھجک چلے آنا، میں تمھارے لئے کچھ نہ کچھ رعائت کردونگا، میری شکل پہچان لو، یہیں میں گیٹ کے سامنے بیٹھتا ہوں،!!!!!!
میں نے بھی سکون کا سانس لیا، اور دوسرے دن صبح صبح پروٹیکٹر آفس پہنچا اور میں جاکر سیدھا لائن میں لگ گیا، میں نہیں چاھتا تھا کہ اس آدمی سے ملوں اور پھر کوئی دوسرا غلط طریقہ اختیار کروں، اب تو کوئی مسئلہ بھی نہیں تھا اور پاسپورٹ پر پیشہ “میل نرس“ کا تبدیل ہوچکا تھا، مجھے اس وقت مکمل امید تھی کہ اب کوئی اعتراض نہیں اٹھے گا، جب میرا نمبر آیا تو انھوں نے میرا نرسنگ کا سرٹیفکیٹ مانگا جو کہ “پاکستان میڈیکل کونسل آف نرسنگ“ سے تصدیق شدہ بھی ہو، اور اس کے علاوہ انہوں نے ایک اور مسئلہ کھڑا کردیا کہ بھئی آج کل تو میڈیکل اسٹاف کو باھر جانے کیلئے وزارتِ صحت“ یعنی “منسٹری آف ھیلتھ“ سے اجازت نامہ یعنی “نو آبجیکشن سرٹیفیکیٹ“ لینا ضروری ہے،
میں نے ان کو پھر نئے سرے سے پھر اپنے اکاونٹنٹ کی سروس کا لیٹر دکھاتے ہوئے ساری روداد سنائی، مگر انہوں نے اپنی مجبوری ظاھر کرتے ہوئے انکار کردیا، !!!!!
جیسے ہی میں وہاں سے مایوس ہوکر باھر نکلا تو وہی آدمی پھر مل گیا، اور کہا،!!!! ہاں بھائی سناؤ تمھارا کام بنا یا نہیں،!!!!!
میں نے جواب دیا کہ!!!! نہیں انہوں نے انکار کردیا، کیونکہ انہیں وزارتِ صحت سے اجازت نامہ چاہئے، اب یہ میں کہاں سے لاؤں،!!!!!!
اس نے فوراً کہا،!!!
دیکھو اس چکر میں نہ پڑو، اگر تم چاہتے ہو کہ تمھارا کام ہوجائے، تو مجھے کہو میں تمھارا آج ہی اور اسی وقت تمھارا کام کرادیتا ہوں،!!!!!!
میں نے کہا کہ،!!!!
کیسے ہوگا یہ کام بھائی صاحب،!!!!
اس نے جواب دیا کہ،!!!
بس صرف پانچ ہزار روپے ہدیہ دینا ہوگا اور باقی گورنمنٹ کی فیس اور انشورینس وغیرہ الگ سے ادا کرنے ہونگے،!!!!!
میں نے کہا کہ،!!!!
اس کے علاؤہ کوئی چارہ نہیں ہے، !!!!!
اس نے تنزیہ انداز میں کہا کہ،!!!
ہاں دوسری تجویز بھی ہے، یہاں سے تمھیں اسلام آباد جانا ہوگا، وہاں پر وزارت صحت کے دفتر پہنچو، اور اپنی درخوست دو تو شاید وہ کچھ تمھاری فریاد پر غور کریں اور تمھیں باھر جانے کا اجازت نامہ دے دیں، مگر یہ اتنا آسان نہین ہے بھائی، مجھے 5000 روپے دو اور فوراً اپنا کام ابھی اور اسی وقت کرالو،!!!!
میرا دل نہیں مانا میں تو یہ سمجھا کہ شاید یہ مجھ سے بس روہے اینٹھنا چاھتا ہے، میں نے اس سے کل کے آنے کا بہانہ کرکے اس سے جان چھڑائی اور وہ شخص مجھے آخری وقت تک قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا، لیکن میں اسکی ہاں میں ہاں ملاتا ہوا بس اسٹاپ تک پہنچا، وہ بھی میرے پیچھے پیچھے چلا آرہا تھا، شاید آج اس کے پاس کوئی مرغا نہیں پھنسا تھا اور آخرکار مجھے اسکو چائے پلا کر ہی فارغ کرنا پڑا، مجھے تو وہ کوئی فراڈ ہی لگ رہا تھا،!!!!!!
تھک ھار کر میں گھر پر آگیا اور مجھے بہت ہی دکھ ہو رہا تھا، اسی چکر میں اچھی خاصی نوکری چھوڑ بیٹھا تھا، اور ادھار پر ادھار لئے جارھا تھا، ویزا تو لگ چکا تھا، پاسپورٹ پر بھی پیشہ تبدیل ہوچکا تھا، اور اسی دوران ویزے کو لگے ہوئے بھی ایک مہینہ گزر چکا تھا، ویزے کی معیاد شاید تین مہینے کی تھی، نومبر1989 کا آخری ھفتہ چل رھا تھا، نوکری چھوڑے ہوئے بھی دو مہینے ہو چکے تھے، ایک ہمارے جاننے والوں کے پاس پارٹ ٹائم ایک جاب کرنے لگا، جہاں سے وہ مجھے گزارے کیلئے ھر ھفتے کچھ نہ کچھ گزارے کیلئے میرے ھاتھ میں رقم رکھ دیتے تھے، میں ان کا احسان زندگی بھر نہیں بھول سکتا کہ انہوں نے میری اس مشکل کے دنوں میں مدد کی،!!!!
بہرحال میں کچھ مایوس ہو چکا تھا، ھر کوئی مجھے ایک نیا مشورہ دے رھا تھا، والد صاحب مجھ سے الگ ناراض تھے، کہ نوکری چھوڑ کر ویزے کے چکر میں دو مہینے ضائع کرچکا تھا، جبکہ انہیں تمام کہانی سنا بھی دی لیکن انہیں سمجھ نہ آئی، خیر میں دوسرے دن ھی صرف اپنی بیگم کو اور امی کو بتا کر اسلام آباد روانہ ہوگیا، تاکہ وہاں سے وزارت صحت سے میرے باھر جانے کا اجازت نامہ لے لوں، شناختی کارڈ پاسپورٹ اور تمام ضروری دستاویزات، اسکول کالج سب اصل سرٹیفکیٹ اور ڈگری لئے اسلام آباد پہنچ گیا، دسمبر 1989 کا مہینہ شروع ہوچکا تھا،!!!!!
وہاں اپنے ایک رشتہ دار کے یہاں پہنچا انہیں اپنی تمام کہانی شروع سے سنائی، اور وہ مجھے انکے دوست کے پاس لے گئے، ان کو پھر نئے سرے سے ساری کہانی سنادی، انہوں نے کہا کہ میں کوشش کرکے دیکھتا ہوں، دوسرے دن ان صاحب سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ بہت مشکل ہے اس کے لئے تو سب سے نرسنگ کا سرٹیفکیٹ بنوانا پڑے گا پھر اسے “پاکستان میڈیکل کونسل آف نرسنگ“ سے رجسٹر کروا کر باقائدہ تصدیق کرانا ہوگا، اور پھر اس تمام پروسس کے بعد آپ باھر جانے کیلئے وزارت صحت کو اجازت نامہ کیلئے درخواست دینی ھوگی، اب ان کی مرضی ہے کہ اجازت دیں یا نہ دیں،!!!!
اس تمام کاروائی کیلئے ایک صاحب نے کہا کہ وہ یہ سارے کام کروادیں گے لیکن اس پر 45000 روپے تک کا خرچہ آئے گا، میں تو سر پکڑ کر بیٹھ گیا، ہر دفعہ کوئی نئی مشکل کھڑی ہوجاتی ہے، پھر میں نے ایک کوشش اور ایک اور دوست جو میرے ساتھ پہلے 1978 سے 1983 تک سعودی عرب میں ایک کنسٹرکشن کمپنی میں ساتھ کام کرچکے تھے، ان کے پاس پہنچا، وہ مجھے ایک کسی حکومت وقت کے ایک سیاسی کارکن کے پاس لے گئے، وہ مجھے فوراً ساتھ لے کر راولپنڈی کے پروٹیکٹر آف امیگریشن کے آفس لے گئے اور وہاں وہ مجھے سیدھا ایک ڈائریکٹر کتے پاس لے گئے، انہوں نے کہا کہ فارم وغیرہ بھر دو، اور کھڑکی پر جمع کرادو، فارم پہلے ہی سے میرے پاس پہلے کا بھرا ہوا رکھا تھا اس فارم پر انہوں نے دستخط کئے، اور میں نے کاونٹر پر جمع کرادیا، اور جو میرے ساتھ آئے تھے وہ واپس چلے گئے، خیر مجھے انتظار کرنے کو کہا گیا کچھ ہی دیر میں ایک صاحب نے مجھے کاونٹر سے ہی پاسپورٹ بغیر پروٹیکٹر اسٹیمپ کے واپس کردیا، میں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے کاغذات مکمل نہ ہونے کا بہانہ کیا، دو تین دفعہ اسی طرح سفارش سے کام کرانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا، اب تو میں ھمت ہار چکا تھا،!!!!!
اسی طرح مجھے وہاں پر تقریباً 20 دن گزر چکے تھے، سخت سردیوں کے دن تھے میں نے اپنا ارادہ باھر جانے کا ترک کیا، اور راولپنڈی میں اپنی پرانی کنسٹرکشن کمپنی کے ھیڈ آفس پہنچ گیا اور وھاں اپنے تمام پرانے دوستوں سے ملاقات کی، ایک میرے پرانے باس جناب خواجہ خالد محمود صاحب کے پاس کافی دیر تک بیٹھا، اور اپنے سارے دکھ درد ان سے کہہ ڈالے، اور کہا کہ مجھے اب دوبارا یہیں پر آپ مجھے نوکری دلوادیں کیونکہ میں واپس خالی ھاتھ اسی طرح نہیں جاسکتا، کیونکہ والد صاحب بہت غصہ ہونگے، میں تو ان سے پوچھے بغیر یہاں آیا تھا،!!!!
خواجہ خالد محمود صاحب نے مجھے کافی حوصلہ دلایا، اور کہا کہ،!!!! ایک کوشش اور کرکے دیکھتے ہیں، ایک میرے ڈاکٹر دوست ایک اسپتال میں کام کرتے ھیں، گھبراؤ نہیں، اگر کہیں کچھ نہ ہوسکا تو اسی کمپنی میں تمھارے لئے ضرور کوشش کریں گے، اور انشااللہ تعالی میری دعاء یہی ہے کہ تم خالی ہاتھ واپس نہیں جاؤ گئے،!!!!!
وہ پھر مجھے اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے اور وہاں ان کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا، اور بعد میں میں نے ان سے اجازت لی، انہوں نے مجھے تاکید کی کہ شام کو یہیں میرے گھر پر آجانا تو ہم دونوں مل کر ساتھ اسپتال ایک دوست کے پاس چلیں گے اور تمھارے نرسنگ کے سرٹیفکیٹ کے بارے میں معلومات کریں گے، اسکے وزارت ھیلتھ میں بھی کافی تعلقات ہیں !!!!!!!
مجھے ایک اور امید کی کرن نظر آئی، اور کچھ دل میں ایک سکون سا محسوس ہوا، اسی دوران میں وہاں سے وقت گزارنے کیلئے ایک دوست کے پاس چلا گیا، اور شام ہوتے ھی وعدے کے مظابق خالد محمود صاحب کے گھر پہنچا، تو دیکھا کہ ان کے گھر پر تالا لگا ہوا تھا، میں نے وہاں کھڑے ہوئے چند لوگوں سے پوچھا کہ خواجہ خالدصاحب کا پتہ ہے کہاں چلے گئے، ان میں سے ایک نے جواب دیا کہ ان کا کچھ دیر پہلے ہی ہارٹ اٹیک کے سبب انتقال ہوچکا ھے ان کی میت اس وقت ان کے والد صاحب کے گھر پر ہے، جو کوہ نور ملز میں کام کرتے ہیں،اور وہیں انکے بنگلے سے ہی رات کو عشاء کے بعد ان کی تدفین نزدیکی قبرستان میں ہوگی،!!!!
یہ سنتے ہی میرے پیروں کے تلے سے زمین نکل گئی اور مجھے چکر سے آنے لگے اور میں وہیں زمین پر بیٹھ گیا، اور میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے،!!!!!!
اپنی زندگی میں ایسی ٹریجڈی میں نے کبھی نہیں دیکھی تھی، کچھ وقت پہلے ہی میں نے ان کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا تھا، وہ میری سابقہ ملازمت کے دوران میرے بہت ہی مہربان انجارج رہے تھے، جب میں اسی شہر راولپنڈی میں ہی اس کمپنی میں 1983 سے 1985 تک میرا ان کا بہت ہی اچھا ساتھ رہا تھا، اور وہ ھمیشہ سب کے ساتھ بغیر کسی عذر کے خدمت کرتے رہے، اور آج شاید میری ان سے آخری ملاقات ہونی تھی، اس لئے میں ان سے کسی کام کے سلسلے میں مدد کیلئے آیا تھا، لیکن وہ میری مدد کئے بغیر ہی چلے گئے، مگر ان کی دعاء آج تک مجھے یاد ہے کہ “ انشااللہ تعالی میری دعاء یہی ہے کہ تم خالی ہاتھ واپس نہیں جاؤ گے“،!!!!!“
میں وہاں سے سیدھا خواجہ خالد محمود صاحب کے گھر کوہ نور ملز کے رھائشی بنگلوز میں پہنچا، اور وہاں پر کافی سینکڑوں کی تعداد میں لوگ ان کا آخری دیدار کرنے آئے تھے، ان میں سے کافی میرے بھی جاننے والے تھے اور سب کی آنکھوں میں آنسو تھے اور کچھ تو دھاڑیں مار کر رو رہے تھے، انکے بھائی سے مہیں پر میری اچانک ملاقات ہوئی، ان سے میری ملاقات ان کے مرحوم بھائی کے گھر پر ہی دوپہر میں کھانے پر ملاقات ہوئی تھی، جہاں وہ بھی اس وقت موجود تھے، وہ مجھ سے لپٹ گئے اور روتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ آج آپکے ساتھ وہ دوپہر میں کھانے پر بالکل صحیح سلامت تھے ، اور اس وقت دیکھو ان کی میت رکھی ہوئی ہے،!!!! انکے والد صاحب بھی بہت رو رہے تھے،!!!!!
مجھے وہ اپنے ساتھ اندر لے گئے اور آخری دیدار کرایا، مجھے یقیں ہی نہیں آرہا تھا کہ انکا انتقال ہو گیا ہے، ان کا چہرہ بالکل ہشاش بشاش لگ رہا تھا، لگتا تھا کہ وہ ابھی اٹھیں گے اور کہیں گے چلو سید بھائی اور میرے ساتھ میرے کام کے لئے چل دیں گے، ان کے اس حادثہ کے بعد تو میں نے اپنا باھر جانے کا اردہ بدل ہی لیا تھا،!!!!!!
خواجہ صاحب کی تدفین کے بعد سب سے رخصت لیتا ہوا، میں سیدھا اپنے دوست کے پاس آیا اور دوسرے دن اسی اپنی پرانی کمپنی میں دوستوں سے ملنے کیلئے گیا، اس دن اس کمپنی میں بالکل سوگ کا عالم تھا، سب سے ملتے ہوئے میں اجازت لے رہا تو ایک انکے ہی دوست جناب حاجی نسیم صاحب نے مجھ سے کہا کہ تمھارا کام اب میں کراونگا اس وقت میرے ساتھ چلو، وہ میرے والد صاحب کے دوستوں میں سے بھی تھے، مگر میں بے دلی سے صرف انکا دل رکھنے کیلئے ان کے ساتھ چل دیا،
وہ مجھے ان کے دوست کی ایک ٹریول ایجنسی پر لے گئے، اور وہاں انہوں نے کہا کہ یہ میرے بچوں سے بھی زیادہ عزیز ہے اس کا کام ہونا چاھئے، ساری کہانی پھر سے میں نے سنائی، انہوں نے کہا کہ،!!!! کوئی مسئلہ ہی نہیں حاجی صاحب کل اسکا کام ہوجائے گا، اپ کوئی فکر ہی نہ کریں میں نے انہیں سارے دستاویزات دکھائے، انہوں نے کہا کہ مجھے کچھ نہیں چاھئے آپ بس مجھے پاسپورٹ دے دیں اور کل آکر کسی بھی وقت لے جائیں، !!!!!!
مجھے امید تو بالکل نہیں تھی لیکن مجھے مرحوم خواجہ خالد محمود صاحب کی ایک دعاء پھر یاد آرھی تھی،!!!!!
انشااللہ تعالی میری دعاء یہی ھے کہ تم خالی ھاتھ واپس نہیں جاؤ گئے،!!!!!
دوسرے دن میں اسی ٹریول ایجنسی پر پہنچا اور وھاں پر انہوں نے مجھے کچھ انتظار کرنے کو کہا اور کسی کو ٹیلیفون کیا پھر کچھ ہی دیر میں ایک صاحب داخل ھوئے انہوں نے ان صاحب کو میرا پاسپورٹ دیا، انہوں نے پاسپورٹ کو چیک کیا اور مجھے تھما دیا کہ جاؤ بیٹا خوش رھو تمھارا کام ھوگیا، بس مجھے صرف 219 روپے انہیں دینے پڑے، مجھے تو یہ حیرت انگیز ھی دکھائی دے رہا تھا، اور مجھے یہ یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ میرا کام ہوگیا ہے اور وہ بھی صرف 219 روپے میں،!!!!!!!! اور میں 31 دسمبر 1989 کو کراچی ائرپورٹ سے جدہ کیلئے ایک سعودیہ کی پرواز سے روانہ ہوگیا،!!!!!!
پرواز کے دوران میرے کانوں میں مرحوم خواجہ خالد محمود صاحب کی یہ دعاء گونجتی رہی تھی،!!!!!!!!
انشااللہ تعالیٰ میری دعاء یہی ہے کہ تم خالی ہاتھ واپس نہیں جاؤ گئے،!!!!!
لیکن افسوس اور دکھ کی بات یہ تھی، کہ میرے والد جو مجھے بہت چاہتے تھے، میری جدائی ان سے برداشت نہ ہو سکی، اور انہوں نے میرے پردیس جانے کو بہت ہی زیادہ اپنے دل ودماغ پر سوار کرلیا اور میرے جدہ پہنچنے کے 12 دن بعد ہی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، اللٌہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت الفدوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے،!!! آمین،!!!! اس سے بڑھ کر میرے لئے بہت ہی تکلیف دہ بات یہ تھی کہ میں واپس پاکستان جا نہیں سکتا تھا کیونکہ میرا پاسپورٹ میری آمد کی رجسٹریشن کیلئے وہاں کے جوازات کے آفس میں وہاں کے اقامہ اور ملازمت کے اجازت نامہ کے لئے جمع ہو چکا تھا۔
میں اس سانحہ کو کبھی بھی بھول نہیں سکتا ہوں، وہ بہے ہی سب کی نظروں میں بہت ہی اچھے اور مہربان انسان تھے، ہر ایک ان سے بہت انسیت رکھتا تھا، اور میرے تو بہت ہی شفیق باپ تھے،!!!!!
دوسرے دن ہی مجھے پاسپورٹ بمعہ ویزا اسٹمپ ہوئے مل گیا، مجھے خود حیرانگی ہوئی، کہ کوئی بھی پریشانی آٹھائے ہوئے میرے پاسپورٹ پر ویزا لگ گیا جبکہ پہلے پاسپورٹ کی تجدید کرانے کے لئے بھی کافی پریشانی اٹھانی پڑی تھی،!!!!!!
چلئے خیر اب ھم پہنچے پروٹیکٹر آفس جہاں پر نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ کی اسٹمپ لگتی ھے اور ساتھ ھی انشورینس بھی کرانی پڑتی ہے، پہلے دن تو کچھ تاخیر سے پہنچا تو لائن میں لگ کر جب کھڑکی تک پہنچا تو کھڑکی بند اور پھر دوسرے دن صبح صبح پہنچ گیا اس وقت بھی بہت بڑی لمبی لائن لگی ہوئی تھی، ایسا لگتا تھا کہ لوگوں نے یہیں پر ہی بستر لگائے ہوئے تھے، بہرحال جب نمبر آیا تو فارم پاسپورٹ کے ساتھ دیا، تو انہوں نے یہ کہہ کر واپس کردیا کہ پاسپورٹ پر اپنا پیشہ بدلواؤ، میں نے کہا کہ بھئی پاسپورٹ پر تو پرائویٹ سروس لکھا ہوا ہے، کھڑکی سے اس نے غصہ میں جواب دیا کہ تمھیں نظر نہیں اتا، کہ ویزے پر پیشہ تو “میل نرس“ کا ہے، پاسپورٹ پر بھی یہی پیشہ ہونا چاہئے،
ٌلائن میں لگنے سے پہلے مجھے ایک صاحب ملے تھے اور کہا بھی تھا کہ اگر آپ اپنا کام جلدی کروانا چاہتے ہیں تو میں کرادونگا، وہی صاحب بعد میرے پاس آئے اور اپنی ٹوپی سیدھی کرتے ہوئے بولے، !!!!!!
کیا ہوا بھائی کام نہیں ہوا کیا،؟؟؟؟؟؟
میں نے مایوسی کی حالت میں کہا کہ،!!!
نہیں اس نے پاسپورٹ پر پیشہ بدلوانے کو کہا ہے،!!!!!!
اس آدمی نے میرا پاسپورٹ لیا اور دیکھنے لگا، اور کچھ دیکھ کر کہا!!!!
ہاں بھئی پاسپورٹ آفس جاؤ اور وہاں سے اپنا پیشہ بدلوا کر لاؤ، اور باقی کام میں کرادوں گا،!!!!!
میرا سارا دن وہیں پر ضائع ہو گیا ، مجھے یہ تو معلوم تھا کہ ویزا “میل نرس“ کا ہی تھا، کیونکہ یہاں پاکستان میں اس اسپتال کے سارے ویزے میڈیکل فیلڈ سے ہی تعلق رکھتے تھے، اور میرے پاسپورٹ پر صرف “پرائویٹ سروس“ ہی لکھا ہوا تھا، مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ اس پر کوئی اعتراص تو نہیں ہونا چاہئے تھا، کیونکہ سعودی ایمبیسی نے کوئی بھی اعتراض نہیں اٹھایا تھا، میں نے وہاں سعودی عرب میں اسی اسپتال میں ٹیلیفوں پر بات بھی کی، وھاں سے جواب ملا کہ آپ کا پیشہ یہاں آئیں گے تو بدل دیا جائے گا، لیکن اس وقت ہمارے پاس پاکستان کیلئے صرف میڈیکل پیشے سے تعلق رکھنے والے ہی ویزے ہیں، مجبوری ہے!!!!!
مجبوراً میں وہاں پاسپوٹ آفس پہنچا، کافی پریشانی اٹھائی لیکن سیدھے طریقے سے میرا پیشہ بدل نہیں سکا، جبکہ میں نے ساری صورت حال انہیں بتائی کہ میں تو ایک اکاؤنٹنٹ ہوں اور مجھے وہاں سے ایک آفر لیٹر میں بھی دکھایا جس میں اکاونٹٹ کی ہی تقرری لکھی ہوئی تھی، لیکن وہاں کے کسی بھی انچارج کو میں قائل نہ کرسکا، انہوں نے کہ یہ اسی صورت ہوسکتا ہے کہ آپ “میل نرس“ کا سرٹیفیکیٹ یہاں کے مقامی اسپتال سے لے آئیں اور وہ “پاکستان میڈیکل کونسل آف نرسنگ“ سے تصدیق شدہ ہونا چاہئے،!!!!
میں پاسپورٹ آفس کے مین گیٹ سے مایوسی کے عالم میں باھر نکلا تو کافی لوگ میری حالت دیکھ کر چپک گئے، بھائی صاحب آپ بتائے آپ کا کام کیا ہے ہم فوراً ابھی اسی وقت آپکا کام کرادیں گے، مجھے سامنے ہی وہی آدمی نظر آیا جس نے میرے پاسپورٹ کی تجدید کرائی تھی، وہ میرے پاس آیا اور سب لوگوں کو یہ کہہ کر بھگا دیا کہ یہ میرے گاھک ھیں،!!!، میں بھی انکی ٹیبل کے سامنے ایک اسٹول پر جاکر بیٹھ گیا، اور ساری روداد سنادی، انہوں نے کہا کہ جب میں یہاں آپکا خادم باھر میز لگا کر بیٹھا ہوں تو آپ کو اِدھر اُدھر بھٹکنے کی کیا ضرورت ہے،پہلے بھی آپکو پاسپورٹ تجدید کرانے میں کتنی مشکل پیش آئی تھی اور میں نے آپکا کام ایک گھنٹے میں کروادیا تھا، اب جب بھی کوئی بھی پاسپورٹ کے علاوہ بھی کوئی اور کسی بھی گورنمنٹ کے کھاتے کا کام ہو میرے پاس تشریف لائیں، میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ آپکا کام فوراً سے پیشتر کروادوں گا، مگر جیسا کام ویسا ہی دام بھی ہوگا!!!!
مجبوری تھی کیونکہ اس ویزے کے آتے ہی میں یہاں ایک اچھی خاصی نوکری چھوڑ بیٹھا تھا، بال بچوں کے ساتھ تھا اور والدین بہن بھائی سب تھے ساتھ ہی گھر کا میں بڑا بیٹا بھی تھا، کیا کرتا مجبوراً میں نے اس سے پوچھا اسکے کتنے دام ہونگے،اس نے 500 روپے کا نسخہ بتایا اور اس وقت 300 روپے گورنمنٹ کی فیس اس کے علاؤہ تھی جوکہ میں پہلے ہی بنک میں جمع کراچکا تھا، میں نے بھی کچھ رقم اسی سلسلے کے لئے ایک دوست سے ادھار لی ھوئی تھی، اسی وقت اسے اس کی مطلوبہ رقم اس کے ہاتھ میں رکھی، اور اس نے مجھ سے پاسپورٹ، فارم لئے اور اندر چلا گیا، اور صرف آدھے گھنٹے کے اندر اندر وہ باھر آگیا، میں سمجھا کہ شاید میرا کام نہیں ہوا، لیکن اس نے مجھے پاسپورٹ دے دیا، کھول کر دیکھا تو میرے پیشہ تبدیل ہوچکا تھا، اور ایک صفحہ پر تصدیق شدہ مہر کے ساتھ اور متعلقہ انچارج کے دستخط کے ساتھ، !!!!!!
کمال ہے میں نے اس سے پوچھا بھئی یہ کیسے ہوگیا، اس نے جواب دیا کہ جتنے بھی اندر بیٹھے ہیں، سارے چور ہیں اور ہم سے پیسہ لے کر کام کرتے ہیں، اور ہم بھی یہاں پر کچھ ان کی بدولت کچھ نہ کچھ کما لیتے ہیں، اگر کوئی بھی کام ہوا کرے میرے پاس بلاجھجک چلے آنا، میں تمھارے لئے کچھ نہ کچھ رعائت کردونگا، میری شکل پہچان لو، یہیں میں گیٹ کے سامنے بیٹھتا ہوں،!!!!!!
میں نے بھی سکون کا سانس لیا، اور دوسرے دن صبح صبح پروٹیکٹر آفس پہنچا اور میں جاکر سیدھا لائن میں لگ گیا، میں نہیں چاھتا تھا کہ اس آدمی سے ملوں اور پھر کوئی دوسرا غلط طریقہ اختیار کروں، اب تو کوئی مسئلہ بھی نہیں تھا اور پاسپورٹ پر پیشہ “میل نرس“ کا تبدیل ہوچکا تھا، مجھے اس وقت مکمل امید تھی کہ اب کوئی اعتراض نہیں اٹھے گا، جب میرا نمبر آیا تو انھوں نے میرا نرسنگ کا سرٹیفکیٹ مانگا جو کہ “پاکستان میڈیکل کونسل آف نرسنگ“ سے تصدیق شدہ بھی ہو، اور اس کے علاوہ انہوں نے ایک اور مسئلہ کھڑا کردیا کہ بھئی آج کل تو میڈیکل اسٹاف کو باھر جانے کیلئے وزارتِ صحت“ یعنی “منسٹری آف ھیلتھ“ سے اجازت نامہ یعنی “نو آبجیکشن سرٹیفیکیٹ“ لینا ضروری ہے،
میں نے ان کو پھر نئے سرے سے پھر اپنے اکاونٹنٹ کی سروس کا لیٹر دکھاتے ہوئے ساری روداد سنائی، مگر انہوں نے اپنی مجبوری ظاھر کرتے ہوئے انکار کردیا، !!!!!
جیسے ہی میں وہاں سے مایوس ہوکر باھر نکلا تو وہی آدمی پھر مل گیا، اور کہا،!!!! ہاں بھائی سناؤ تمھارا کام بنا یا نہیں،!!!!!
میں نے جواب دیا کہ!!!! نہیں انہوں نے انکار کردیا، کیونکہ انہیں وزارتِ صحت سے اجازت نامہ چاہئے، اب یہ میں کہاں سے لاؤں،!!!!!!
اس نے فوراً کہا،!!!
دیکھو اس چکر میں نہ پڑو، اگر تم چاہتے ہو کہ تمھارا کام ہوجائے، تو مجھے کہو میں تمھارا آج ہی اور اسی وقت تمھارا کام کرادیتا ہوں،!!!!!!
میں نے کہا کہ،!!!!
کیسے ہوگا یہ کام بھائی صاحب،!!!!
اس نے جواب دیا کہ،!!!
بس صرف پانچ ہزار روپے ہدیہ دینا ہوگا اور باقی گورنمنٹ کی فیس اور انشورینس وغیرہ الگ سے ادا کرنے ہونگے،!!!!!
میں نے کہا کہ،!!!!
اس کے علاؤہ کوئی چارہ نہیں ہے، !!!!!
اس نے تنزیہ انداز میں کہا کہ،!!!
ہاں دوسری تجویز بھی ہے، یہاں سے تمھیں اسلام آباد جانا ہوگا، وہاں پر وزارت صحت کے دفتر پہنچو، اور اپنی درخوست دو تو شاید وہ کچھ تمھاری فریاد پر غور کریں اور تمھیں باھر جانے کا اجازت نامہ دے دیں، مگر یہ اتنا آسان نہین ہے بھائی، مجھے 5000 روپے دو اور فوراً اپنا کام ابھی اور اسی وقت کرالو،!!!!
میرا دل نہیں مانا میں تو یہ سمجھا کہ شاید یہ مجھ سے بس روہے اینٹھنا چاھتا ہے، میں نے اس سے کل کے آنے کا بہانہ کرکے اس سے جان چھڑائی اور وہ شخص مجھے آخری وقت تک قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا، لیکن میں اسکی ہاں میں ہاں ملاتا ہوا بس اسٹاپ تک پہنچا، وہ بھی میرے پیچھے پیچھے چلا آرہا تھا، شاید آج اس کے پاس کوئی مرغا نہیں پھنسا تھا اور آخرکار مجھے اسکو چائے پلا کر ہی فارغ کرنا پڑا، مجھے تو وہ کوئی فراڈ ہی لگ رہا تھا،!!!!!!
تھک ھار کر میں گھر پر آگیا اور مجھے بہت ہی دکھ ہو رہا تھا، اسی چکر میں اچھی خاصی نوکری چھوڑ بیٹھا تھا، اور ادھار پر ادھار لئے جارھا تھا، ویزا تو لگ چکا تھا، پاسپورٹ پر بھی پیشہ تبدیل ہوچکا تھا، اور اسی دوران ویزے کو لگے ہوئے بھی ایک مہینہ گزر چکا تھا، ویزے کی معیاد شاید تین مہینے کی تھی، نومبر1989 کا آخری ھفتہ چل رھا تھا، نوکری چھوڑے ہوئے بھی دو مہینے ہو چکے تھے، ایک ہمارے جاننے والوں کے پاس پارٹ ٹائم ایک جاب کرنے لگا، جہاں سے وہ مجھے گزارے کیلئے ھر ھفتے کچھ نہ کچھ گزارے کیلئے میرے ھاتھ میں رقم رکھ دیتے تھے، میں ان کا احسان زندگی بھر نہیں بھول سکتا کہ انہوں نے میری اس مشکل کے دنوں میں مدد کی،!!!!
بہرحال میں کچھ مایوس ہو چکا تھا، ھر کوئی مجھے ایک نیا مشورہ دے رھا تھا، والد صاحب مجھ سے الگ ناراض تھے، کہ نوکری چھوڑ کر ویزے کے چکر میں دو مہینے ضائع کرچکا تھا، جبکہ انہیں تمام کہانی سنا بھی دی لیکن انہیں سمجھ نہ آئی، خیر میں دوسرے دن ھی صرف اپنی بیگم کو اور امی کو بتا کر اسلام آباد روانہ ہوگیا، تاکہ وہاں سے وزارت صحت سے میرے باھر جانے کا اجازت نامہ لے لوں، شناختی کارڈ پاسپورٹ اور تمام ضروری دستاویزات، اسکول کالج سب اصل سرٹیفکیٹ اور ڈگری لئے اسلام آباد پہنچ گیا، دسمبر 1989 کا مہینہ شروع ہوچکا تھا،!!!!!
وہاں اپنے ایک رشتہ دار کے یہاں پہنچا انہیں اپنی تمام کہانی شروع سے سنائی، اور وہ مجھے انکے دوست کے پاس لے گئے، ان کو پھر نئے سرے سے ساری کہانی سنادی، انہوں نے کہا کہ میں کوشش کرکے دیکھتا ہوں، دوسرے دن ان صاحب سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ بہت مشکل ہے اس کے لئے تو سب سے نرسنگ کا سرٹیفکیٹ بنوانا پڑے گا پھر اسے “پاکستان میڈیکل کونسل آف نرسنگ“ سے رجسٹر کروا کر باقائدہ تصدیق کرانا ہوگا، اور پھر اس تمام پروسس کے بعد آپ باھر جانے کیلئے وزارت صحت کو اجازت نامہ کیلئے درخواست دینی ھوگی، اب ان کی مرضی ہے کہ اجازت دیں یا نہ دیں،!!!!
اس تمام کاروائی کیلئے ایک صاحب نے کہا کہ وہ یہ سارے کام کروادیں گے لیکن اس پر 45000 روپے تک کا خرچہ آئے گا، میں تو سر پکڑ کر بیٹھ گیا، ہر دفعہ کوئی نئی مشکل کھڑی ہوجاتی ہے، پھر میں نے ایک کوشش اور ایک اور دوست جو میرے ساتھ پہلے 1978 سے 1983 تک سعودی عرب میں ایک کنسٹرکشن کمپنی میں ساتھ کام کرچکے تھے، ان کے پاس پہنچا، وہ مجھے ایک کسی حکومت وقت کے ایک سیاسی کارکن کے پاس لے گئے، وہ مجھے فوراً ساتھ لے کر راولپنڈی کے پروٹیکٹر آف امیگریشن کے آفس لے گئے اور وہاں وہ مجھے سیدھا ایک ڈائریکٹر کتے پاس لے گئے، انہوں نے کہا کہ فارم وغیرہ بھر دو، اور کھڑکی پر جمع کرادو، فارم پہلے ہی سے میرے پاس پہلے کا بھرا ہوا رکھا تھا اس فارم پر انہوں نے دستخط کئے، اور میں نے کاونٹر پر جمع کرادیا، اور جو میرے ساتھ آئے تھے وہ واپس چلے گئے، خیر مجھے انتظار کرنے کو کہا گیا کچھ ہی دیر میں ایک صاحب نے مجھے کاونٹر سے ہی پاسپورٹ بغیر پروٹیکٹر اسٹیمپ کے واپس کردیا، میں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے کاغذات مکمل نہ ہونے کا بہانہ کیا، دو تین دفعہ اسی طرح سفارش سے کام کرانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا، اب تو میں ھمت ہار چکا تھا،!!!!!
اسی طرح مجھے وہاں پر تقریباً 20 دن گزر چکے تھے، سخت سردیوں کے دن تھے میں نے اپنا ارادہ باھر جانے کا ترک کیا، اور راولپنڈی میں اپنی پرانی کنسٹرکشن کمپنی کے ھیڈ آفس پہنچ گیا اور وھاں اپنے تمام پرانے دوستوں سے ملاقات کی، ایک میرے پرانے باس جناب خواجہ خالد محمود صاحب کے پاس کافی دیر تک بیٹھا، اور اپنے سارے دکھ درد ان سے کہہ ڈالے، اور کہا کہ مجھے اب دوبارا یہیں پر آپ مجھے نوکری دلوادیں کیونکہ میں واپس خالی ھاتھ اسی طرح نہیں جاسکتا، کیونکہ والد صاحب بہت غصہ ہونگے، میں تو ان سے پوچھے بغیر یہاں آیا تھا،!!!!
خواجہ خالد محمود صاحب نے مجھے کافی حوصلہ دلایا، اور کہا کہ،!!!! ایک کوشش اور کرکے دیکھتے ہیں، ایک میرے ڈاکٹر دوست ایک اسپتال میں کام کرتے ھیں، گھبراؤ نہیں، اگر کہیں کچھ نہ ہوسکا تو اسی کمپنی میں تمھارے لئے ضرور کوشش کریں گے، اور انشااللہ تعالی میری دعاء یہی ہے کہ تم خالی ہاتھ واپس نہیں جاؤ گئے،!!!!!
وہ پھر مجھے اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے اور وہاں ان کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا، اور بعد میں میں نے ان سے اجازت لی، انہوں نے مجھے تاکید کی کہ شام کو یہیں میرے گھر پر آجانا تو ہم دونوں مل کر ساتھ اسپتال ایک دوست کے پاس چلیں گے اور تمھارے نرسنگ کے سرٹیفکیٹ کے بارے میں معلومات کریں گے، اسکے وزارت ھیلتھ میں بھی کافی تعلقات ہیں !!!!!!!
مجھے ایک اور امید کی کرن نظر آئی، اور کچھ دل میں ایک سکون سا محسوس ہوا، اسی دوران میں وہاں سے وقت گزارنے کیلئے ایک دوست کے پاس چلا گیا، اور شام ہوتے ھی وعدے کے مظابق خالد محمود صاحب کے گھر پہنچا، تو دیکھا کہ ان کے گھر پر تالا لگا ہوا تھا، میں نے وہاں کھڑے ہوئے چند لوگوں سے پوچھا کہ خواجہ خالدصاحب کا پتہ ہے کہاں چلے گئے، ان میں سے ایک نے جواب دیا کہ ان کا کچھ دیر پہلے ہی ہارٹ اٹیک کے سبب انتقال ہوچکا ھے ان کی میت اس وقت ان کے والد صاحب کے گھر پر ہے، جو کوہ نور ملز میں کام کرتے ہیں،اور وہیں انکے بنگلے سے ہی رات کو عشاء کے بعد ان کی تدفین نزدیکی قبرستان میں ہوگی،!!!!
یہ سنتے ہی میرے پیروں کے تلے سے زمین نکل گئی اور مجھے چکر سے آنے لگے اور میں وہیں زمین پر بیٹھ گیا، اور میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے،!!!!!!
اپنی زندگی میں ایسی ٹریجڈی میں نے کبھی نہیں دیکھی تھی، کچھ وقت پہلے ہی میں نے ان کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا تھا، وہ میری سابقہ ملازمت کے دوران میرے بہت ہی مہربان انجارج رہے تھے، جب میں اسی شہر راولپنڈی میں ہی اس کمپنی میں 1983 سے 1985 تک میرا ان کا بہت ہی اچھا ساتھ رہا تھا، اور وہ ھمیشہ سب کے ساتھ بغیر کسی عذر کے خدمت کرتے رہے، اور آج شاید میری ان سے آخری ملاقات ہونی تھی، اس لئے میں ان سے کسی کام کے سلسلے میں مدد کیلئے آیا تھا، لیکن وہ میری مدد کئے بغیر ہی چلے گئے، مگر ان کی دعاء آج تک مجھے یاد ہے کہ “ انشااللہ تعالی میری دعاء یہی ہے کہ تم خالی ہاتھ واپس نہیں جاؤ گے“،!!!!!“
میں وہاں سے سیدھا خواجہ خالد محمود صاحب کے گھر کوہ نور ملز کے رھائشی بنگلوز میں پہنچا، اور وہاں پر کافی سینکڑوں کی تعداد میں لوگ ان کا آخری دیدار کرنے آئے تھے، ان میں سے کافی میرے بھی جاننے والے تھے اور سب کی آنکھوں میں آنسو تھے اور کچھ تو دھاڑیں مار کر رو رہے تھے، انکے بھائی سے مہیں پر میری اچانک ملاقات ہوئی، ان سے میری ملاقات ان کے مرحوم بھائی کے گھر پر ہی دوپہر میں کھانے پر ملاقات ہوئی تھی، جہاں وہ بھی اس وقت موجود تھے، وہ مجھ سے لپٹ گئے اور روتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ آج آپکے ساتھ وہ دوپہر میں کھانے پر بالکل صحیح سلامت تھے ، اور اس وقت دیکھو ان کی میت رکھی ہوئی ہے،!!!! انکے والد صاحب بھی بہت رو رہے تھے،!!!!!
مجھے وہ اپنے ساتھ اندر لے گئے اور آخری دیدار کرایا، مجھے یقیں ہی نہیں آرہا تھا کہ انکا انتقال ہو گیا ہے، ان کا چہرہ بالکل ہشاش بشاش لگ رہا تھا، لگتا تھا کہ وہ ابھی اٹھیں گے اور کہیں گے چلو سید بھائی اور میرے ساتھ میرے کام کے لئے چل دیں گے، ان کے اس حادثہ کے بعد تو میں نے اپنا باھر جانے کا اردہ بدل ہی لیا تھا،!!!!!!
خواجہ صاحب کی تدفین کے بعد سب سے رخصت لیتا ہوا، میں سیدھا اپنے دوست کے پاس آیا اور دوسرے دن اسی اپنی پرانی کمپنی میں دوستوں سے ملنے کیلئے گیا، اس دن اس کمپنی میں بالکل سوگ کا عالم تھا، سب سے ملتے ہوئے میں اجازت لے رہا تو ایک انکے ہی دوست جناب حاجی نسیم صاحب نے مجھ سے کہا کہ تمھارا کام اب میں کراونگا اس وقت میرے ساتھ چلو، وہ میرے والد صاحب کے دوستوں میں سے بھی تھے، مگر میں بے دلی سے صرف انکا دل رکھنے کیلئے ان کے ساتھ چل دیا،
وہ مجھے ان کے دوست کی ایک ٹریول ایجنسی پر لے گئے، اور وہاں انہوں نے کہا کہ یہ میرے بچوں سے بھی زیادہ عزیز ہے اس کا کام ہونا چاھئے، ساری کہانی پھر سے میں نے سنائی، انہوں نے کہا کہ،!!!! کوئی مسئلہ ہی نہیں حاجی صاحب کل اسکا کام ہوجائے گا، اپ کوئی فکر ہی نہ کریں میں نے انہیں سارے دستاویزات دکھائے، انہوں نے کہا کہ مجھے کچھ نہیں چاھئے آپ بس مجھے پاسپورٹ دے دیں اور کل آکر کسی بھی وقت لے جائیں، !!!!!!
مجھے امید تو بالکل نہیں تھی لیکن مجھے مرحوم خواجہ خالد محمود صاحب کی ایک دعاء پھر یاد آرھی تھی،!!!!!
انشااللہ تعالی میری دعاء یہی ھے کہ تم خالی ھاتھ واپس نہیں جاؤ گئے،!!!!!
دوسرے دن میں اسی ٹریول ایجنسی پر پہنچا اور وھاں پر انہوں نے مجھے کچھ انتظار کرنے کو کہا اور کسی کو ٹیلیفون کیا پھر کچھ ہی دیر میں ایک صاحب داخل ھوئے انہوں نے ان صاحب کو میرا پاسپورٹ دیا، انہوں نے پاسپورٹ کو چیک کیا اور مجھے تھما دیا کہ جاؤ بیٹا خوش رھو تمھارا کام ھوگیا، بس مجھے صرف 219 روپے انہیں دینے پڑے، مجھے تو یہ حیرت انگیز ھی دکھائی دے رہا تھا، اور مجھے یہ یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ میرا کام ہوگیا ہے اور وہ بھی صرف 219 روپے میں،!!!!!!!! اور میں 31 دسمبر 1989 کو کراچی ائرپورٹ سے جدہ کیلئے ایک سعودیہ کی پرواز سے روانہ ہوگیا،!!!!!!
پرواز کے دوران میرے کانوں میں مرحوم خواجہ خالد محمود صاحب کی یہ دعاء گونجتی رہی تھی،!!!!!!!!
انشااللہ تعالیٰ میری دعاء یہی ہے کہ تم خالی ہاتھ واپس نہیں جاؤ گئے،!!!!!
لیکن افسوس اور دکھ کی بات یہ تھی، کہ میرے والد جو مجھے بہت چاہتے تھے، میری جدائی ان سے برداشت نہ ہو سکی، اور انہوں نے میرے پردیس جانے کو بہت ہی زیادہ اپنے دل ودماغ پر سوار کرلیا اور میرے جدہ پہنچنے کے 12 دن بعد ہی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، اللٌہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت الفدوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے،!!! آمین،!!!! اس سے بڑھ کر میرے لئے بہت ہی تکلیف دہ بات یہ تھی کہ میں واپس پاکستان جا نہیں سکتا تھا کیونکہ میرا پاسپورٹ میری آمد کی رجسٹریشن کیلئے وہاں کے جوازات کے آفس میں وہاں کے اقامہ اور ملازمت کے اجازت نامہ کے لئے جمع ہو چکا تھا۔
میں اس سانحہ کو کبھی بھی بھول نہیں سکتا ہوں، وہ بہے ہی سب کی نظروں میں بہت ہی اچھے اور مہربان انسان تھے، ہر ایک ان سے بہت انسیت رکھتا تھا، اور میرے تو بہت ہی شفیق باپ تھے،!!!!!
بہادر بچے کی ناقابل
فراموش کہانی
13 مئی 2013
·
بہتر ہو گا کہ بچے کی اس کہانی کو ”گینز بُک آف
ورلڈ ریکارڈ“ میں شامل کیا جائے.... یہ1979ءکی بات ہے کہ پنجاب بار کونسل کے وائس
چیئرمین کے عہدے کے لئے انتخابات ہو رہے تھے۔ یہ ماہ ستمبر تھا ،ہلکی ہلکی بارش ہو
رہی تھی، زمین پر کیچڑ تھا اور اس طرح خطرناک پھسلن موجود تھی، سارے پنجاب کے
وکلاءکے نمائندے ہر سال ایک سال کے لئے اپنا وائس چیئرمین منتخب کرتے ہیں، اِس
انتخاب میں خود مَیں بھی حصہ لے رہا تھا، چنانچہ پورے پنجاب میں انتخابی مہم چلا
رکھی تھی۔ اٹک اور راولپنڈی سے ہو کر براستہ ڈسکہ سیالکوٹ واپس لاہور آ رہا تھا۔ میرا
واحد بیٹا فرخ افراسیاب اور بیٹی فوقیہ میرے ساتھ کار میں محو سفر تھے، بیٹے کی
عمر سات آٹھ سال، جبکہ بیٹی مشکل سے پانچ سال کی ہو گی۔ یہ دونوں بچے اپنی خالہ
بیگم میجر جنرل (سابق) سعید اختر کے گھر ملنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ واپسی پر یہ
دونوں بچے میرے ساتھ چل پڑے۔ نئی ٹیوٹا کرولا کار ڈرائیور چلا رہا تھا۔ مَیں
ڈرائیور کے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا، دونوں بچے پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے
تھے۔ وزیر آباد سے تھوڑی دُور آگے پہنچے تو کچی سڑک شروع ہو گئی۔ آگے ایک پُل تھا۔
پُل سے آگے آئے تو ڈرائیور نے گاڑی کی رفتار تیز کر دی تھی۔ بدقسمتی سے تیز رفتاری
کی وجہ سے گاڑی کچے راستے سے پھسل کر بائیں جانب ایک درخت سے جا ٹکرائی۔ سوائے
انجن کے تمام گاڑی بُری طرح تباہ ہو گئی تھی۔ ڈرائیور اور مَیں دونوں شدید زخمی ہو
کر بے ہوش پڑے ہوئے تھے۔ یہ علاقہ غیر آباد تھا۔ دُور دُور تک آبادی کا کوئی نشان
نہ تھا،اِسی طرح کچی سڑک کی وجہ سے کوئی آمدورفت نہیں تھی، خوش قسمتی سے دونوں بچے
صحیح سلامت پچھلی سیٹ پر بیٹھے تھے۔ بیٹی فوقیہ نے زور زور سے رونا شروع کر دیا،
جبکہ بیٹا اُس کو تسلی دینے میں مصروف تھا۔ بیٹے فرخ افراسیاب نے بڑی بہادری اور
عقل مندی سے ڈرائیونگ سیٹ کو سنبھال لیا۔ ہم دونوں زخمیوں کو اپنی اپنی جگہوں پر
بٹھا دیا۔ میری حیرت کی انتہا نہ تھی کہ سات، آٹھ سال کا بچہ تباہ شدہ کار کو چلا
رہا تھا۔ وہ ہمیں موت کے منُہ سے بچا کر ڈسکہ تک لے آیا۔ مجھے سخت سردی لگی ہوئی
تھی، مجھے ضربات کی وجہ سے تیز بخار ہو گیا۔ پتہ چلا کہ میرے دائیں بازو کی نرم
ہڈی ٹوٹ چکی تھی، اس سے سخت درد محسوس ہو رہا تھا۔ ڈسکہ پہنچ کر کسی اور کی گاڑی
پر لاہور آ گئے۔
خدا کی قدرت دیکھئے کہ یہ وہی بچہ فرخ تھا ، جس کو مَیں گاڑی چلانے سے سخت منع کرتا تھا، مگر وہ مجھ سے چوری چوری گاڑی چلانا سیکھ چکا تھا۔ اگر وہ ڈرائیونگ نہ جانتا ہوتا تو میری اور میرے ڈرائیور کی موت یقینی تھی۔کیا یہ بہترنہیں ہو گا کہ ہم اپنے ابتدائی تعلیمی اداروں سے ”سب کو ڈرائیونگ لازمی سکھائی جائے“۔ یہ موجودہ دور کی بہت بڑی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ آپ بھی حیران ہوں گے کہ مجھے ڈرائیونگ کی بات کیسے یاد آ گئی، افسوس کہ مَیںڈرائیونگ آج تک نہیں سیکھ سکا ہوں۔ مجھے ڈرائیونگ سیکھنے کی تمنا ضرور ہے۔ آخر یہ تمنا بھی پوری ہو گی۔ 35سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی میرے بائیں بازو کی کلائی کا درد اچانک جاگ اُٹھاہے۔ مَیں نے دوائی لگوا کر کلائی پر پٹی باندھ رکھی ہے۔ یہ35سال پرانا حادثے کا واقعہ پٹی باندھنے سے دوبارہ نظروں کے سامنے آ گیا ہے۔ درد کی شدت موجود ہے۔ بائیں بازو کی چوٹ کوئی خفیہ نکل آئی ہے۔ ظاہری طور پر اِس طرح کا مجھے کوئی زخم نہ آیا تھا۔ ”اسلام تو ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ جس نے ایک شخص کی جان بجائی گویا اس نے سارے جہان کو بچا لیا“۔
یہ وہی بچہ ہے، جو آج شادی شدہ ہوکر تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کا باپ بنا ہوا ہے، اُس کے بچے زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں۔ بیٹا ابراہیم افراسیاب ”سوہلی ہل“ برطانیہ کے سکول میں پڑھ رہا ہے، کیا حکومت برطانیہ اپنے ہی ایک بہادر شہری”افراسیاب“ کو بہادری کے عوض جس کا مختصر سا ذکر اوپر ہوا ہے، بہادری کا سب سے بڑا اعزاز دینے پر غور کرے گی؟ سچ سچ ہوتا ہے چاہے اس کا سو سال بعد ہی علم کیوں نہ ہو؟ مَیں سپریم کورٹ آف پاکستان کا سابق جج ہوں۔ توقع ہے کہ میری بات اور درخواست پر ضرور غور ہو گا۔ لازمی ہو گا کہ ہمارا اپنا سفارت خانہ پہلے حرکت میں آئے، وہ حادثے سے متعلق پوری تحقیق کرے، پھر رپورٹ تیار کر کے برائے احکام حکومت وقت کے سامنے رکھے۔
خوشی ہے کہ آج کل ”پیپل فرینڈلی“ حکومت موجودہے، جس کے سربراہ مسٹر جسٹس میر ہزار خان کھوسو ہیں۔ توقع ہے کہ اس حادثے پر ضرور کوئی کارروائی کریں گے۔ اس وقت کے ایک بچے ”فرخ افراسیاب ولد جسٹس راجہ افراسیاب“ 478/4-III محمد علی جوہر ٹاون کی بہادری پر مبنی کارنامے کا نوٹس لیں گے اور اس کو اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازیں گے۔ مَیں بچوں کی دُنیا کے ایک تاریخی واقعہ کو منظر عام پر لایا ہوں۔ آگے اُس پر عمل کرنا یا نہ کرنا حکومت وقت کا کام ہو گا۔ یہ ایک خوشی کی بات ہے ”فرخ افراسیاب“ جیسے ذہین اور بہادر بچے سرزمین پاکستان میں پیدا ہوئے۔ یہ بات بھی یاد رکھی جائے کہ زیادہ تر حادثات ناقص اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ تمام گاﺅں اور شہروں میں کشادہ اور پختہ سڑکوں کا جال بچھا دیا جائے۔ ایسا کرنے سے حادثات میں کمی ہو گی، عام لوگوں میں ”روڈلاز“ کا شعور اجاگر کیا جائے۔ وسیع پیمانے پر اس کام کو پاکستان کی تمام درس گاہوں سے شروع کیا جائے۔پاکستان ٹیلی ویژن کو اس کام کو پاکستان کی کامیابی کا ایک ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔ یہ کام کل نہیں آج سے ہی شروع کیا جائے۔
یہ بات اپنی جگہ سچائی پر مبنی ہے کہ دُنیا میں بچے بڑے بڑے کام نڈر ہو کر کامیابی سے سرانجام دیتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جب افواج میں جوانوں کی کمی محسوس ہوئی، تو اس وقت ہٹلر نے خود بچوں پر مشتمل ایک بڑی فوج تشکیل دی تھی، جس کے کارنامے تاریخ عالم کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ بہرحال یہ تو ایک انتہائی سوچ ہوا کرتی ہے۔ 1947ءکی جنگ آزادی میں کم عمر نوجوانوں نے بھی حصہ لیا تھا۔ بذات خود مَیں 11،12سال کی عمر میں ہوتے ہوئے میرپور محاذ پر اپنے بڑے بھائی کے ساتھ آزادی کی تحریک میں حصہ لینے چلا گیا تھا۔ یہ الگ بات تھی کہ صرف سپاہی بن کر ملک کی خدمات سرانجام دینا اور کہاں پاکستان کی سب سے بڑی عدالت ”سپریم کورٹ“ کا جج بن کر انصاف کا کام کرنا؟
ویسے تو میرے نزدیک یہ دونوں کام کسی بھی شہروی کے لئے ”افضل ترین“ ہیں۔ سپاہی تو رات کے اندھیروں میں بھی سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے۔ خوفناک جنگوں میں حصہ لے کر اپنے ملک کی حفاظت کرتا ہے۔1947ءمیں میری تعلیم ختم ہو چکی تھی، پاکستان میں داخل ہوتے ہی قسمت نے پلٹا کھایا اور مَیں تعلیم حاصل کرنے کے لئے تیار ہو گیا تھا۔ یہ قدرت کا میرے لئے ایک بڑا معجزہ تھا کہ چھوڑی ہوئی تعلیم کو دوبارہ کس طرح حاصل کرنا شروع کیا تھا۔ مختصر یہ کہ سکول جاتے بچوں کو دیکھ کر خود مجھے بھی سکول جانے کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔ کتنے دُکھ اور افسوس کا مقام ہے آج بھی پاکستان کے دو تین کروڑ فرخ افراسیاب جیسے ذہین بچے تعلیم سے محروم چلے آ رہے ہیں۔ یہ بچے آوارہ گردی کرتے ہیں، چوری چکاری کے چھوٹے بڑے کام بھی کرتے ہیں، ان بچوں سے گدا گری کا بھی عام کام لیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اَن گنت ”قافیہ“ اس مکروہ کام میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ وقت تھا کہ قوم اِن تمام بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرتی، کیا یہ سب ہمارے اپنے بچے نہیں ہیں؟ قانون تو موجود ہے، مگر اس قانون پر عمل ہر گز نہیں ہو رہا ہے۔
محترم مسٹر جسٹس میر ہزار خان کھوسو وزیراعظم پاکستان اس طرف توجہ دیں اور قانون کی طاقت پر سکول سے باہر تمام بچوں کو سکولوں میں داخل کروا دیں۔ یہ اُن کا زندگی بھر کا سب سے بڑا کام ہو گا۔ قوم اُن کو ہمیشہ ہمیشہ کے اپنے محسن کے طور پر یاد رکھے گی۔ برصغیر کے تمام مسلمان آج بھی سر سید احمد خان کو انتہائی عزت و احترام سے یاد کرتے ہیں۔ تعلیم ہی تو اُن کی زندگی بھر کا مشن تھا۔ آپ اس چھوڑے ہوئے مشن کو پایہ¿ تکمیل تک پہنچائیں۔ قوانین بنائیں اور ان پر عمل کریں، آنے والی تمام حکومتیں اُن قوانین پر عمل کریں گی، قومی بجٹ کا کم از کم 7فیصد صرف تعلیم کی مد پر خرچ کریں۔ اس قومی کام کا آغاز سرزمین بلوچستان سے شروع کریں۔ آئندہ پانچ سال میں100فیصد تعلیم کا ہدف حاصل کریں۔ ہمارے بیدار ہونے کا وقت آ گیا ہے ہمیں ”ملالہ یوسف زئی“ کے عظیم مشن پر چلنے کی ضرورت ہے، جو لوگ ملالہ کی مخالفت کرتے ہیں، وہ لوگ واقعی اندھیروں میں پھنسے ہوئے ہیں ان کو اِن اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آنا ہی وقت کی اہم ضرورت ہے
خدا کی قدرت دیکھئے کہ یہ وہی بچہ فرخ تھا ، جس کو مَیں گاڑی چلانے سے سخت منع کرتا تھا، مگر وہ مجھ سے چوری چوری گاڑی چلانا سیکھ چکا تھا۔ اگر وہ ڈرائیونگ نہ جانتا ہوتا تو میری اور میرے ڈرائیور کی موت یقینی تھی۔کیا یہ بہترنہیں ہو گا کہ ہم اپنے ابتدائی تعلیمی اداروں سے ”سب کو ڈرائیونگ لازمی سکھائی جائے“۔ یہ موجودہ دور کی بہت بڑی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ آپ بھی حیران ہوں گے کہ مجھے ڈرائیونگ کی بات کیسے یاد آ گئی، افسوس کہ مَیںڈرائیونگ آج تک نہیں سیکھ سکا ہوں۔ مجھے ڈرائیونگ سیکھنے کی تمنا ضرور ہے۔ آخر یہ تمنا بھی پوری ہو گی۔ 35سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی میرے بائیں بازو کی کلائی کا درد اچانک جاگ اُٹھاہے۔ مَیں نے دوائی لگوا کر کلائی پر پٹی باندھ رکھی ہے۔ یہ35سال پرانا حادثے کا واقعہ پٹی باندھنے سے دوبارہ نظروں کے سامنے آ گیا ہے۔ درد کی شدت موجود ہے۔ بائیں بازو کی چوٹ کوئی خفیہ نکل آئی ہے۔ ظاہری طور پر اِس طرح کا مجھے کوئی زخم نہ آیا تھا۔ ”اسلام تو ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ جس نے ایک شخص کی جان بجائی گویا اس نے سارے جہان کو بچا لیا“۔
یہ وہی بچہ ہے، جو آج شادی شدہ ہوکر تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کا باپ بنا ہوا ہے، اُس کے بچے زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں۔ بیٹا ابراہیم افراسیاب ”سوہلی ہل“ برطانیہ کے سکول میں پڑھ رہا ہے، کیا حکومت برطانیہ اپنے ہی ایک بہادر شہری”افراسیاب“ کو بہادری کے عوض جس کا مختصر سا ذکر اوپر ہوا ہے، بہادری کا سب سے بڑا اعزاز دینے پر غور کرے گی؟ سچ سچ ہوتا ہے چاہے اس کا سو سال بعد ہی علم کیوں نہ ہو؟ مَیں سپریم کورٹ آف پاکستان کا سابق جج ہوں۔ توقع ہے کہ میری بات اور درخواست پر ضرور غور ہو گا۔ لازمی ہو گا کہ ہمارا اپنا سفارت خانہ پہلے حرکت میں آئے، وہ حادثے سے متعلق پوری تحقیق کرے، پھر رپورٹ تیار کر کے برائے احکام حکومت وقت کے سامنے رکھے۔
خوشی ہے کہ آج کل ”پیپل فرینڈلی“ حکومت موجودہے، جس کے سربراہ مسٹر جسٹس میر ہزار خان کھوسو ہیں۔ توقع ہے کہ اس حادثے پر ضرور کوئی کارروائی کریں گے۔ اس وقت کے ایک بچے ”فرخ افراسیاب ولد جسٹس راجہ افراسیاب“ 478/4-III محمد علی جوہر ٹاون کی بہادری پر مبنی کارنامے کا نوٹس لیں گے اور اس کو اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازیں گے۔ مَیں بچوں کی دُنیا کے ایک تاریخی واقعہ کو منظر عام پر لایا ہوں۔ آگے اُس پر عمل کرنا یا نہ کرنا حکومت وقت کا کام ہو گا۔ یہ ایک خوشی کی بات ہے ”فرخ افراسیاب“ جیسے ذہین اور بہادر بچے سرزمین پاکستان میں پیدا ہوئے۔ یہ بات بھی یاد رکھی جائے کہ زیادہ تر حادثات ناقص اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ تمام گاﺅں اور شہروں میں کشادہ اور پختہ سڑکوں کا جال بچھا دیا جائے۔ ایسا کرنے سے حادثات میں کمی ہو گی، عام لوگوں میں ”روڈلاز“ کا شعور اجاگر کیا جائے۔ وسیع پیمانے پر اس کام کو پاکستان کی تمام درس گاہوں سے شروع کیا جائے۔پاکستان ٹیلی ویژن کو اس کام کو پاکستان کی کامیابی کا ایک ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔ یہ کام کل نہیں آج سے ہی شروع کیا جائے۔
یہ بات اپنی جگہ سچائی پر مبنی ہے کہ دُنیا میں بچے بڑے بڑے کام نڈر ہو کر کامیابی سے سرانجام دیتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جب افواج میں جوانوں کی کمی محسوس ہوئی، تو اس وقت ہٹلر نے خود بچوں پر مشتمل ایک بڑی فوج تشکیل دی تھی، جس کے کارنامے تاریخ عالم کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ بہرحال یہ تو ایک انتہائی سوچ ہوا کرتی ہے۔ 1947ءکی جنگ آزادی میں کم عمر نوجوانوں نے بھی حصہ لیا تھا۔ بذات خود مَیں 11،12سال کی عمر میں ہوتے ہوئے میرپور محاذ پر اپنے بڑے بھائی کے ساتھ آزادی کی تحریک میں حصہ لینے چلا گیا تھا۔ یہ الگ بات تھی کہ صرف سپاہی بن کر ملک کی خدمات سرانجام دینا اور کہاں پاکستان کی سب سے بڑی عدالت ”سپریم کورٹ“ کا جج بن کر انصاف کا کام کرنا؟
ویسے تو میرے نزدیک یہ دونوں کام کسی بھی شہروی کے لئے ”افضل ترین“ ہیں۔ سپاہی تو رات کے اندھیروں میں بھی سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے۔ خوفناک جنگوں میں حصہ لے کر اپنے ملک کی حفاظت کرتا ہے۔1947ءمیں میری تعلیم ختم ہو چکی تھی، پاکستان میں داخل ہوتے ہی قسمت نے پلٹا کھایا اور مَیں تعلیم حاصل کرنے کے لئے تیار ہو گیا تھا۔ یہ قدرت کا میرے لئے ایک بڑا معجزہ تھا کہ چھوڑی ہوئی تعلیم کو دوبارہ کس طرح حاصل کرنا شروع کیا تھا۔ مختصر یہ کہ سکول جاتے بچوں کو دیکھ کر خود مجھے بھی سکول جانے کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔ کتنے دُکھ اور افسوس کا مقام ہے آج بھی پاکستان کے دو تین کروڑ فرخ افراسیاب جیسے ذہین بچے تعلیم سے محروم چلے آ رہے ہیں۔ یہ بچے آوارہ گردی کرتے ہیں، چوری چکاری کے چھوٹے بڑے کام بھی کرتے ہیں، ان بچوں سے گدا گری کا بھی عام کام لیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اَن گنت ”قافیہ“ اس مکروہ کام میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ وقت تھا کہ قوم اِن تمام بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرتی، کیا یہ سب ہمارے اپنے بچے نہیں ہیں؟ قانون تو موجود ہے، مگر اس قانون پر عمل ہر گز نہیں ہو رہا ہے۔
محترم مسٹر جسٹس میر ہزار خان کھوسو وزیراعظم پاکستان اس طرف توجہ دیں اور قانون کی طاقت پر سکول سے باہر تمام بچوں کو سکولوں میں داخل کروا دیں۔ یہ اُن کا زندگی بھر کا سب سے بڑا کام ہو گا۔ قوم اُن کو ہمیشہ ہمیشہ کے اپنے محسن کے طور پر یاد رکھے گی۔ برصغیر کے تمام مسلمان آج بھی سر سید احمد خان کو انتہائی عزت و احترام سے یاد کرتے ہیں۔ تعلیم ہی تو اُن کی زندگی بھر کا مشن تھا۔ آپ اس چھوڑے ہوئے مشن کو پایہ¿ تکمیل تک پہنچائیں۔ قوانین بنائیں اور ان پر عمل کریں، آنے والی تمام حکومتیں اُن قوانین پر عمل کریں گی، قومی بجٹ کا کم از کم 7فیصد صرف تعلیم کی مد پر خرچ کریں۔ اس قومی کام کا آغاز سرزمین بلوچستان سے شروع کریں۔ آئندہ پانچ سال میں100فیصد تعلیم کا ہدف حاصل کریں۔ ہمارے بیدار ہونے کا وقت آ گیا ہے ہمیں ”ملالہ یوسف زئی“ کے عظیم مشن پر چلنے کی ضرورت ہے، جو لوگ ملالہ کی مخالفت کرتے ہیں، وہ لوگ واقعی اندھیروں میں پھنسے ہوئے ہیں ان کو اِن اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آنا ہی وقت کی اہم ضرورت ہے
مولانا عبد الحمید رحمانی کی خدمات ناقابل فراموش ہیں
تحریر : سہیل انجم
-----------------------
تحریر : سہیل انجم
-----------------------
یہ واقعہ 1975اور
80کے درمیان کا ہے۔ سنہ ٹھیک سے یاد نہیں۔ اتر پردیش کے بانسی ضلع بستی (موجودہ
سدھارتھ نگر) میں ایک دو روزہ دینی و دعوتی اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں ملک بھر سے
آئے ہوئے جماعت اہلحدیث کے سرکردہ علما اور خطبا نے شرکت کی تھی۔ پہلی شب میں حضرت
مولانا عبد الحمید رحمانی کی تقریر تھی۔ اس وقت تک میں نے ان کو دیکھا نہیں تھا
البتہ ان کی علمی شہرت ملک کی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے بیرونی ممالک تک پہنچ گئی
تھی۔ ہمارے والد مولانا حامد الانصاری انجم جمال اثری اس اجلاس کی نظامت کر رہے
تھے۔ ان کی نظامت کا انداز غضب کا تھا۔ جس کا تعارف کراتے چند جملوں میں ہی اس کی
پوری شخصیت کا نقشہ کھینچ دیتے اور ڈائس پر آنے سے قبل ہی مقرر یا خطیب کی دھاک
سامعین اور حاضرین کے دلوں پر بیٹھ جاتی۔ انھوں نے مولانا عبد الحمید رحمانی کا
تعارف کراتے ہوئے ان کے شایان شان انتہائی مہتم بالشان جملوں کی ادائیگی کے ساتھ
کہا ’’حضرت مولانا عبد الحمید رحمانی محض ایک نام نہیں بلکہ ایک طوفان ہے، ایک
آندھی ہے، ایک زلزلہ ہے۔ وہ شرک و کفر کے چراغوں کے لیے ایک طوفان بلاخیز ہے۔
گمراہیوں کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں کے لیے توحید و سنت کا شمع بردار ہے۔ اس طوفان کے
آگے کوئی ٹک نہیں سکتا جو بھی آتا ہے خس و خاشاک کی مانند بہہ جاتا ہے…‘‘ ایسے
جانے کتنے جملے تھے جو مولانا کی شان میں ادا کیے گئے او رجب مولانا نے خطاب کیا
تو جو کچھ کہا گیا تھا اسے بالکل سچ کر دکھایا… 20اگست 2013کی شام کو جب بٹلا ہاؤس
کے قبرستان میں ان کی تدفین ہو رہی تھی اور ان کے مداح ومعتقد چاروں جانب سے تدفین
میں شرکت کرنے کے لیے ٹوٹے پڑ رہے تھے تو مذکورہ جلسے کا منظر یاد آگیا اور اس وقت
سے لے کر اب تک کے جانے کتنے مناظر فلم کی مانند نگاہوں میں گھوم گئے۔
مولانا عبد الحمید رحمانی کی زندگی نشیب و فراز سے پُر رہی ہے۔ لیکن سچ بات یہ ہے کہ وہ جب نشیب میں رہے تب بھی فراز سے ہمکنار رہے اور پوری زندگی کامیابیوں و کامرانیوں سے سرفراز بھی رہے۔ شکست و ریخت کے حالات بھی پیدا ہوئے لیکن وہ ان کے بلند عزائم کی کمر نہیں توڑ سکے اور وہ اپنی منزل کی جانب جو کہ ایک مبارک ومقدس مشن سے عبارت تھی، پوری دلجمعی کے ساتھ گامزن رہے۔ جب مولانا عبد الحمید رحمانی نے 1980میں نئی دہلی کے مسلم اکثریتی علاقے جوگا بائی میں دینی تعلیم کے ایک ادارے کی داغ بیل ڈالی اور ابوالکلام آزاد اسلامک اویکننگ سینٹر قائم کیا تو وہ ان کی زندگی کا سب سے اہم اور خوبصورت اور چیلنجوں سے بھی بھرا ہوا موڑ تھا۔
اس ادارے کے قیام سے قبل وہ جامعہ سلفیہ بنارس میں تدریسی اور مرکزی جمعیت اہلحدیث کی نظامت کی خدمات انجام دے کر نہ صرف پورے ہندوستان میں بلکہ بیرون ہند بھی اپنا ایک مقام بنا چکے تھے۔ جب انھوں نے ادارہ قائم کیا تو ان کی شہرت دن دونی رات چوگنی بڑھتی چلی گئی اور بالخصوص خلیجی ممالک میں اہل علم و اہل مملکت اور اہل خیر و اہل ثروت سے ان کے رشتے و روابط وسیع ہوتے چلے گئے جس کا فائدہ یہ ہوا کہ یہ ادارہ بھی ترقی کے زینے تیزی سے طے کرنے لگا۔ معہد التعلیم الاسلامی کے بعد کئی ادارے قائم ہوئے اور ان کی شاخیں ملک کے مختلف شہروں، قصبوں اور گاؤں میں قائم ہونے لگیں۔ اہل علم حلقے میں اس ادارے کی شہرت بڑھتی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ادارہ اپنی ایک الگ شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس ادارے کی انفرادی تعلیمی خصوصیات اور مولانا رحمانی کی علمی عبقریت و انتظامی صلاحیت بہت سے طالبان علم کے ساتھ ساتھ اہل علم کے حلقے کے لیے بھی زبردست کشش کا باعث بن گئی۔ پورے ملک سے باصلاحیت علما، خطبا اور اساتذہ کشاں کشاں اس ادارے کی خدمت کرنے کے لیے جوگا بائی پہنچنے لگے۔ ایسے با صلاحیت لوگوں کی تعداد کافی ہے جو اس ادارے سے وابستہ ہوئے اور کچھ دنوں تک اپنی خدمات پیش کر کے اسے خیر باد کہہ گئے۔ یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ اہل اور با صلاحیت اساتذہ کے اس ادارے سے انخلا کی ایک بڑی وجہ خود مولانا کی سیماب صفت طبیعت رہی ہے۔ وہ ایک منفرد مزاج کے حامل رہے ہیں اور اپنے مزاج اور اپنی طبیعت کے خلاف کوئی بھی کام پسند نہیں کرتے تھے خواہ وہ کام بڑا ہو یا چھوٹا۔ در اصل ان کے مزاج میں سیماب صفتی ان کے اعلی ذوق کی وجہ سے تھی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ منفرد شخصیات کی طبیعتیں بھی دوسروں سے مختلف ہوتی ہیں۔ وہ ہر معاملے میں معیار قائم کرنا چاہتی ہیں اور اگر کوئی ان کے معیار پر کھرا نہیں اترتا تو وہ اس کو برداشت نہیں کرتیں۔ یہی معاملہ مولانا رحمانی کے ساتھ بھی رہا۔ وہ کسی بھی معاملے میں معیار، وقار اور سلیقہ سے سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ خواہ وہ تعلیم کا شعبہ ہو یا تعمیر کا یا کوئی اور۔ ہر جگہ ان کی انفرادیت بہ زبان خود بولتی رہی ہے اور آج بھی بول رہی ہے۔
عموماً ہوتا یہ تھا کہ وہ جب کسی بھی معاملے پر اپنے رفقائے کار سے اختلاف کرتے تو بالکل انتہا پر پہنچ جاتے۔ اس سے نیچے کوئی ایسا مقام نہیں تھا جہاں ان کی طبیعت ٹھہر سکے۔ اسے ان کے کردار کا عیب نہیں بلکہ خوبی تصور کرنا چاہیے۔ اس خوبی کی وجہ سے ہی وہ ہر معاملے میں انفرادی چھاپ چھوڑنے میں کامیاب رہے ہیں۔ وہ دوستانہ تعلقات کو نبھانے میں بھی انتہا پسند رہے ہیں اور اختلاف کرنے میں بھی۔ ان کے مزاج کی اس انتہاپسندی سے جب باصلاحیت افراد کی اناؤں کا ٹکراؤ ہوتا تو وہ اسے اپنی ہتک سمجھتے اور ادارے سے اپنی خدمات واپس لے لیتے۔ بیشتر معاملات میں ایسے ہی حالات رہے ہیں۔ ہاں کچھ ایسے واقعات بھی پیش آئے کہ بہتر مواقع سے استفادہ کرنے کی کوشش میں لوگ ان سے الگ ہو گئے۔ اگر ان اہل اور باصلاحیت افراد اور اساتذہ کی خدمات اس ادارے کو تادیر حاصل ہوئی ہوتیں تو بلا شبہ یہ ادارہ تدریسی و تعلیمی میدان میں پورے ہندوستان میں سرفہرست ہوتا۔
مولانا عبد الحمید رحمانی ایک علمی شخصیت کے مالک تھے اور اردو و فارسی کے ساتھ ساتھ عربی زبان پر بھی ایسی قدرت اور عبور رکھتے تھے جیسی کہ کوئی اہل زبان رکھتا ہے۔ اردو میں ان کا خطاب جتنا موثر، مدلل اور ٹھوس ہوا کرتا تھا، جاننے والے جانتے ہیں کہ عربی زبان میں بھی ان کی تقریر ویسی ہی ہوا کرتی تھی۔ یہاں تک کہ بعض روایتوں کے مطابق کسی زمانے میں ان کی عربی تقریروں کے کیسٹ خلیجی ملکوں میں ہاٹ کیک کی مانند فروخت ہوتے تھے۔ انھیں خطابت کا ملکہ حاصل تھا اور وہ جب بولتے تھے تو علم کا دریا رواں ہو جاتا۔ کوئی بھی علمی موضوع ہو وہ مدلل گفتگو کرتے۔ سنت کے اس قدر شیدائی کہ معمولی سا بھی خلاف سنت کام برداشت نہیں کرتے اور کوئی بھی ہو اسے بلا جھجھک ٹوک دیا کرتے تھے۔ انھیں اس کی پروا نہیں ہوتی کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ یہاں تک کہ مملکت سعودی عرب کے بعض وزرا کو بھی سخت سست کہنے سے باز نہیں آتے۔ (ایک زمانے میں ان کے کئی دوست اور ہم جماعت حکومت میں وزیر ہوا کرتے تھے)۔
پہلے معہد التعلیم الاسلامی کی مسجد بہت چھوٹی تھی او راس میں صرف ادارے کے اساتذہ اور طلبہ ہی نماز ادا کرتے تھے۔ بعد میں موجودہ مسجد کی تعمیر ہوئی۔ یہ جگہ پہلے ادارے کے بچوں کے لیے کھیل کا میدان ہوا کرتی تھی۔ اس مسجد کی تعمیر کے بعد جب مولانا نے باضابطہ جمعہ کا خطبہ دینا شروع کیا تو باہر کے لوگ بھی نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے آنے لگے او راب یہ سلسلہ کافی آگے بڑھ گیا ہے اور دوسرے مکاتب فکر کے لوگ بھی بڑی تعداد میں آنے لگے ہیں۔ اس کا سہرا مولانا رحمانی کے سر جاتا ہے جنھوں نے قرآن و سنت کے اصولوں پر سختی سے قائم رہتے ہوئے وسیع النظری کا مظاہرہ کیا اور مسلک سلف کی تبلیغ و ترویج کی۔ اورجس مشن کو اب ان کے صاحبزادے اور ابوالکلام آزاد اسلامک اویکننگ سینٹر کے موجودہ صدر مولانا محمد رحمانی آگے بڑھا رہے ہیں۔ وہ تقریر کے ساتھ ساتھ تحریر کے بھی دھنی تھے۔ اس میدان میں بھی انھوں نے اپنی علمیت کے جھنڈے گاڑے۔ پہلے رسالہ ’’التوعیہ‘‘ اور اب رسالہ ’’التبیان‘‘ کے صفحات اس کے گواہ ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر علمی پرچے بھی اس کی شہادت دیں گے کہ انھوں نے کس طرح قلم کو نشتر اور تیشہ بنایا اور معاشرے کے جسم پر ابھر آنے والے شرک و بدعات کے پھوڑے پھنسیوں پر نشتر زنی کی۔ تحریر کے میدان میں بھی وہ کسی سے دبتے نہیں تھے اور جو بات حق اور جائز سمجھتے تھے اس کو لومت لائم کے بغیر کہہ دیا کرتے تھے۔ سلطان جائر کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے میں وہ اپنی مثال آپ تھے۔ یوں تو وہ اسلامی علوم کے ماہر تھے لیکن وہ تاریخ تحریک اہلحدیث کے بھی زبردست عالم تھے۔ دنیا بھر میں تاریخ احباب اہلحدیث کی جو معلومات ان کے پاس تھیں شائد ہی کسی او رکے پاس ہوں۔ لیکن وائے افسوس کہ انھوں نے اس تاریخ کو تحریری شکل میں مرتب نہیں کیا۔ اگر انھوں نے یہ کام کیا ہوتا تو بلا شبہ ایک عظیم کام ہوتا۔
مولانا رحمانی ابتدائی دنوں میں سیاست میں بھی رہے اور بقول شیخ صلاح الدین مقبول احمد وہ جہاں بھی رہے صف اول میں رہے۔ سیاست میں بھی اعلی کمان کے دائیں اور بائیں بازو بن کر رہے۔ وہ پچھلی صف میں بیٹھنے کے قائل نہیں تھے۔ سیاست میں وہ ہیم وتی نند بہوگنا، رام کرشن ہیگڑے اور سریندر موہن جیسے سیکولر سیاست دانوں کے ساتھ رہے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے سینئر سیاست دانوں سے ان کے قریبی مراسم رہے ہیں۔ وہ لوگ ان کی بے حد قدر کیا کرتے تھے۔ لیکن ان کے مزاج میں تملق اور خوشامد کا شائبہ تک نہیں تھا یا ان کے مزاج میں وہ اوصاف نہیں تھے جو کامیاب سیاست داں کے لیے ضروری ہیں اس لیے شائد انھیں احساس ہو گیا تھا کہ وہ سیاست کی مٹی سے نہیں بنے ہیں یا یہ میدان ان کے لیے نہیں بنا ہے۔ کیونکہ وہاں جس ’’بے کرداری‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے وہ شائد اس پر کھرے نہیں اتر پاتے۔ مجلہ ’’اہلحدیث‘‘ کے مدیر حکیم اجمل خان کے بقول مولانا رحمانی سیاست سے بد دل ہونے کے بعد ادارہ سازی کی جانب مڑے تھے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انھوں نے ہی ان سے کہا تھا کہ مولانا یہ بات آپ جیسی علمی شخصیت کے شایان شان نہیں کہ آپ سیاست دانوں کے دروازوں پر حاضری دیں اور ان کے در پر جبہ سائی کریں۔ اس کے بعد انھوں نے تعلیمی ادارہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اگر ایسا ہے تو اچھا ہی ہوا کہ انھوں نے سیاست کی دیوی کو اپنے نہاں خانہ دل سے نکال باہر کیا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو اتنی زبردست علمی خدمت کیسے انجام دے پاتے۔ اس بات کا اعتراف ان کے مخالفین کو بھی ہے کہ انھوں نے تن تنہا جو کام کیا ہے وہ ادارے بھی نہیں کر پاتے۔
مولانا عبد الحمید رحمانی اردو صحافت میں مولانا محمد عثمان فارقلیط کے معترف اور ان کی صحافتی خدمات اور ان کی ملی فکر کے قائل تھے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ کسی زمانے میں وہ ان سے اس قدر متاثر تھے کہ اپنے نام کے ساتھ ’’فارقلیط‘‘ لگایا کرتے تھے۔ ان کے ایک سابق دیرینہ رفیق مولانا عزیز عمر سلفی مدیر نوائے اسلام اس کے راوی ہیں۔ وہ یہاں تک بتاتے ہیں کہ ان کی ذاتی لائبریری میں ایسی متعدد کتابیں ہیں جن پر انھوں نے اپنا نام ’’عبد الحمید فارقلیط‘‘ لکھا ہے۔ در اصل مولانا فارقلیط جس طرح ملت اسلامیہ کو آزادی کے بعد زوال اور شکست خوردگی کے گہرے غار سے نکالنے کی جد وجہد کرتے رہے اسی طرح مولانا رحمانی بھی مسلمانو ں کی نئی نسل کو دینی تعلیم کے ذریعے اس علمی و شعوری پسماندگی سے نکالنے کی زندگی بھر کوشش کرتے رہے ہیں۔
وہ صرف لڑکوں کی تعلیم کے حق میں نہیں تھے بلکہ لڑکیوں کی تعلیم کے بھی اتنے ہی حمایتی اور طرفدار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انھوں نے دیکھا کہ جامعہ نگر کے مسلم اکثریتی علاقے میں لڑکیوں کا کوئی ایسا تعلیمی ادارہ نہیں ہے جہاں اسلامی ماحول میں عصری تعلیم دی جا رہی ہو تو انھوں نے ’’خدیجۃ الکبری گرلز پبلک اسکول‘‘ قائم کیا جہاں آج بھی پاکیزہ ماحول میں لڑکیوں کو عصری تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے لڑکیوں کی اسلامی تعلیم کے لیے ’’عائشہ صدیقہ شریعت کالج‘‘ قائم کیا جہاں ملک بھر کی سینکڑوں بچیاں عالم و فاضل کی ڈگری حاصل کر رہی ہیں۔
انھو ںنے اوکھلا اور نوئڈا کے اتصال پر واقع کالندی کنج کے نزدیک جب ایک بہت بڑا قطعہ آراضی خرید لیا تو ایک مٹتی ہوئی سنت زندہ کی اور وہاں قائم ادارہ ’’جامعہ اسلامیہ سنابل‘‘ کے میدان میں عیدین کی نمازوں کا سلسلہ شروع کیا اور لوگوں پر زور دیا کہ وہ خواتین کو بھی عیدین کی نماز کی ادائیگی کے لیے لائیں۔ ان کی اس اپیل کا اتنا اچھا اثر پڑا کہ آج ہزاروں کی تعداد میں نہ صرف اس علاقے کے بلکہ اوکھلا سے باہر کے لوگ بھی عیدین کی نماز کی ادائیگی کے لیے وہاں پہنچنے لگے۔ رفتہ رفتہ وہاں مردوں اور عورتوں کی تعداد میں سال بہ سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان کی اس کوشش سے تحریک پا کر اب بعض دوسرے مکاتب کے ذمہ داروں نے بھی عیدین کی نماز میں خواتین کی شرکت کی اجازت دے دی ہے۔ بلا شبہ اس سنت کو زندہ کرنے کا ثواب مولانا رحمانی کو ہی حاصل ہوگا۔
جامعہ اسلامیہ سنابل کے میدان میں انھوں نے ’’جامع مسجد عمر بن الخطاب‘‘ کے نام سے ایک عظیم الشان مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا تھا جو اب تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔ اس میں بیک وقت 5500(پانچ ہزار پانچ سو)مرد اور 2000(دو ہزار)سے زائد عورتیں صلاۃادا کر سکتی ہیں ۔ ایسے عمر رسیدہ مرد وخواتین جو زینے نہ چڑھ سکیں ان کے لیے لوور گراؤنڈ فلور میں الگ الگ صلاۃ ادا کرنے کا انتظام کیا گیا ہے۔جو ساڑھے پانچ ہزار مردوں اور دو ہزار خواتین کے علاوہ ہوں گے۔ اسلامی طرز تعمیر کی یہ مسجد سہ منزلہ ہے جس میں لوور گراؤنڈ فلور میں کار پارکنگ، مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ ٹوائلٹ، باتھ روم اور وضو خانے ہیں۔ لوور گراؤنڈ فلور کا رقبہ 3503.29 اسکوائر میٹر ، گراؤنڈ فلور کا رقبہ 2284.19 اسکوائر میٹر اور فرسٹ فلور کا رقبہ 1638 اسکوائر میٹر ہے۔ اس مسجد کا مجموعی ایریا 7,425.48اسکوائر میٹر ہے۔گراؤنڈ فلور مرد مصلیوں کے لیے مخصوص ہے اور فرسٹ فلور خواتین کے لیے۔ ابو الکلام آزاد اسلامک اویکننگ سینٹر کے ذرائع کے مطابق سینٹر نے پورے ملک میں جو مسجدیں تعمیر کرائی ہیں تقریباً ان سبھی میں عورتوں کے لیے پردے کے ساتھ نماز ادا کرنے کا انتظام کیا گیا ہے۔جوگا بائی میں سینٹر کے مرکزی دفتر سے متصل جو جامع مسجد ابو بکر صدیق ہے جسے عرف عام میں ’’رحمانی مسجد‘‘ کہا جاتا ہے، اس کا بیسمنٹ عورتوں کے لیے صلاۃ خمسہ، جمعہ، تراویح اور دوسرے پروگراموں کے لیے خاص کیا گیا ہے۔یہ جامع مسجد بیسمنٹ سمیت پانچ منزلہ ہے۔جس میں ساڑھے چار ہزار مرد اور ایک ہزار عورتیں صلاۃ ادا کر سکتی ہیں۔اس کے علاوہ سینٹر کی دہلی میں تعمیر کردہ دو منزلہ جامع مسجد سونیا وہار اور پالم ایرپورٹ کے قریب مہاویر انکلیو، دوارکا میں تین منزلہ جامع مسجد میں بھی ایک ایک منزل عورتوں کے لیے مخصوص ہے۔
مولانا عبد الحمید رحمانی نے دہلی اور دیگر مقامات پر علم کے جو باغ لگائے ہیں امید ہے کہ وہ نہ صرف ہرے بھرے رہیں گے بلکہ تشنگان علوم ان کے ثمرات سے تادیر اپنی علمی بھوک پیاس مٹاتے رہیں گے۔ مولانا محمد رحمانی کی یہ بات درست ہے کہ مولانا نے جس مشن کا آغاز کیا تھا وہ ان کے انتقال سے ختم نہیں ہوا ہے، وہ مشن جاری ہے اور جاری رہے گا۔ لوگوں کے چلے جانے سے ادارے ختم نہیں ہوتے اور تحریکیں نہیں مرتیں، وہ جاری رہتی ہیں۔ اور ان کی یہ علمی تحریک بھی جاری رہے گی۔l
مولانا عبد الحمید رحمانی کی زندگی نشیب و فراز سے پُر رہی ہے۔ لیکن سچ بات یہ ہے کہ وہ جب نشیب میں رہے تب بھی فراز سے ہمکنار رہے اور پوری زندگی کامیابیوں و کامرانیوں سے سرفراز بھی رہے۔ شکست و ریخت کے حالات بھی پیدا ہوئے لیکن وہ ان کے بلند عزائم کی کمر نہیں توڑ سکے اور وہ اپنی منزل کی جانب جو کہ ایک مبارک ومقدس مشن سے عبارت تھی، پوری دلجمعی کے ساتھ گامزن رہے۔ جب مولانا عبد الحمید رحمانی نے 1980میں نئی دہلی کے مسلم اکثریتی علاقے جوگا بائی میں دینی تعلیم کے ایک ادارے کی داغ بیل ڈالی اور ابوالکلام آزاد اسلامک اویکننگ سینٹر قائم کیا تو وہ ان کی زندگی کا سب سے اہم اور خوبصورت اور چیلنجوں سے بھی بھرا ہوا موڑ تھا۔
اس ادارے کے قیام سے قبل وہ جامعہ سلفیہ بنارس میں تدریسی اور مرکزی جمعیت اہلحدیث کی نظامت کی خدمات انجام دے کر نہ صرف پورے ہندوستان میں بلکہ بیرون ہند بھی اپنا ایک مقام بنا چکے تھے۔ جب انھوں نے ادارہ قائم کیا تو ان کی شہرت دن دونی رات چوگنی بڑھتی چلی گئی اور بالخصوص خلیجی ممالک میں اہل علم و اہل مملکت اور اہل خیر و اہل ثروت سے ان کے رشتے و روابط وسیع ہوتے چلے گئے جس کا فائدہ یہ ہوا کہ یہ ادارہ بھی ترقی کے زینے تیزی سے طے کرنے لگا۔ معہد التعلیم الاسلامی کے بعد کئی ادارے قائم ہوئے اور ان کی شاخیں ملک کے مختلف شہروں، قصبوں اور گاؤں میں قائم ہونے لگیں۔ اہل علم حلقے میں اس ادارے کی شہرت بڑھتی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ادارہ اپنی ایک الگ شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس ادارے کی انفرادی تعلیمی خصوصیات اور مولانا رحمانی کی علمی عبقریت و انتظامی صلاحیت بہت سے طالبان علم کے ساتھ ساتھ اہل علم کے حلقے کے لیے بھی زبردست کشش کا باعث بن گئی۔ پورے ملک سے باصلاحیت علما، خطبا اور اساتذہ کشاں کشاں اس ادارے کی خدمت کرنے کے لیے جوگا بائی پہنچنے لگے۔ ایسے با صلاحیت لوگوں کی تعداد کافی ہے جو اس ادارے سے وابستہ ہوئے اور کچھ دنوں تک اپنی خدمات پیش کر کے اسے خیر باد کہہ گئے۔ یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ اہل اور با صلاحیت اساتذہ کے اس ادارے سے انخلا کی ایک بڑی وجہ خود مولانا کی سیماب صفت طبیعت رہی ہے۔ وہ ایک منفرد مزاج کے حامل رہے ہیں اور اپنے مزاج اور اپنی طبیعت کے خلاف کوئی بھی کام پسند نہیں کرتے تھے خواہ وہ کام بڑا ہو یا چھوٹا۔ در اصل ان کے مزاج میں سیماب صفتی ان کے اعلی ذوق کی وجہ سے تھی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ منفرد شخصیات کی طبیعتیں بھی دوسروں سے مختلف ہوتی ہیں۔ وہ ہر معاملے میں معیار قائم کرنا چاہتی ہیں اور اگر کوئی ان کے معیار پر کھرا نہیں اترتا تو وہ اس کو برداشت نہیں کرتیں۔ یہی معاملہ مولانا رحمانی کے ساتھ بھی رہا۔ وہ کسی بھی معاملے میں معیار، وقار اور سلیقہ سے سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ خواہ وہ تعلیم کا شعبہ ہو یا تعمیر کا یا کوئی اور۔ ہر جگہ ان کی انفرادیت بہ زبان خود بولتی رہی ہے اور آج بھی بول رہی ہے۔
عموماً ہوتا یہ تھا کہ وہ جب کسی بھی معاملے پر اپنے رفقائے کار سے اختلاف کرتے تو بالکل انتہا پر پہنچ جاتے۔ اس سے نیچے کوئی ایسا مقام نہیں تھا جہاں ان کی طبیعت ٹھہر سکے۔ اسے ان کے کردار کا عیب نہیں بلکہ خوبی تصور کرنا چاہیے۔ اس خوبی کی وجہ سے ہی وہ ہر معاملے میں انفرادی چھاپ چھوڑنے میں کامیاب رہے ہیں۔ وہ دوستانہ تعلقات کو نبھانے میں بھی انتہا پسند رہے ہیں اور اختلاف کرنے میں بھی۔ ان کے مزاج کی اس انتہاپسندی سے جب باصلاحیت افراد کی اناؤں کا ٹکراؤ ہوتا تو وہ اسے اپنی ہتک سمجھتے اور ادارے سے اپنی خدمات واپس لے لیتے۔ بیشتر معاملات میں ایسے ہی حالات رہے ہیں۔ ہاں کچھ ایسے واقعات بھی پیش آئے کہ بہتر مواقع سے استفادہ کرنے کی کوشش میں لوگ ان سے الگ ہو گئے۔ اگر ان اہل اور باصلاحیت افراد اور اساتذہ کی خدمات اس ادارے کو تادیر حاصل ہوئی ہوتیں تو بلا شبہ یہ ادارہ تدریسی و تعلیمی میدان میں پورے ہندوستان میں سرفہرست ہوتا۔
مولانا عبد الحمید رحمانی ایک علمی شخصیت کے مالک تھے اور اردو و فارسی کے ساتھ ساتھ عربی زبان پر بھی ایسی قدرت اور عبور رکھتے تھے جیسی کہ کوئی اہل زبان رکھتا ہے۔ اردو میں ان کا خطاب جتنا موثر، مدلل اور ٹھوس ہوا کرتا تھا، جاننے والے جانتے ہیں کہ عربی زبان میں بھی ان کی تقریر ویسی ہی ہوا کرتی تھی۔ یہاں تک کہ بعض روایتوں کے مطابق کسی زمانے میں ان کی عربی تقریروں کے کیسٹ خلیجی ملکوں میں ہاٹ کیک کی مانند فروخت ہوتے تھے۔ انھیں خطابت کا ملکہ حاصل تھا اور وہ جب بولتے تھے تو علم کا دریا رواں ہو جاتا۔ کوئی بھی علمی موضوع ہو وہ مدلل گفتگو کرتے۔ سنت کے اس قدر شیدائی کہ معمولی سا بھی خلاف سنت کام برداشت نہیں کرتے اور کوئی بھی ہو اسے بلا جھجھک ٹوک دیا کرتے تھے۔ انھیں اس کی پروا نہیں ہوتی کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ یہاں تک کہ مملکت سعودی عرب کے بعض وزرا کو بھی سخت سست کہنے سے باز نہیں آتے۔ (ایک زمانے میں ان کے کئی دوست اور ہم جماعت حکومت میں وزیر ہوا کرتے تھے)۔
پہلے معہد التعلیم الاسلامی کی مسجد بہت چھوٹی تھی او راس میں صرف ادارے کے اساتذہ اور طلبہ ہی نماز ادا کرتے تھے۔ بعد میں موجودہ مسجد کی تعمیر ہوئی۔ یہ جگہ پہلے ادارے کے بچوں کے لیے کھیل کا میدان ہوا کرتی تھی۔ اس مسجد کی تعمیر کے بعد جب مولانا نے باضابطہ جمعہ کا خطبہ دینا شروع کیا تو باہر کے لوگ بھی نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے آنے لگے او راب یہ سلسلہ کافی آگے بڑھ گیا ہے اور دوسرے مکاتب فکر کے لوگ بھی بڑی تعداد میں آنے لگے ہیں۔ اس کا سہرا مولانا رحمانی کے سر جاتا ہے جنھوں نے قرآن و سنت کے اصولوں پر سختی سے قائم رہتے ہوئے وسیع النظری کا مظاہرہ کیا اور مسلک سلف کی تبلیغ و ترویج کی۔ اورجس مشن کو اب ان کے صاحبزادے اور ابوالکلام آزاد اسلامک اویکننگ سینٹر کے موجودہ صدر مولانا محمد رحمانی آگے بڑھا رہے ہیں۔ وہ تقریر کے ساتھ ساتھ تحریر کے بھی دھنی تھے۔ اس میدان میں بھی انھوں نے اپنی علمیت کے جھنڈے گاڑے۔ پہلے رسالہ ’’التوعیہ‘‘ اور اب رسالہ ’’التبیان‘‘ کے صفحات اس کے گواہ ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر علمی پرچے بھی اس کی شہادت دیں گے کہ انھوں نے کس طرح قلم کو نشتر اور تیشہ بنایا اور معاشرے کے جسم پر ابھر آنے والے شرک و بدعات کے پھوڑے پھنسیوں پر نشتر زنی کی۔ تحریر کے میدان میں بھی وہ کسی سے دبتے نہیں تھے اور جو بات حق اور جائز سمجھتے تھے اس کو لومت لائم کے بغیر کہہ دیا کرتے تھے۔ سلطان جائر کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے میں وہ اپنی مثال آپ تھے۔ یوں تو وہ اسلامی علوم کے ماہر تھے لیکن وہ تاریخ تحریک اہلحدیث کے بھی زبردست عالم تھے۔ دنیا بھر میں تاریخ احباب اہلحدیث کی جو معلومات ان کے پاس تھیں شائد ہی کسی او رکے پاس ہوں۔ لیکن وائے افسوس کہ انھوں نے اس تاریخ کو تحریری شکل میں مرتب نہیں کیا۔ اگر انھوں نے یہ کام کیا ہوتا تو بلا شبہ ایک عظیم کام ہوتا۔
مولانا رحمانی ابتدائی دنوں میں سیاست میں بھی رہے اور بقول شیخ صلاح الدین مقبول احمد وہ جہاں بھی رہے صف اول میں رہے۔ سیاست میں بھی اعلی کمان کے دائیں اور بائیں بازو بن کر رہے۔ وہ پچھلی صف میں بیٹھنے کے قائل نہیں تھے۔ سیاست میں وہ ہیم وتی نند بہوگنا، رام کرشن ہیگڑے اور سریندر موہن جیسے سیکولر سیاست دانوں کے ساتھ رہے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے سینئر سیاست دانوں سے ان کے قریبی مراسم رہے ہیں۔ وہ لوگ ان کی بے حد قدر کیا کرتے تھے۔ لیکن ان کے مزاج میں تملق اور خوشامد کا شائبہ تک نہیں تھا یا ان کے مزاج میں وہ اوصاف نہیں تھے جو کامیاب سیاست داں کے لیے ضروری ہیں اس لیے شائد انھیں احساس ہو گیا تھا کہ وہ سیاست کی مٹی سے نہیں بنے ہیں یا یہ میدان ان کے لیے نہیں بنا ہے۔ کیونکہ وہاں جس ’’بے کرداری‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے وہ شائد اس پر کھرے نہیں اتر پاتے۔ مجلہ ’’اہلحدیث‘‘ کے مدیر حکیم اجمل خان کے بقول مولانا رحمانی سیاست سے بد دل ہونے کے بعد ادارہ سازی کی جانب مڑے تھے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انھوں نے ہی ان سے کہا تھا کہ مولانا یہ بات آپ جیسی علمی شخصیت کے شایان شان نہیں کہ آپ سیاست دانوں کے دروازوں پر حاضری دیں اور ان کے در پر جبہ سائی کریں۔ اس کے بعد انھوں نے تعلیمی ادارہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اگر ایسا ہے تو اچھا ہی ہوا کہ انھوں نے سیاست کی دیوی کو اپنے نہاں خانہ دل سے نکال باہر کیا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو اتنی زبردست علمی خدمت کیسے انجام دے پاتے۔ اس بات کا اعتراف ان کے مخالفین کو بھی ہے کہ انھوں نے تن تنہا جو کام کیا ہے وہ ادارے بھی نہیں کر پاتے۔
مولانا عبد الحمید رحمانی اردو صحافت میں مولانا محمد عثمان فارقلیط کے معترف اور ان کی صحافتی خدمات اور ان کی ملی فکر کے قائل تھے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ کسی زمانے میں وہ ان سے اس قدر متاثر تھے کہ اپنے نام کے ساتھ ’’فارقلیط‘‘ لگایا کرتے تھے۔ ان کے ایک سابق دیرینہ رفیق مولانا عزیز عمر سلفی مدیر نوائے اسلام اس کے راوی ہیں۔ وہ یہاں تک بتاتے ہیں کہ ان کی ذاتی لائبریری میں ایسی متعدد کتابیں ہیں جن پر انھوں نے اپنا نام ’’عبد الحمید فارقلیط‘‘ لکھا ہے۔ در اصل مولانا فارقلیط جس طرح ملت اسلامیہ کو آزادی کے بعد زوال اور شکست خوردگی کے گہرے غار سے نکالنے کی جد وجہد کرتے رہے اسی طرح مولانا رحمانی بھی مسلمانو ں کی نئی نسل کو دینی تعلیم کے ذریعے اس علمی و شعوری پسماندگی سے نکالنے کی زندگی بھر کوشش کرتے رہے ہیں۔
وہ صرف لڑکوں کی تعلیم کے حق میں نہیں تھے بلکہ لڑکیوں کی تعلیم کے بھی اتنے ہی حمایتی اور طرفدار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انھوں نے دیکھا کہ جامعہ نگر کے مسلم اکثریتی علاقے میں لڑکیوں کا کوئی ایسا تعلیمی ادارہ نہیں ہے جہاں اسلامی ماحول میں عصری تعلیم دی جا رہی ہو تو انھوں نے ’’خدیجۃ الکبری گرلز پبلک اسکول‘‘ قائم کیا جہاں آج بھی پاکیزہ ماحول میں لڑکیوں کو عصری تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے لڑکیوں کی اسلامی تعلیم کے لیے ’’عائشہ صدیقہ شریعت کالج‘‘ قائم کیا جہاں ملک بھر کی سینکڑوں بچیاں عالم و فاضل کی ڈگری حاصل کر رہی ہیں۔
انھو ںنے اوکھلا اور نوئڈا کے اتصال پر واقع کالندی کنج کے نزدیک جب ایک بہت بڑا قطعہ آراضی خرید لیا تو ایک مٹتی ہوئی سنت زندہ کی اور وہاں قائم ادارہ ’’جامعہ اسلامیہ سنابل‘‘ کے میدان میں عیدین کی نمازوں کا سلسلہ شروع کیا اور لوگوں پر زور دیا کہ وہ خواتین کو بھی عیدین کی نماز کی ادائیگی کے لیے لائیں۔ ان کی اس اپیل کا اتنا اچھا اثر پڑا کہ آج ہزاروں کی تعداد میں نہ صرف اس علاقے کے بلکہ اوکھلا سے باہر کے لوگ بھی عیدین کی نماز کی ادائیگی کے لیے وہاں پہنچنے لگے۔ رفتہ رفتہ وہاں مردوں اور عورتوں کی تعداد میں سال بہ سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان کی اس کوشش سے تحریک پا کر اب بعض دوسرے مکاتب کے ذمہ داروں نے بھی عیدین کی نماز میں خواتین کی شرکت کی اجازت دے دی ہے۔ بلا شبہ اس سنت کو زندہ کرنے کا ثواب مولانا رحمانی کو ہی حاصل ہوگا۔
جامعہ اسلامیہ سنابل کے میدان میں انھوں نے ’’جامع مسجد عمر بن الخطاب‘‘ کے نام سے ایک عظیم الشان مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا تھا جو اب تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔ اس میں بیک وقت 5500(پانچ ہزار پانچ سو)مرد اور 2000(دو ہزار)سے زائد عورتیں صلاۃادا کر سکتی ہیں ۔ ایسے عمر رسیدہ مرد وخواتین جو زینے نہ چڑھ سکیں ان کے لیے لوور گراؤنڈ فلور میں الگ الگ صلاۃ ادا کرنے کا انتظام کیا گیا ہے۔جو ساڑھے پانچ ہزار مردوں اور دو ہزار خواتین کے علاوہ ہوں گے۔ اسلامی طرز تعمیر کی یہ مسجد سہ منزلہ ہے جس میں لوور گراؤنڈ فلور میں کار پارکنگ، مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ ٹوائلٹ، باتھ روم اور وضو خانے ہیں۔ لوور گراؤنڈ فلور کا رقبہ 3503.29 اسکوائر میٹر ، گراؤنڈ فلور کا رقبہ 2284.19 اسکوائر میٹر اور فرسٹ فلور کا رقبہ 1638 اسکوائر میٹر ہے۔ اس مسجد کا مجموعی ایریا 7,425.48اسکوائر میٹر ہے۔گراؤنڈ فلور مرد مصلیوں کے لیے مخصوص ہے اور فرسٹ فلور خواتین کے لیے۔ ابو الکلام آزاد اسلامک اویکننگ سینٹر کے ذرائع کے مطابق سینٹر نے پورے ملک میں جو مسجدیں تعمیر کرائی ہیں تقریباً ان سبھی میں عورتوں کے لیے پردے کے ساتھ نماز ادا کرنے کا انتظام کیا گیا ہے۔جوگا بائی میں سینٹر کے مرکزی دفتر سے متصل جو جامع مسجد ابو بکر صدیق ہے جسے عرف عام میں ’’رحمانی مسجد‘‘ کہا جاتا ہے، اس کا بیسمنٹ عورتوں کے لیے صلاۃ خمسہ، جمعہ، تراویح اور دوسرے پروگراموں کے لیے خاص کیا گیا ہے۔یہ جامع مسجد بیسمنٹ سمیت پانچ منزلہ ہے۔جس میں ساڑھے چار ہزار مرد اور ایک ہزار عورتیں صلاۃ ادا کر سکتی ہیں۔اس کے علاوہ سینٹر کی دہلی میں تعمیر کردہ دو منزلہ جامع مسجد سونیا وہار اور پالم ایرپورٹ کے قریب مہاویر انکلیو، دوارکا میں تین منزلہ جامع مسجد میں بھی ایک ایک منزل عورتوں کے لیے مخصوص ہے۔
مولانا عبد الحمید رحمانی نے دہلی اور دیگر مقامات پر علم کے جو باغ لگائے ہیں امید ہے کہ وہ نہ صرف ہرے بھرے رہیں گے بلکہ تشنگان علوم ان کے ثمرات سے تادیر اپنی علمی بھوک پیاس مٹاتے رہیں گے۔ مولانا محمد رحمانی کی یہ بات درست ہے کہ مولانا نے جس مشن کا آغاز کیا تھا وہ ان کے انتقال سے ختم نہیں ہوا ہے، وہ مشن جاری ہے اور جاری رہے گا۔ لوگوں کے چلے جانے سے ادارے ختم نہیں ہوتے اور تحریکیں نہیں مرتیں، وہ جاری رہتی ہیں۔ اور ان کی یہ علمی تحریک بھی جاری رہے گی۔l
No comments:
Post a Comment