اسلام اور سائینس


نماز کے انسانی دماغ پر اثرات نے سائنسدانوں کو بھی حیران کر دیا
 11 اپریل 2015 (20:01)

کوالا لمپور (نیوز ڈیسک) اسلام انسان کے لئے نہ صرف روحانی فلاح کا پیغام لے کر آیا ہے بلکہ دنیاوی لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو اس کے طفیل ملنے والی نعمتوں کا شمار ممکن نہیں۔سائنسدان اسلامی عبادات کے اثرات کے بارے میں کچھ اہم سوالات رکھتے تھے جن کا ایک جواب ملائیشیا میں کی گئی ایک سائنسی تحقیق میں سامنے آیا ہے۔ یونیورسٹی آف ملائیشیا کے ڈیپارٹمنٹ برائے بائیومیڈیکل انجینئرنگ نے نماز کے انسانی ذہن اور جسم پر اثرات کا سائنسی مطالعہ کیا تونتائج اس قدر شاندار اور حیران کن تھے کہ اس تحقیق کو فوری طور پر بین الاقوامی شہرت یافتہ سائنسی جریدے "Applied Psychophysiology" میں شائع کرنے کی درخواست کر دی گئی۔ یونیورسٹی کی ایک ٹیم نے سینئر سائنسدان ہازم دوفیش کی قیادت میں ایک تحقیق کی جس میں نماز میں مصروف افراد کے دماغ کے فرنٹل، سنٹرل، ٹیمپرل، پرائٹل اور آکسیپیٹل نامی حصوں کے ساتھ EEG مانیٹر منسلک کئے گئے اور نماز کے مختلف مراحل کے دوران دماغ میں موجود توانائی کے سگنلز کا مطالعہ کیا گیا۔ تحقیق کے نتائج سے معلوم ہوا کہ نماز کے دوران اور خصوصاً سجدے کے دوران دماغ میں ایلفا ویو ایکٹیویٹی میں نمایاں اضافہ ہوگیا۔ ایلفا ویو کی کثرت دماغ کے پرائٹل اور آکسیپیٹل حصوں میں نظر آئی جو کہ دماغ کے بالائی اور عقبی حصوں میں واقع ہوتے ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ بار بار کے تجربات کے دوران یہی صورتحال نظر آئی اور اگرچہ دیگر مراحل کے دوران ایلفا ویوز میں نسبتاً کم اضافہ ہوتا تھا لیکن سجدے کے دوران ان کے سگنلز عروج پر پہنچ جاتے تھے۔ ایلفا ویوز انسانی دماغ میں سکون، اطمینان اور خوشی کے جذبات پید اکرتی ہیں۔ یہ روزمرہ زندگی کی مشکلات اور تکلیفوں کے شکار دماغ کو پرسکون کرنے اور انسانی توجہ اور صلاحیتوں کو نکھارنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تجربات ظاہر کرتے ہیں کہ نفسیاتی و ذہنی مسائل کے حل کے لئے مہنگے اور منفی نتائج کے حامل علاج سے کہیں بہتر اور آسان نسخہ نماز ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مغرب کے متعددجرائد نے بھی اس تحقیق کے بارے میں مضامین شائع کئے ہیں اور اعتراف کیا ہے کہ اس بات کے سائنسی شواہد مل گئے ہیں کہ ”مسلمانوں کی عبادت“ دماغ میں ایلفا ویو ایکٹیویٹی کو نمایاں طور پر بڑھا دیتی ہے۔

ڈیلی پاکستان

مذہب کی ضرورت کیوں؟

15 مارچ 2015
بطور مسلمان ہم سب کا یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کا نام دین ہے۔ ہم دین کو مذہب کے مطلب میں لیتے ہیں جو دراصل مناسب نہیں ہے۔ دین اپنے وسیع تر معنوں میں اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے کو تسلیم کرنے کو کہتے ہیں یعنی اسلام کا راستہ اپنانا ۔ دراصل اسلام کو ہم نے دینِ مصطفی سے مختص کر دیا ہے۔ حالانکہ دینِ اسلام اللہ تعالیٰ نے اپنے ہر رسول کے ذریعے اِنسانیت کے لئے بھیجا تھا۔ شریعت موسوی اور شریعت عیسوی بھی اسلام تھے ،مگر جب اِن شریعتوں سے انحراف ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول کے ذریعے انسانوں کو مکمل طور پر منظم دین دیا۔ میرا یہ مقالہ مذہب یا مذہبوں کے بارے میں ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا انسان کے لئے مذہب کو ضروری کیا گیا یا اِنسان نے خود ہی مذہب کی ضرورت محسوس کی ؟ انسا نی نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ قدیم انسان میں پیدائشی طور پر مذہبیت کا مادہ موجود تھا جس کو نفسیات دانوں نے Nurotheollgy کا نام دیا۔ یہ بات دل کو بھی لگتی ہے کیونکہ ڈراورخوف کا عنصر ہر ذی روح میں موجود ہوتا ہے۔

جب جنگل میں اچانک آگ لگ جاتی ہے تو خوفناک شکل بھی اختیار کر لیتی ہے۔ انجانی وجہ سے آگ کا لگ جانا قدیم انسان کو خوفزدہ کر دیتا تھا۔ سورج کی روشنی سے نباتات بھی اُگتی تھیں انسان کی خوراک کے لئے۔ جنگل کی آگ سے شکار کئے ہوئے جانور کا گوشت بھی پک جاتا تھا۔قدیم انسان جو جبلّی طورپر مافوق الفطرت سے ڈرتا تھا اُس نے سورج اور آگ کومعجزا ت کا مظہر مان لیا اور یوں اِنسان کی لاشعوری مذہبیت اُس کےُ رجحان میں آگئی۔ مسلمانوں کے نقطہ نظر سے ہٹ کر ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ زمانہ قبل از تاریخ سے ہی انسان کسی نہ کسی مذہب دھرم یا دیومالائی CULTS کو کیوں مانتا تھا۔ قدرت کے وہ مظاہر جو اِنسان کو فائدہ یا نقصان پہنچاسکتے تھے اور جن پر انسان کا اپنا بس نہیں چلتا تھا، اُن مظاہر کو انسان نے اپنے سے عظیم مان لیا یعنی اپنے سے زیادہ زور آور سمجھ لیا۔ سورج، چاند ،کڑکتی ہوئی آسمانی بجلی اور طوفان،جان لیوا وبائیں، خوراک دینے والے جانور یا نقصان دینے والے جانور ، آگ اور ٹھاٹھیں مارتے دریاؤں اور سمندروں کا پانی، یہ سب عناصر قدیم انسان کو متاثر کرنے کے لئے کافی تھے۔ قدیم اِنسان معاشرتی اور سماجی طور پر نا پختہ تھا۔اُس وقت کا معاشرہ یا پدریPatriarchal تھا یا مادری (Matriarchal) ہوتا تھا۔ یعنی انسانی قبیلے یا گروہ کی سربراہی مرد کے ہاتھ میں ہوتی تھی یا عورت کے ہاتھ میں۔ اُس معاشرے میں ابھی خاندا نی رشتوں کی پہچان بھی نہ تھی۔ کسی بھی عورت سے کسی بھی مرد کی اولاد ہو سکتی تھی۔ ماں، بیٹی ، اور بہن یا خالہ اور چاچی وغیرہ کی کوئی شناخت نہ تھی۔ کنبے اور خاندان کا ابھی کوئی تصور نہیں تھا، لہٰذا وراثت کا بھی کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا تھا۔ صرف گروہ یا قبیلہ ہوتا تھا جو اِکٹھا رہنے پر اپنی بقا کے لئے مجبور ہوتا تھا۔ ابھی ملکیت کا تصور بھی پیدا نہ ہوا تھا۔ اُس وقت تمام انسانی جد و جہد صر ف زندہ رہنے کے لئے ہوتی تھی ۔ اخلاقیات کے تصور نے ابھی جنم بھی نہ لیا تھا۔ موت کا مطلب زندگی کا خاتمہ تھا۔ کیا اُسے معلوم تھا کہ موت کا مطلب محض زندگی کا اختتام ہے اور بس ،یا موت کے بعد کوئی اور دنیا بھی ہو گی۔ قدیم انسان اپنے مرُدے کی آخری رسوم ، مُردے کو یا تو آگ میں جلا کر کرتا تھا، یا بہتے پانی میں پھینک کر یا زمین میں دفنا کر یا گوشت خور جانوروں اور پرندوں کی خوراک بناکر کرتا تھا۔
دراصل قدیم انسان کی تمام جدوجہد اور مصروفیت خوف کے گرد گھومتی تھی۔ جنگلی درندوں کا خوف، وباؤں کا خوف، زلزلوں اور طوفانوں کا خوف، آگ سے جل جانے کا خوف ، قحط اور خشک سالی اور پانی کی عدم دستیابی کا خوف، بلکہ بعض مرتبہ پانی کے سیلاب کا خوف۔ اس ارتقائی معاشرے میں انسان کے پاس ابتدائی شعور کی طاقت تھی جو اُس کو دوسرے جانداروں سے ممتاز کرتی تھی۔ اسی اِبتدائی شعور کے زمانے میں قبیلہ کے اندر کوئی نہ کوئی انسان زیادہ ذہین اور سوچ بوجھ والا بھی ہوتا ہوگا۔ بس ایسے ہی کسی انسان نے اپنے قبیلے کے لوگوں کو متاثر کرنے کے لئے ظاہر کیا کہ وہ خوف پیدا کرنے والے عناصر پر قابو پا سکتا ہے بشرطیکہ قبیلے والے اُس کی ہدایات پر عمل کریں ۔خوف سے چھٹکارا پانے کے لئے قبیلے والے کچھ بھی کر سکتے تھے۔ اس ذہین انسان کو قبیلے والے اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہوئے اُس کے پیرو کار بن گئے اور یوں مذہبیت کی ابتداء انسانی معاشرے میں شروع ہو ئی ۔اس ذہین انسان نے اپنے اِرد گرد کچھ پُرسراریت کا تانا بانا بُن لیا ، کچھ پوجا پاٹ کے طریقے ا یجاد کر لئے اور اس طرح اپنے پیرو کاروں کو قائل کر دیا کہ وہ قبیلے والوں کے لئے موت کے بعد کی دنیا بھی آسان کر سکتا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جادوگری ہی مذہبیت کی ابتدا بنی۔ آس پاس کے دوسرے قبیلوں میں بھی جادو ٹونے والے آگئے اور وہ پوجا پاٹ کروانے لگ گئے۔ ہر قبیلے کا اپنا اپنا مذہبی نشان (TOTEM) بن گیا۔

مَیں ڈارون کی تھیوری پر بالکل یقین نہیں رکھتا۔ اللہ سُبحان تعالیٰ نے آدمی بطور ایک صنف(
Species) اسی طرح ہی پیدا کیاجس طرح اور جاندار پیدا کئے۔ آدمی بھی اللہ تعالیٰ کی ایسی ہی ابتدائی مخلوق ہے جیسے اور چرند، پرند یا نباتات ہیں۔ جس روز اللہ تعالیٰ نے آدمی کو شعور سے نوازا اُس کو انسا ن کا درجہ دے دیا تو وہ آدمی اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق میں اشرف المخلوقات ہو گیا۔ انسانیت اپنی بہت ہی ابتدائی شکل میں وجود میں آگئی اور پھر مختلف اِرتقائی منازل سے گذرتی ہوئی اس قابل ہو گئی کہ اُسکا لاشعوری جھکاؤ کسی نہ کسی قسم کے مذہب کو ماننے کی طرف ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے آدمی کو اشرف المخلوقات بنا کر انسانیت کی طرف گامزن کر دیا تھا۔انسان میں تجسُس کا قوی مادہ بھی پیدا ہو چکا تھا۔ یہ تجسس کا عنصر ہی تھا جو اِتنا طاقتور تھا کہ اس کے زیرِ اثر حضرت آدم ؑ نے اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی کی اور وہ جنت سے نکالے گئے۔ قرآن مجید کے اس اہم ترین بیان کو آپ خواہ علامتی لیں یا حقیقی لیں ،لیکن ربِ کائنات نے آدمؑ کو شعور اور تجسُس کی دولت دے کر زمین پر بھیجا تو اللہ تعالیٰ نے اِنسان کے لئے تسخیرِ کائنات کا سامان پیدا کر دیا۔تجسُس بنیاد بنا تحقیق کا، تحقیق بنیاد بنی جہد اور تجربہ سازی کی جسکے ذریعے انسان نے ایجادیں کیں اور نئی دنیائیں دریافت کیں۔ القران بعض مرتبہ علامتوں سے حقیقت ظاہر کرتا ہے اور بعض جگہ سیدھی سیدھی تاریخی اہمیت کی کہانی سناُ کر انسانی ہدائت کا موجب بنتا ہے۔

اپنے اصل موضوع سے ہٹ کر مَیں نے قرانی حوالے اس لئے دیئے ہیں کہ آگے چل کر مَیں بتا سکوں کہ اِنسان کو مذہب کی ضرورت کیوں ہوئی اور اُس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کتنے ہی مذہب عقیدے اور دیو مالائی قصے (
Mythologies) سامنے آئے اور پھر کیا ہوا کہ دنیا کے اکثر انسان صرف ایک خدا کے تصور پر متفق ہو گئے۔ تاریخی حوالوں سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ مسیحی اور موسوی دین بھی اوّلاً توحید پر مبنی تھا، بلکہ ہندو دھرم بھی رِگ ویدکے مطابق توحید(Monotheism) پر ہی موقوف رکھتا تھا۔ دیوی، دیوتا، شرک اور بت پر ستی تو آریائی برہمنوں میں کوئی 2500 سال قبل مسیح سے شامل ہوئے ہیں۔ خاص طور پر جب وہ وسط ایشیا سے ہجرت کر کے سندھ تہذیب کے بُت پرستوں کے ساتھ آمیزاں ہوئے۔ سوشل سائنسدان کہتے ہیں کہ انسان کے دماغ کا حجم تمام جانوروں سے بڑا ہے اس لئے جبلّی طور پرانسان اچھے اور بُرے کی پہچان میں دلچسپی لیتا رہا ہے۔ انسانی زندگی میں اخلاقیات کی ہمہ گیریت کا تصور بھی مذہبوں نے دیا ہے۔ کوئی سا بھی مذہب دیکھ لیں۔ وہ معاشرے میں توازن رکھنے کے لئے اخلاقیات کی تلقین کرتا ہے۔ چوری، حق تلفی، بہتان تراشی ،زنا،جوأ،بھتہ خوری، غبن، بدعنوانی اور وطن فروشی کو ہر مذہب بد اخلاقی اور بدکِرداری سمجھتا ہے۔ جتنے بھی مستند مذاہب ہیں وہ رشتوں کا تقدّس بھی مقرر کرتے ہیں۔ ابتدائی معاشرے میں جب انسان ابھی مہذب نہیں تھا، رشتوں کی حرمت کا کوئی معیار نہ تھا۔ ہر عورت صرف عورت تھی خواہ وہ ماں تھی یا بیٹی تھی۔ Universal اخلاقیات کا تصور مذہب نے دیا۔ لفظ مذہب تہذ یب سے نکلا ہے اسی لئے ہم اسلام کو مذہب کے نام سے نہیں پکارتے ،بلکہ دین کہتے ہیں۔ مذہب نے ہی انسانی تہذیب کو متاثر کیا ۔ تہذیب ذریعہ بنتی ہے۔ اخلاق اور کِردار سازی کا ۔ جتنے بھی بڑ ے مذاہب ہیں، وہ اخلاقیات کا ہمہ گیر سبق دیتے ہیں ۔
دینِ اسلام تمام مذاہب میں ممتاز اپنے عقیدے کی وجہ سے ہے۔ مسلمان اللہ کی وحدت پر، اللہ کے رسولوں اور نبیوں پر ، ملائیک پر اور اللہ کی طرف سے نازل کی ہوئی کُتب پر مکمل ایمان رکھتے ہیں اور سب سے بڑی بات کہ ہم مسلمان یومِ حساب پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ یومِ حساب پر ہم مسلمان جس طرح یقین رکھتے ہیں وہ دوسرے مذاہب میں نہیں ہے۔ یہودی تو اپنے آپ کو سمجھتے ہیں کہ وہ پہلے ہی بخشے ہوئے ہیں ،جبکہ مسیحی یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسٰی ؑ نے اپنی قربانی دے کر اپنے تمام پیرو کاروں کو بخشوا لیا ہے۔ ہندوؤں ، بدھسٹوں اور آتش پرست پارسیوں کا عقیدہ یوم الحساب کے بارے میں بالکل مختلف ہے۔ دینِ اسلام میں یوم حساب اصل یومِ حساب ہے۔ کسی کی بھی بخشش اُس کے اعمال پر منحصر ہے ۔یومِ حساب کا یہ ہی تصور ہم مسلمانوں کو گناہوں اور بُرائیوں سے دُور رکھ سکتا ہے، لیکن صد حیف کہ اتنے مکمل دینِ فطرت کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت بد کرداری اور عصیبت میں ڈوبی ہوئی ہے۔ مذہب جو ہم انسانوں کی روحانی تسکین کا باعث بنتا ہے وہ ہم مسلمانوں کو خونریزی اور فساد میں مبتلا کر گیا ہے۔ مذہبیت ہمیشہ انسان کی ضرورت رہے گی خواہ وہ اچھے کاموں کے لئے ہو خواہ وہ باہمی خون خرابے کے لئے ہو جیسا کہ بد نصیبی سے ہم مسلمانوں میں فی الوقت جاری ہے۔ جتنا سادہ ہمارا دین ہے اُس کو مسلکوں نے، مختلف فقہا نے، اَن گنت مفّسروں نے پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ہم نے دین کو مذہب بنا کر رکھ دیا ہے۔


عبادت گزاری، ڈپریشن کے خاتمے میں مددگار: تحقیق

تحقیق دانوں کے مطابق، جو بزرگ افراد باقاعدگی سے مذہبی سرگرمیوں میں شریک ہوتے ہیں، ان میں ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہونے کا امکان اپنے ہم عصر ساتھیوں کی نسبت خاصا کم ہو جاتا ہے
ایک نئی تحقیق بتاتی ہے کہ معمر افراد کا مذہبی رجحان ان کا موڈ بہتر کرنے کا سبب بنتا ہے۔دو سال تک جاری رہنے والی اس تحقیق میں ان معمر افراد کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا جو اپنی زندگی میں مذہب کو اہمیت دیتے ہیں اور مذہبی طور طریقے اپنانے کے لیے وقت نکالتے ہیں۔تحقیق دانوں کے مطابق جو بزرگ افراد باقاعدگی سے مذہبی سرگرمیوں میں شرکت کرتے ہیں، ان میں ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہونے کا امکان اپنے ہم عصر ساتھیوں کی نسبت خاصا کم ہو جاتا ہے۔
تحقیق کے نتائج سے یہ بھی اخذ کیا گیا کہ ایسے بزرگ افراد جو ڈپریشن میں مبتلا تھے، جب انہوں نے مذہبی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا تو ان میں ڈپریشن بہت حد تک کم کرنے میں مدد ملی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرز کے مطالعاتی جائزوں کے نتائج کو مکمل طور پر درست سمجھنا غلط  ہوگا۔ ماہرین کے مطابق اس تحقیق کے نتائج سے یہ اخذ کرنا مشکل ہے کہ آیا معمر افراد جنہوں نے مذہبی سرگرمیوں میں شرکت نہیں کی وہ اس سبب ڈپریشن میں مبتلا ہوئے یا ان کے ڈپریشن کی وجہ کوئی اور تھی؟ نہ ہی یہ بتایا جا سکتا ہے کہ ڈپریشن کی وجہ سے بزرگ افراد نے مذہبی سرگرمیوں میں شرکت نہیں کی۔ماہرین کہتے ہیں کہ اس تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ مذہب انسان کے لیے اچھا ہے، غلط ہوگا، کیونکہ اس تحقیق میں اس بارے میں کوئی ٹھوس معلومات نہیں دی گئیں۔
یونیورسٹی آف مشی گن کی جانب سے کی گئی اس تحقیق میں 7,732 افراد سے ڈیٹا حاصل کیا گیا۔ ان میں سے 1,992 افراد ڈپریشن کا شکار تھے جبکہ بقیہ معمر افراد کو ڈپریشن کا مرض لاحق نہیں تھا۔تحقیق دانوں کو معلوم ہوا کہ ڈپریشن میں مبتلا معمر افراد اور ایسے بزرگ افراد جو ڈپریشن میں مبتلا نہیں تھے، دونوں میں مذہب کی طرف ایک سا رجحان دیکھا گیا۔ گو کہ ایسے معمر افراد جنہیں ڈپریشن کا مرض نہیں لاحق تھا، ان میں مذہبی عبادت گزاری کا حصہ بننے کا رجحان زیادہ دیکھا گیا۔
 Source with thanks:Voce of America

 

 

روزہ قوت مدافعت بڑھانے کا اہم ذریعہ: تحقیق

امریکی سائنس دانوں نے کا کہنا ہے کہ صرف تین دن تک لگاتار روزے کی حالت میں رہنے سے جسم کا مدافعتی نظام پورا کا پورا نیا ہو سکتا ہے۔
جوں جوں عقل ترقی کر رہی ہے حیرت انگیز علوم سے آشنائی کا عمل بھی جاری ہے۔ خاص طور پر میڈیکل سائنس کے حوالے سے کچھ عرصے پہلے تک یہی خیال کیا جاتا تھا کہ روزہ نظام انہضام کو آرام پہنچانے کا ایک مفید ذریعہ ہو سکتا ہے۔لیکن جدید طب سے وابستہ ماہرین اس حقیقت سے پردہ اٹھانے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ روزہ ایک حیرت انگیز طبی علاج ہے جو نہ صرف انسان کے مدافعتی نظام کو نئی توانائی فراہم کر سکتا ہے بلکہ پورے مدافعتی نظام کو دوبارہ سے تخلیق کر سکتا ہے۔
امریکی سائنسدانوں نے اس مطالعے کو تحقیق کی دنیا میں ایک قابل ذکر پیش رفت قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف تین دن تک لگاتار روزے کی حالت میں رہنے سے جسم کا مدافعتی نظام پورا کا پورا نیا ہو سکتا ہے۔ کیونکہ روزہ سے جسم کو نئے سفید خون کے خلیات بنانے کی تحریک ملتی ہے۔

سائنس دانوں کے بقول روزہ مدافعتی نظام کی ازسرنو تخلیق کا ایک بٹن ہے جس کے دبانے سے اسٹیم خلیات کو سفید خون کے خلیات بنانے کا اشارہ ملتا ہے جن کی بدولت انسان بیماریوں اور انفیکشن کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں نے کہا ہے کہ ان کی دریافت کینسر کے مریضوں اور غیر موثر مدافعتی نظام میں مبتلا افراد کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے اور خاص طور پر معمر افراد جن کا مدافعتی نظام زیادہ عمر کی وجہ سے غیر موثر ہو جاتا ہے اور ان میں معمولی بیماریوں سے لڑنے کی طاقت بھی نہیں رہتی ہے، یہ مشق ان کے لیے بے حد مفید ہو سکتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سرطان میں مبتلا افراد یا معمر ہونے کی وجہ سے غیر موثر مدافعتی نظام کو روزہ ایک نئے مدافعتی نظام میں تبدیل کر سکتا ہے ۔انھوں نے کہا کہ جب آپ بھوکے ہوتے ہیں تو یہ نظام توانائی بچانے کی کوشش کرتا ہے اور روزے دارکا بھوکا جسم ذخیرہ شدہ گلوکوز اور چربی کو استعمال کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ توانائی محفوظ کرنے کے لیے مدافعتی نظام کے خلیات کا بھی استعمال کرتا ہے جس سے سفید خلیات کا ایک بڑا حصہ بھی ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے۔کیلی فورنیا یونیورسٹی کے شعبہ جیروئنٹولوجی ایند بائیولوجیکل سائنسز سے منسلک پروفیسر والٹر لونگو نے کہا کہ طویل روزوں کی حالت میں جسم میں ایک اینزائم پی کے اے (
PKA) کی کمی واقع ہوتی ہے جس کا تعلق بزرگی یا سرطان کے ٹیومر کی افزائش کا سبب بننے والے ہارمون سے ہے۔

جبکہ اسٹیم سیلز تخلیق نو کا مرحلہ تبھی شروع کر سکتا ہے جب پی کے اے جین کا بٹن سوئچڈ آف ہو۔ بنیادی طور پر روزہ اسٹیم سیلز کو
OK کا سگنل بھجتا ہے کہ وہ ری سائیکلنگ کا عمل شروع کرے اور پورے مدافعتی نظام کی مرمت کر کے اسے پھر سے نیا بنادے۔اچھی خبر یہ ہے کہ روزے کی حالت میں جسم کو مدافعتی نظام کے نقصان دہ، ناکارہ اور غیر فعال حصوں سے بھی چھٹکارہ مل جاتا ہے۔محققین نے ایک تجربے کے دوران لوگوں سے چھ ماہ کے دوران دو سے چار بار فاسٹنگ (روزے) کے لیے کہا۔
پروفیسر لونگو کے مطابق ہم نے انسانوں اور جانوروں پر کئے جانے والے تجربات میں یہ دیکھا کہ طویل روزوں سے جسم میں سفید خون کے خلیات کی تعداد میں کمی ہونی شروع ہو گئی مگر جب روزہ کھولا گیا تو یہ خلیات پھر سے واپس آگئے اور تبھی سائنسدانوں نے یہ سوچنا شروع کیا کہ آخر یہ واپس کہاں سے آتے ہیں؟

بقول پروفیسر لونگو طویل روزوں کی حالت کے دوران جسم میں سفید خون کے خلیات کی کمی سے پیدا ہونے والی حوصلہ افزا تبدیلیاں اسٹیم سیلز کے تخلیق نو کے خلیہ کو متحرک بناتی ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ جب انسان روزے کے بعد کھانا کھاتا ہے تو اس کا جسم پورے نظام کی تعمیر کے لیے اسٹیم خلیات کو سگنل بھجتا ہے اور توانائی محفوظ کرنے کے لیے مدافعتی نظام خلیات کے ایک بڑے حصے کو ری سائیکل کرتا ہے جن کی یا تو ضرورت نہیں ہوتی ہے یا جو ناکارہ ہو چکے ہوتے ہیں۔ تحقیق کے معاون مصنف پروفیسر تانیا ڈورف نے کہا کہ اگرچہ کمیو تھراپی کا عمل زندگی بچانے کے کام آتا ہے  لیکن 72 گھنٹوں کا روزہ کمیو تھراپی کے زہریلے اثرات کے خلاف کینسر کے مریضوں کی حفاظت کر سکتا ہے۔ لیکن اس بات کی ضرورت ہے کہ کسی طبی معالج کے زیر نگرانی اس نوعیت کی غذائی پابندیاں کی جانی چاہئیں۔

'یو سی ایل' سے منسلک پروفیسر کرس مین نے کہا کہ یہاں کچھ دلچسپ اعداد و شمار حاصل ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ روزے کی حالت میں خلیات کی تعداد اور سائز کو کم کردیتی ہے لیکن بہتر گھنٹوں کا روزہ کھولنے سے صحت مندی لوٹنے لگتی ہے۔تحقیق کے نتیجے کے حوالے سے پروفیسر لونگو نے کہا کہ ایسے شواہد نہیں ملے جن کی وجہ سے فاسٹنگ کو خطرناک قرار دیا جائے بلکہ اس کے فائدہ مند ہونے کے حوالے سے ٹھوس شواہد سامنے آئے ہیں۔محققین نے کہا کہ وہ ان امکانات کی بھی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا روزے کے مفید اثرات صرف مدافعتی نظام کی بہتری کے لیے ہیں یا پھر اس کے اثرات دیگر نظاموں اور اعضاء پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔یہ تحقیق 'سیل پریس جرنل' کے جون کے شمارے میں شائع ہوئی ہے۔
Voice of America
                                                      

زیادہ دیر تک ٹیلی ویژن دیکھنے سے عمر کم ہو جاتی ہے: نئی تحقیق

آسٹریلیا کے سائنس دانوں نے ایک نئے تحقیقاتی رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ جتنا زیادہ ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں وہ اتنا ہی جلد موت کے منہ میں جاسکتے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہر وہ گھنٹہ جو کوئی شخص ٹیلی ویژن دیکھتے ہوئے گزارتا ہے اس کے قبل از وقت موت کے خطرے میں اضافہ کرتا ہے۔ اس مطالعاتی جائزے کا اہتمام میلبرن میں بیکر آئی ڈی آئی ہارٹ اینڈ ڈایابیٹیس انسٹی ٹیوٹ نے کیا تھا۔

اس مطالعے کے دوران ماہرین نے آسٹریلیا کے آٹھ ہزار سے زیادہ بالغ افراد پر چھ سال تک تحقیق کی۔ اس تحقیق کے نتائج باقاعدگی سے ٹیلی ویژن دیکھنے والوں کے لیے انتہائی پریشان کن ہوسکتے ہیں۔ نتائج سے یہ ظاہر ہوا کہ اس مدت کے دوران سب سے زیادہ ٹیلی ویژن دیکھنے والوں کا انتقال نسبتاً کم عمر میں ہوا۔میلبرن کی اس تحقیق کے سربراہ پروفیسر ڈیوڈ ڈنسٹن تھے، جن کا کہنا تھا کہ قبل از وقت مو ت کے اس خطرے پر کی جانے والی اس تحقیق میں زیادہ دیر تک ٹیلی ویژن دیکھنے کے علاوہ زندگی کے لیے خطرے کے دوسرے عوامل کو شامل نہیں کیا گیا تھا، مثلاً خون کا دباؤ، کولسٹرول کی سطح، خوراک، ورزش اور تمباکو نوشی وغیرہ۔

پروفیسر ڈنسٹن کہتے ہیں کہ ٹیلی ویژن کے سامنے صوفے پر بہت زیادہ دیر تک بیٹھے رہنا صحت کے لیے نقصان دہ ہوسکتاہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مطالعاتی جائزے سے پہلی بار ٹیلی ویژن دیکھنے اور قبل از وقت موت کے خطرے میں اضافے کے درمیان کسی تعلق کے واضح شواہد سامنے آئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جو لوگ روزانہ چار گھنٹے یا اس سے زیادہ وقت تک ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں، ان میں دوسرے عوامل سمیت، جلد مرنے کا خطرہ 46 فی صد زیادہ ہوتا ہے۔ اور دل کی بیماری میں مبتلا افراد میں ایسی صورت میں جلد ہلاک ہونے کا خطرہ 80 فی صد تک بڑھ جاتا ہے۔آسٹریلیا کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مناسب ورزش نہ کرنے اور بہت زیادہ دیر تک بیٹھے رہنے کے درمیان ایک فرق ہے جو ان کے خیال میں جسم کے قدرتی معمولات، مثلاً خوراک میں موجود گلوکوز کو الگ کر کے اسے استعمال کرنے کے عمل کو متاثر کرتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی اور معاشرتی اور اقتصادی تبدیلیوں کے نتیجے میں لوگ اب اپنے جسمانی پٹھوں کو اتنا زیادہ استعمال نہیں کر رہے جتنا کہ پہلے کیا کرتے تھے۔

دوسرے متمول ملکوں کی طرح آسٹریلیا میں بھی موٹاپے میں مبتلا بچوں اور بالغ افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ آسٹریلیا کے تقریباً 70 فی صد مرد وزن کی زیادتی یا فربہی کا شکار ہیں، جب کہ کل خواتین میں سے تقریباً نصف کا وزن طبی ماہرین کے تجویز کردہ محفوظ وزن سے زیادہ ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ آسٹریلیا کے تقریباً ایک چوتھائی بچے وزن کے مسائل میں مبتلا ہیں۔ کچھ ڈاکٹروں نے خبردار کیا ہے کہ نوعمر بچوں کی یہ موجود نسل تاریخ کا وہ پہلا گروپ بن سکتی ہے جو موٹاپے کی بڑھتی ہوئی سطح کے باعث اپنے والدین کی نسبت کم عرصہ زندہ رہے گی، کیوں کہ ان کا کہنا ہے کہ موٹاپا، ذیابیطس، دل کی بیماری اور صحت کی دوسری بہت سی پیچیدگیاں پیدا کرتا ہے۔صحت کی نگہداشت سے متعلق تنظیمیں حکومت پر زور دے رہی ہیں کہ وہ خاندانوں کے لیے نئے راہنما ضابطے فوری طور پر جاری کرے جن سے نوعمر افراد کو ٹیلی ویژن اور کمپیوٹروں کا استعمال کم کرنے کی ترغیب مل سکے۔
 
Voice of America

 


فَبِأَيِّ آلاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

٭نہیں کوئی چیز نکمی قدرت کے کارخانے میں٭

کوئی برا نہٰیں ، قدرت کے کارخانے میں

 

پاکستان میں بائیو پر کام کرنے والے ادارے متوجہ ھوں

چین نے انسانی فضلے سے بجلی بنانے کے حیرت انگیز منصوبے پر کام شروع کر دیا

05 فروری 2015 (18:29)

بیجنگ (نیوز ڈیسک) چین نے انسانی فضلے سے بجلی بنانے کے منصوبے پر کام شروع کردیا ہے۔بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ انسانی فضلے جیسی بے کار چیز شاید ہی کوئی اور ہو لیکن سائنسدان ”بے کار“ چیز کو توانائی اور سونے میں بدلنے کی مکمل تیاریاں کرچکے ہیں۔
جرمن انجینئر ہینز پیٹر مانگ چینی دارالحکومت منتقل ہوچکے ہیں کیونکہ ایک تو یہاں فضلہ حیرت انگیز حد تک زیادہ مقدار میں دستیاب ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ یہاں حکام اس بات سے پریشان ہیں کہ اتنے فضلے کو ٹھکانے کیسے لگایا جائے۔ ہینز فضلے کو کھاد میں بدلنے کے کام کا آغاز پہلے ہی کرچکے ہیں اور عنقریب اس سے بجلی کی پیداوار بھی شروع ہوجائے گی۔
انجینئر ہینز کا کہنا ہے کہ اگلے پانچ سالوں میں فضلے سے بجلی بنانے کی صنعت چار گناہ پھیل چکی ہوگی۔ دوسری جانب امریکا کی ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی کی حالیہ تحقیق نے ثابت کردیا ہے کہ فضلے کے تجزیے کے بعد اس میں سے سونا بھی نکالا جاسکتا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق 10 لاکھ آبادی کا شہر ایک سال میں اپنے فضلے سے تقریباً ڈیڑھ کروڑ ڈالر (تقریباً ڈیڑھ ارب روپے) مالیت کا سونا حاصل کرسکتا ہے۔ یقیناً یہ تحقیقات پاکستان جیسے ملک کیلئے لمحہ فکریہ ہیں جہاں بے حساب فضلہ ہونے کے باوجود غربت اور لوڈشیڈنگ کا راج ہے۔

انسانی فضلے سے چلنے والی برطانیہ کی پہلی 'بائیو بس '

سیوریج کے فضلے سے حاصل ہونے والی گیس ماحول دوست ایندھن ہے، جس سے ماحولیاتی آلودگی کم کرنے میں مدد ملے گی
برطانیہ کی پہلی انسانی فضلے اور غذائی کچرے سے چلنے والی 'بائیو بس' جمعرات کے دِن سے سڑکوں پر آگئی ہے۔
برطانیہ کی پہلی بائیو بس کا ایندھن 'بائیو میتھین گیس' ہے، بائیو میتھین گیس سیوریج اور ضائع شدہ غذائی فضلے سے حاصل ہونے والا ایندھن ہے۔
انجینروں نے امید ظاہر کی ہے کہ بائیو بس پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے ایک پائیدار ایندھن ثابت ہو سکتی ہے۔
چالیس نشستوں پر مشتعمل بائیو بس پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پر برسٹل ایئرپورٹ سے باتھ اور سمر سیٹ کے درمیان چلے گی، یہ بس ایک ٹینک سے 190 میل یا 305کلو میٹر کا فاصلہ طے کرے گی۔
انجینئروں کا کہنا ہے کہ سیوریج کے فضلے سے حاصل ہونے والی گیس ماحول دوست ایندھن ہے، جس سے ماحولیاتی آلودگی کم کرنے میں مدد ملے گی، کیونکہ بائیو بس ڈیزل اور پیٹرول انجن کے مقابلے میں کم اخراج کو پیدا کرتی پے۔
توقع یہ بھی ظاہر کی گئی ہے کہ بائیو بس کے ذریعے ایک ماہ کے دوران  لگ بھگ 10,000 مسافر سفر کی سہولت حاصل کر سکیں گے۔
ذرائع کے مطابق ،برسٹل میں واقع پروسسنگ پلانٹ 75 ملین کیوبک میٹرز سیوریج فضلے اور  35,000 ٹن ضائع ہو جانے والی غذا جو انسانی صحت کے لیے مضر ہے اسے استعمال کرتے ہوئے ہر سال 17 ملین ٹن بائیو میتھین گیس تیار کرے گا۔۔
انسانی فضلے سے چلنے والی بائیو بس متعارف کروانے والی توانائی کی فرم      'جینیکو' ویسیکس واٹر اینڈ سیوریج کا ایک ذیلی ادارہ ہے، جو پچھلے سات برسوں سے ایک ایسا نظام تشکیل دینے پر کام کر رہا ہے،جس کے ذریعےبچے کچے کھانوں اور سیوریج کے فضلے کو صاف اور قابل استعمال توانائی میں تبدیل کیا جاسکے۔
 اگرچہ بائیو گیس کوئی نئی چیز نہں ہے،اس کا استعمال دنیا بھر میں صدیوں پہلے بھی کیا جاتا رہا ہے، بالخصوص برطانیہ میں بجلی آنے سے پہلے بائیو گیس کو زیر زمین نکاسی کے پائپوں میں سے نکال کر توانائی کی ضرورت پورا کی جاتی تھی۔
فرم کے انجینئیرز نے بتایا کہ طاقتور بائیو ایندھن حاصل کرنے کے لیے عمل انہضام کے قدرتی عمل کا استعمال کیا گیا ہے اس طریقے سے آکسیجن کی غیر موجودگی میں مادے کو توڑنے کے لیے بیکٹریا کا استعمال کیا جاتا ہے ۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ توانائی کے متبادل ذرائع کے فروغ  کے طور پر بائیو بس لانچ کرنے والی توانائی کی کمپنی برطانیہ کا پہلا ادارہ بن گئی ہے جو نشنل گیس گرڈ کے لیے  بھی میتھین گیس کی فراہمی کر رہا ہے۔
جینیکو کمپنی کے جرنل مینجر محمد صدیق نے'برسٹل پوسٹ' کو بتایا کہ ہم انسانی استعمال کے ناقابل خوراک اور سیوریج کے فضلے کے ذریعے نشنل گیس نیٹ ورک کو بائیو متھین کی قابل قدر فراہمی کرنے کے قابل ہیں جو 8,300 گھروں اور بائیو بس کو توانائی فراہم کرنے کے لیے کافی ہوگی۔
بائیو گیس دراصل جانوروں کے فضلے یا کوڑے کرکٹ سے توانائی کا حصول ہے۔ میتھین گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ اور ہائیڈروجن اور دوسری گیسوں کا مرکب ہے، جس کا اہم جزو میتھین ہے۔ اس گیس کی کوئی بو نہیں، اور دھواں پیدا کئے بغیر جلتی ہے۔
Dialy paksitan


انسانی فضلے میں کروڑوں کا سرمایہ پوشیدہ ،سائنسدانوں کا تہلکہ خیز انکشاف


24 مارچ 2015 (19:36)

ڈینور (نیوز ڈیسک) انسانی فضلے کو محض بدبو اور بیماری کا سبب سمجھا جاتا ہے لیکن امریکی سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ یہ تو ایک خزانہ ہے جس سے سالانہ اربوں ڈالر کمائے جاسکتے ہیں۔یو ایس جیولوجیکل سروے کے لئے کام کرنے والی کیتھلین سمتھ کہتی ہیں کہ ان کی ٹیم نے انسانی فضلے میں پلاٹینم، چاندی اور سونا دریافت کیا ہے اور ان کا اندازہ ہے کہ دس لاکھ افراد کے فضلے سے تقریباً ڈیڑھ کروڑ ڈالر (تقریباً ڈیڑھ ارب پاکستانی روپے) مالیت کی قیمتی دھاتیں حاصل ہوسکتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ماحول اور خوراک میں پائی جانے والی ہر قسم کی دھاتیں ہمارے جسم سے ہوتی ہوئی فضلے میں خارج ہوجاتی ہیں اور اگر ہم انہیں فضلے سے علیحدہ کرلیں تو سالانہ اربوں ڈالر کا سونا اور دیگر دھاتیں حاصل ہوتی ہیں۔
 انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ سونے اور چاندی جیسی دھاتوں کے علاوہ موبائل فونز اور کمپیوٹرز کی صنعت میں استعمال ہونے والا تانبا اور ونیڈیم بھی فضلے سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ کیتھلین سمتھ اور ان کی ٹیم کی یہ تحقیق امریکن کیمیکل سوسائٹی کی 249ویں سالانہ میٹنگ میں پیش کی گئی ہے اور اس نے دنیا بھر کے سائنسدانوں کی توجہ حاصل کرلی

Daily Pakistan

حرام اور حلال کے اثرات
مغرب کے پاس حلال اور حرام کا تصور نہیں ہے اور میری تھیوری ہے کہ جس وقت حرام رزق جسم میں داخل ہوتا ہے وہ انسانی genes کو متاثر کرتا ہے۔ رزق حرام سے ایک خاص قسم کی mutation ہوتی ہے جو خطرناک ادویات، شراب اور radiation سے بھی زیادہ مہلک ہے۔ رزق حرام سے جو genes تغیر پذیر ہوتے ہیں وہ لولے لنگڑے اور اندھے ہی نہیں ہوتے بلکہ ناامید بھی ہوتے ہیں۔ نسل انسانی سے یہ جب نسل در نسل ہم میں سفر کرتے ہیں تو ان genes کے اندر ایسی ذہنی پراگندگی پیدا ہوتی ہے جس کو ہم پاگل پن کہتے ہیں۔ یقین کرلو رزق حرام سے ہی ہماری آنے والی نسلوں کو پاگل پن وراثت میں ملتا ہے۔ اور جن قوموں میں من حیث القوم رزق حرام کھانے کا لپکا پڑ جاتا ہے، وہ من حیث القوم دیوانی ہونے لگتی ہیں۔

بانو قدسیہ کے ناول، راجہ گدھ سے اقتباس

صبح جلدی کیسے اٹھا جائے؟

آن لائن اخبار ’ہفنگٹن پوسٹ‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق بہت سے لوگوں کے لیے نہ صرف صبح اٹھنا مشکل ہوتا ہے بلکہ انہیں صبح کے وقت بجنے والے الارم کو بند کرنے میں بھی دقت ہوتی ہے۔
ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے صبح جلدی اٹھنا ایک مشکل امر ہوتا ہے۔ الارم کی آواز تکلیف دیتی ہے۔ بہت سے لوگ الارم کی پہلی آواز پر نہیں اٹھتے بلکہ الارم بند بھی کر دیتے ہیں۔آن لائن اخبار ’ہفنگٹن پوسٹ‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق بہت سے لوگوں کے لیے نہ صرف صبح اٹھنا مشکل ہوتا ہے بلکہ انہیں صبح کے وقت بجنے والے الارم کو بند کرنے میں بھی دقت ہوتی ہے۔

بہت سے لوگ مختصر وقفے کے بعد الارم بجنے والے بٹن کو دباتے رہتے ہیں۔ اس بٹن کے لیے انگریزی میں ’سنوز‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ’سنوز‘ بٹن دبانے سے الارم وقفے وقفے کے بعد بجتا ہے۔آن لائن اخبار کہتا ہے کہ سُنوز بٹن دبانے سے انسان کو فائدے کی بجائے زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ مگر ایسا کیوں ہے؟

کیس ویسٹرن سکول آف نرسنگ میں نیند سے متعلق ماہر مائیکل ڈیکر کہتے ہیں کہ، ’صبح کے وقت جب آپ کی آنکھ کھلتی ہے اور جس وقت بہت سے لوگ عادت سے مجبور ہر کر سُنوز کا بٹن دباتے ہیں، وہ لمحات بہت اہم ہوتے ہیں اور اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ آپ کا پورا دن کیسا گزرے گا‘۔الارم کو بار بار بند کرنے اور سُنوز کا بٹن دباتے رہنے کی عادت سے چھٹکارا پانے کے لیے ماہرین روزمرہ کی زندگی میں چند تبدیلیاں لانے کا مشورہ دیتے ہیں۔

جلدی سونے کی عادت اپنائیے
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر آپ صبح صحیح وقت پر اٹھنا چاہتے ہیں تو آپ کو جلد سونے کی عادت اپنانی چاہیئے۔ اس سے نیند کا دورانیہ درست رہتا ہے اور آپ صبح ہشاش بشاش اٹھتے ہیں۔

صبح کے وقت سست روی کا مظاہرہ کریں
 ماہرین کہتے ہیں کہ صبح الارم کی پہلی آواز کے ساتھ اٹھنا اور تیزی سے تمام امور نمٹانا ممکن نہیں ہے۔ اپنے آپ کو وقت دیجیئے، آرام سے اٹھیئے اور بے شک سست روی سے اپنے کاموں کا آغاز کیجیئے۔ لیکن اس کے لیے بستر سے نکلنا شرط  ہے۔
 صبح کی روشنی کمرے میں آنے دیجیئے
ماہرین کہتے ہیں کہ ایک اچھی صبح کے آغاز کے لیے ضروری ہے کہ آپ صبح اٹھ کر اپنے کھڑکی کے پردے سرکائیے اور روشنی کو اندر آنے دیجیئے۔
Voice of America



سبحان اللہ !انسانیت کہاں سے شروع ہوئی؟سائنس نے بھی اسلام کی بات مان لی

03 فروری 2015 (19:01)
لندن (نیوز ڈیسک) قرآن کریم نے آج سے 14 صدیاں قبل فرما دیا کہ بنی نوع انسان کا آغاز آدم علیہ السلام و حواءعلیہ السلام سے ہوا، جنہیں آسمان سے زمین پر اتارا گیا مگر جدید سائنس اس نظریے کی طرف مائل ہو گئی کہ نسل انسانی بندروں میں کسی جینیاتی تبدیلی کے باعث وجود میں آئی۔اب برطانیہ کی یونیورسٹی آف شیفیلڈ کی ایک تازہ ترین تحقیق نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ انسان کی پیدائش جانوروں کی کسی بھی دوسری نسل کے ذریعے نہیں ہوئی بلکہ اس تحقیق کے مطابق آج سے لاکھوں سال پہلے XY کروموسوم والا مرد اور XX کروموسم والی عورت موجود تھی جو نسل انسانی کی ابتداءتھی۔ واضح رہے کہ حال ہی میں سائنسی جریدے ”امریکن جرنل آف ہیومن جنیٹکس“ میں ایک تحقیق شائع ہوئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ مردانہ Y کروموسوم کا آغاز انسان کی بجائے کسی دوسری نسل سے ہوا تھا۔ لیکن اب تازہ ترین تحقیق نے اس نظریے کو غلط ثابت کر دیا ہے اور واضح کر دیا ہے کہ نسل انسانی کا ایک ہی باپ ہے اور اس کے Y کروموسوم کا آغاز جانوروں کی کسی بھی دوسری نسل سے نہیں ہوا۔تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر ایل ہائیک نے بتایا کہ ابھی سائنس یہ دریافت نہیں کر سکی کہ انسانییت کے جد امجد کا ظہور کس طرح ہوا لیکن یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ نسل انسانی کا آغاز ایک شخص سے ہوا اور اس کا کروموسوم کسی دوسرے جانور سے نہ آیا تھا۔ یہ تحقیق ”ہیومن جرنل آف جنیٹکس“ میں شائع کی گئی ہے۔
DAILY PALSTAN

کاکروچ کے دماغ میں شفا بھی

 ۱۵ مارچ ۲۰۱۵
ڈاکٹر نوید کی ٹیم یہ راز معلوم کرنے میں کامیاب ہوگئی کہ کاکروچ کا مدافعاتی نظام مضبوط کیوں ہے؟
Description: Description: http://ichef.bbci.co.uk/news/ws/200/amz/worldservice/live/assets/images/2015/03/31/150331124811_pakistan_cockroach_reseach_anibiotic__640x360_bbc.jpgکراچی کی آغا خان یونیورسٹی کے محقق ڈاکٹر نوید احمد خان کو جراثیم کی کھوج نے اپنے بچوں کے باتھ روم سے کاکروچ کے دماغ تک پہنچا دیا ہے۔بائیولوجیکل اینڈ بائیو میڈیکل سائنس کے شعبے پروفیسر نوید احمد خان بتاتے ہیں کہ جب ان کے بچے ہوئے تو ہر دوست یہ مشورہ دیتا تھا کہ انہیں غیر صحت مند ماحول میں نہ چھوڑیں اور اینٹی بیکٹیریل صابن دیں۔’میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ ہم تو اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان جراثیموں اور جانداروں کو تو قدرتی طور پر تحفظ مل رہا ہے جو ان کی اتنی افزائش نسل ہو رہی۔ یقیناّ ان کے اندر کوئی مضبوط مدافعاتی نظام موجود ہے جو انہیں محفوظ رکھتا ہے۔‘
نوید احمد خان برطانیہ کے محکمۂ دفاع کے ساتھ بھی منسلک رہے۔ ان کے مطابق افغانستان اور افریقہ سے کئی برطانوی سپاہی انفیکشن کے ساتھ واپس برطانیہ آئے اور انہیں روایتی اینٹی بائیوٹکس دی گئیں لیکن وہ موثر ثابت نہیں ہوسکیں۔میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ ہم تو اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان جراثیموں اور جانداروں کو تو قدرتی طور پر تحفظ مل رہا ہے جو ان کی اتنی افزائش نسل ہو رہی یقین ان کے اندر کوئی مضبوط مدافعاتی نظام موجود ہے جو انہیں محفوظ رکھتا ہے۔نوید احمد خان
ان کے مطابق اس تجربے نے تحقیق کے لیے مزید راہ ہموار کی اور انہیں یہ خیال آیا کہ موجود صورتحال میں مؤثر اینٹی بائیوٹکس کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ان جانداروں پر کام کیا جائے جن کا مدافعاتی نظام فطری طور پر مضبوط ہے اور یہ پتہ لگایا جائے کہ ان میں کس نوعیت کے مالیکیول ہیں۔کاکروچ کا شمار کرہ ارض کے قدیم جانداروں میں ہوتا ہے جس کی افزائش نسل گندگی اور کچرے میں تیزی کے ساتھ ہوتی ہے۔ بعض محققین کا تو یہ بھی خیال ہے کہ ایٹمی حملے کے بعد بھی اگر کوئی جاندار بچ سکتا ہے تو وہ کاکروچ ہے۔ ان خوبیوں کی وجہ سے ڈاکٹر نوید احمد خان نے اپنی تحقیق کے لیے کاکروچ کا ہی انتخاب کیا۔
Description: Description: http://ichef.bbci.co.uk/news/ws/200/amz/worldservice/live/assets/images/2015/03/31/150331124850_pakistan_cockroach_reseach_anibiotic__640x360_bbc.jpgبعض محققین کا تو یہ بھی خیال ہے کہ ایٹمی حملے کے بعد بھی اگر کوئی جاندار بچ سکتا ہے تو وہ کاکروچ ہے
کراچی میں آغا خان یونیورسٹی کی لیبارٹری میں کاکروچ کے جسم کے تمام حصوں اور خون کو الگ کر کے ان کا مشاہدہ کیا گیا اور بالاخر ڈاکٹر نوید کی ٹیم یہ راز معلوم کرنے میں کامیاب ہوگئی کہ کاکروچ کا مدافعاتی نظام مضبوط کیوں ہے؟
ڈاکٹر نوید احمد خان کا کہنا ہے کہ کاکروچ کے دماغ سے انہیں 9 اینٹی بیکٹریل مالیکول ملے ہیں جن کی وہ اب شناخت کر رہے ہیں تا کہ مستقبل میں ان کا کیمیائی تجزیہ کرسکیں اور جب کیمیکل کی شناخت ہوجائےگی تو اس کو تیار کرکے مارکیٹ میں مہیا کیا جاسکے گا۔

9 اینٹی بائیوٹکس کی دریافت

ڈاکٹر نوید احمد خان کا کہنا ہے کہ کاکروچ کے دماغ سے انہیں 9 اینٹی بیکٹریل مالیکول ملے ہیں جن کی اب شناخت کر رہے ہیں تاکہ مستقبل میں ان کا کیمیائی تجزیہ کرسکیں اور جب کیمیکل کی شناخت ہوجائےگی تو اس کو تیار کرکے مارکیٹ میں مہیا کیا جاسکے گا۔
امریکانا نسل کے کاکروچ کی افزائش آغا خان لیبارٹری کے صاف ستھرے ماحول میں کی جاتی ہے اور اسے 30 روز کے کاکروچ تجربے کے لیے موزون سمجھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر نوید کے مطابق ہوسکتا ہے کہ غیر صحت مند ماحول میں پائے جانے والے کاکروچ میں اس سے زیادہ مدافعاتی مالیکولز ہوں۔
ان محققین کا کہنا ہے کہ کاکروچ سے ملنے والے مالیکیول انسانی جسم میں انفیکشن پیدا کرنے والے ’ایم آر ایس اے‘ اور ’ای کولائی‘ بیکٹریا کے خاتمے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔
پاکستان میں ہر سال لاکھوں افراد ہیضے، ہیپاٹائٹس، ٹائیفائیڈ، ملیریا، نمونیا اور ٹی بی کا شکار ہوتے ہیں، جن سے نجات یا روک تھام کے لیے انہیں اینٹی بائیوٹکس کا سہارا لینا پڑتا ہے لیکن بعض مریضوں میں یہ جراثیم اس قدر طاقتور ہوچکے ہیں کہ ان پر روایتی اینٹی بائیوٹکس اثر نہیں کرتیں۔
آغا خان کے شعبے پیتھالوجی اینڈ لیبارٹری میڈیسن کی پروفیسر زہرہ حسن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اینٹی بائیوٹکس کا غلط اور مقررہ مقدار سے کم استعمال عام ہے۔ بقول ان کے اگر اینٹی باییوٹکس کا کسی جراثیم کے خلاف غلط یا کم استعمال کریں یا کورس مکمل نہ کیا جائے تو جراثیم کو مزاحمت کا موقع ملتا ہے اور وہ طاقتور ہوجاتا ہے جس وجہ سے اینٹی بائیوٹکس اس پر اثر نہیں کرتے۔
اینٹی بائیوٹکس کو متعارف کرانا انتہائی طویل اور مہنگا کام ہے، اس لیے اس پر تحقیق بھی محدود ہے۔ ڈاکٹر نوید احمد خان کا کہنا ہے کہ مالیکیول کی شناخت اور کیمیکل کی تیاری کے بعد اس کو جانوروں اور بعد میں کسی رضاکار پر آزمایا جائے گا اور اس پورے مرحلے میں ابھی کم سے کم دس سال کا عرصہ درکار ہے۔
Description: Description: http://ichef.bbci.co.uk/news/ws/200/amz/worldservice/live/assets/images/2015/03/31/150331124940_pakistan_cockroach_reseach_anibiotic__640x360_bbc.jpgمالیکیول کے شناخت اور کیمیل کی تیاری کے بعد اس کا جانوروں اور بعد میں کسی رضاکار پر آزمایا جائے گا اس پورے مرحلے میں ابھی کم سے کم بھی دس سال کے عرصہ درکار ہے

2015 بی بی سی







           

کم کھانا لمبی  اور صحت مند زندگی کا راز

ماہر حیاتیات ڈاکٹر مارگو ایڈلر کہتی ہیں کہ کم کھانا جسم کے خلیات کو نقصان دہ تباہی اور کینسر کے خطرے سے بچاتا ہے اور صحت مند بڑھاپے کا سبب بنتا ہے
سائنسدانوں کا کہنا ہےکہ اگر آپ لمبی زندگی جینا چاہتے ہیں تو جان بوجھ کر کم کھانا شروع کر دیں، کیونکہ  کم خوراکی سےبڑھتی عمرکے جسم پر پڑنے والے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔آسٹریلیا کی 'نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی'  کی ایک نئی تحقیق سے معلوم  ہوا ہے کہ  کم کھانا صحت مند اور لمبی زندگی گزارنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ اس طرح، جسمانی نظام مسلسل مرمت ہوتا رہتا ہے خاص طور پر کم حراروں پر مشتمل خوراک طویل اور صحت مند زندگی گزارنے کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہے۔
 تحقیقی مطالعے کی سربراہ، ماہر حیاتیات ڈاکٹر مارگو ایڈلر کہتی ہیں کہ کم کھانا جسم کے خلیات کو نقصان دہ تباہی اور کینسر کے خطرے سے بچاتا ہے اور صحت مند بڑھاپے کا سبب بنتا ہے۔ ممکن ہے کہ خوراک کی مقدار میں کمی کا خیال بہت سے لوگوں کو اچھا نا لگے۔ لیکن، ان کی تحقیق کا نتیجہ آگے چل کر اینٹی ایجنگ ادویات بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ خوراک کی مقدار میں کمی سےخلیات کی ری سائیکلنگ کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے اور جسم کےمرمت کا منظم عمل بھی زیادہ تیزی سے کام کرتا ہے جس سے انسان کی طویل اور صحت مند زندگی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
 ایڈلر نے کہا کہ  ارتقائی ایام میں خوراک کی کمی کے باعث جانوروں کو پیدائش کےعمل کے دوران اسی طریقے سے مدد ملتی تھی اور ان کا جسم  قدرتی ری سائیکلنگ کے تحت خلیات میں ذخیرہ شدہ غزائی اجزاء کو دوبارہ استعمال کرتا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ  انسانی صحت کے نقطہ نظر سے ممکن ہے کہ توسیع عمر صرف غذائی پابندی کا ایک ضمنی اثر ہو لیکن خلیات کے ری سائیکلنگ کے نظام اور اس کے اثرات کو سمجھنا ضروری ہے جس میں لمبی اور طویل زندگی کا راز پوشیدہ ہوسکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ۔اوٹافوجی
autophagy  کے نامی عمل اچانک کسی وجہ سے ماں کی نال سے غذائی اجزا کی فراہمی سے محروم  ہونے والے نوزائیدہ بچوں کی بقا کے لیے اس وقت بہت ضروری ہوتا ہے جب وہ دودھ  پینے کے قابل نہیں ہوتے۔ اس بیچ کے عرصے میں بچے اپنے ہی خلیات میں ذخیرہ شدہ غذائیت سے توانائی حاصل کرتے ہیں۔
 
'جرنل بائیو ایسیس' میں وہ لکھتی ہیں کہ عام طور پریہ نظریہ ارتقائی دور میں قحط کے دوران بقا کی حد تک قابل قبول سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ، تجربہ گاہ میں ایسے شواہد حاصل ہو چکے ہیں کہ غذائی پابندی توسیع عمر میں مددگار ہے جبکہ سائنسدان بہت عرصے سے یہ بات جانتے ہیں کہ انتہائی محدود خوراک کھانے سے کینسر میں کمی آسکتی ہے اور ذیا بیطس کے مریضوں میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ایسے لوگ جو محدود حراروں والی غذا کے ساتھ ورزش کرتے ہیں وہ ہائی بلد پریشر، ذیا بیطس، کولیسٹرول اور دل کی شرح کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ یہ عوامل دائمی بیماریوں کے خطرے کو کم کرتے ہیں۔ لیکن، کم خوراکی کے ضمنی اثرات میں ڈپریشن ، چکر آنا یا ہڈیوں کی کمزوری کی علامات ظاہر ہو سکتی ہیں۔
 سال 2012کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کم حراروں والی غذا عمر بڑھنے کی رفتار کو سست بنادیتی ہےاسی طرح ایک اور مطالعے کے نتیجے میں کہا گیا ہے کہ  20 سے 30 فیصد لمبی زندگی جینے کے لیے خوراک کی مقدار کا 40 فیصد کم کرنا ضروری ہے۔

VOA URDU


کینسر جیسا موذی مرض خود بہ خود بھی ختم ہوجاتا ہے،تحقیق

سائنسدان پُرامید ہیں کہ وہ مزید تحقیق کرکے کینسر کے علاج کے انوکھے طریقے دریافت کرسکتے ہیں۔
ویب ڈیسک  ہفتہ 7 مارچ 2015

Description: Description: http://express.pk/wp-content/uploads/2015/03/334271-caner-1425664597-923-640x480.jpg
کینسر کی ایک اور قسم جو خود بہ خود ختم ہوجاتی ہے وہ بچوں میں عام ہے جسے ’نیوروبلاسٹوما‘ کہتے ہیں۔ فوٹو:فائل
واشنگٹناگر کینسر کو میڈیکل سائنس کا سب سے بڑا چیلنج کہا جائے تو یہ غلط نہ ہوگا لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کینسر کے ایک لاکھ مریضوں میں سے ایک کا کینسر خود بخود ختم ہوجاتا ہے اور یہ واقعات دیکھ کر ماہرین بھی حیران ہیں کیونکہ اس کی وجہ معلوم ہوجائے تو سرطان میں جکڑے انسانوں کو اس خوفناک مرض سے آزادی دلائی جاسکتی ہے۔
حال ہی میں امریکا کے اسپتال میں ایک 74 سالہ ضعیف العمر خاتون کو لایا گیا جن کی دائیں ٹانگ پر رستے ہوئے جامنی رنگ کے گُومڑ تھے اور ان رسولیوں میں کینسر تھا جب کہ اس کینسر میں کیموتھراپی مؤثر نہ تھی اور نہ ہی زخم کا باہر سے علاج کرنا ممکن تھا اور اس کا واحد حل یہ تجویز کیا گیا کہ ٹانگ کاٹ دی جائے اور ڈاکٹرز مریضہ کو اسے سے متعلق آگاہ کرتے ہوئے ٹانگ کاٹنے کے مناسب وقت کا انتظار کرنے لگے۔
ڈاکٹر جہاں مریضہ کو اس مرض سے نجات دلانے کے لیے اس کے آپریشن کا انتظار کررہے تھے وہیں ایک حیران کن چیز بھی سامنے آئی کہ اس خاتون کی سرطان زدہ رسولی آہستہ آہستہ چھوٹی ہوتی گئی اور ڈاکٹروں کے مطابق صرف 20 ہفتوں میں کینسر کا نام و نشان تک نہ تھا جسے  دیکھ کر تمام ماہرین حیران رہ گئے کیونکہ خاتون کی اسکیننگ اور باؤپسی میں سرطان کے کوئی آثار نہ تھے۔
خاتون کے مطابق وہ کینسر کے بعد ایک روحانی معالج کے پاس گئی تھیں اور وہ اسے خدا کا کرشمہ قرار دیتی ہیں لیکن ماہرین اسے ’ ازخود پلٹاؤ‘ یا “spontaneous regression” قرار دیتے ہیں، اس عمل کو سمجھنے کے بعد وہ اسے بڑے پیمانے پر استعمال کرسکیں گے تاکہ لوگوں کی اکثریت کو کینسر کے پنجے سے چھٹکارا دلایا جاسکے۔ نظری طور پر ہمارے جسم کا دفاعی امنیاتی نظام تبدیل ہونے والے خلیات (سیلز) کو تلاش کرکے خود ان کا علاج کرسکتا ہے لیکن یہ کینسر زدہ سیلز خلیات  بدن میں چھپے رہتے ہیں اور صرف اسی وقت ظاہر ہوتے ہیں جب پانی سر سے بلند ہوجاتا ہے اور وہ مکمل طور پر سرطانی رسولی میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔
اسی طرح برطانیہ میں ایک خاتون بچہ دانی میں ٹیومر کی وجہ سے بے اولاد تھیں لیکن اس سے پہلے کہ ان کا ٹیومر نکالا جاتا انہوں نے ایک صحت مند بچے کو جنم دیا، اس واقعے میں بھی ان کے جسم کے اندر موجود سرطانی رسولی ختم ہوگئی اور یہ رسولی دورانِ حمل ختم ہوکر غائب ہوگئی۔
امریکا میں ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں جن میں مختلف اقسام کے کینسر خود بخود ختم ہوگئے جن میں ’لیوکیمیا‘ یعنی خون کا سرطان بھی شامل ہے، اس میں خون کے سفید خلیات بے ہنگم انداز میں بڑھنے لگتے ہیں۔ واشنگٹن یونیورسٹی میں ارمین رشیدی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ایسے 46  واقعات ہیں جن میں لیوکیمیا ختم ہوگیا اور ان میں سے صرف 8 افراد ہی کینسر واپس آنے سے بچ سکے یعنی باقی آگے چل کر دوبارہ سرطان کا شکار بنے۔
کینسر کی ایک اور قسم جو بچوں میں عام ہے اسے ’نیوروبلاسٹوما‘ کہتے ہیں یہ اعصابی نظام اور ہارمونز غدود میں ہونےوالی رسولیوں سے پیدا ہوتا ہے اور پھیلتے پھیلتے یہ جلد اور جگر تک پہنچتا ہے جس سے بچے کو سانس لینے میں مشکل ہوتی ہے۔ یہ کینسر کا عجیب مرض ہے جو بہت تیزی سے آتا ہے اور فوری ختم بھی ہوجاتا ہے جب کہ  اس کا غائب ہونا اتنا عام ہے کہ ڈاکٹرایک سال سے کم عمر بچوں کے لیے کیموتھراپی شروع کرنے کا انتظار کرتے ہیں۔ لیکن ماہرین اس کے لیے فطرت کا انتظار نہیں کرنا چاہتے وہ ان ایجنٹس کو جاننا چاہتے ہیں جو بچوں میں کینسر ختم کرتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق نیوروبلاسٹوما میں رسولی میں خلیات (سیلز) نروگروتھ فیکٹر (این جی ایف) کے بغیر زندہ رہنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے، یوں ان ٹیومرز میں خودبخود ختم ہونے کی صلاحیت کسی قدرتی تبدیلی کی وجہ سے ہوتی ہے اور غالباً ان میں سیل کے ریسپٹرز شامل ہوتے ہیں اگر کوئی دوا ان ریسیپٹرز کو ہدف بناسکے تو مرض کو فوری طور پر دور کیا جاسکتا ہے۔
تحقیق کے بعد معلوم ہوا ہے کہ لیوکیما سے چھٹکارا پانے والے 90 فیصد مریض فوری طور پر نمونیا میں مبتلا ہوجاتےہیں جب کہ دوسری تحقیق کے مطابق اگربلڈ کینسر میں مبتلا بچے ملیریا، خناق، ہیپاٹائٹس، انفلوئنزا اور خسرہ سمیت دیگر مرض کا شکار ہوتے ہیں تو پھر ان میں نیوروبلاسٹوما ختم ہوجاتا ہے یعنی ایک بیماری انہیں کینسر سے لڑنے کی طاقت دیتی ہے لیکن یہاں ایک اور سوال ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ خیال ہے کہ یہ انفیکشن جسم کے دفاعی نظام کو کینسر سے لڑنے کی طاقت دیتا ہے۔ سائنسدان پُرامید ہیں کہ وہ مزید تحقیق کرکے کینسر کے علاج کے انوکھے طریقے دریافت کرسکتے ہیں۔
کینسر کے ازخود ختم ہونے کے  یہ واقعات بہت نایاب ہیں جو تقریباً ایک لاکھ لوگوں میں سے صرف ایک ہی کے ساتھ ہوتا ہے اس لیے اگر آپ خون کے کینسر کے کسی بھی ڈاکٹر سے پوچھیں کہ بلڈ کینسر خودبخود ختم ہوسکتا ہے تو 99 فیصد ماہرین اس کا جواب نفی میں ہی دیں گے۔
EXPRESS URDU

نابینا کو مصنوعی آنکھ،اب وہ دنیا دیکھ سکتا ہے

24 اپریل 2014 (17:17)
نیویارک(بیورورپورٹ)جدیدسائنس کی معجزائی ترقی نے کئی سال سے نابینا شخص کو دوبارہ دیکھنے کے قابل بنادیا۔ آنکھوں کی ایک خطرناک بیماری کے باعث نابینا ہوجانے والے امریکی شہری پون ٹز کو ایک ایسی مصنوعی آنکھ لگادی گئی ہے کہ جس کے باعث اب وہ اپنی اہلیہ، پتے اور اپنی پیاری بلی کو دوبارہ دیکھنے کے قابل ہوگیا ہے۔ پچپن سالہ پون ٹز جو کہ ایک ویٹ لفٹر اور فیکٹری ملازم رہے ہیں۔ نے اپنی بینائی بحال ہونے پر انتہائی خوشی کا اظہار کیا۔ اس نے کہا کہ یہ ایک ناقابل یقین حد تک خوش کن تجربہ ہے کہ وہ روزانہ نئی نئی چیزیں دیکھ سکتا ہے۔ پون ٹز ان چار خوش قسمت لوگوں میں سے ایک ہے جن کو ابتدائی طور پر یہ تجربانی مصنوعی آنکھ لگائی گئی ہے۔ پون ٹز آنکھوں کی جس بیماری کا شکار ہے اس کے مریض آہستہ آہستہ بینائی سے محروم ہوتے ہوئے تقریباً نابینا ہوجاتے ہیں، یہ ایک موروضی بیماری ہے۔ ہون ٹز کو لگائی گئی مصنوعی آنکھ ایک چھوٹے ویڈیو کیمرہ اور ٹرانسمیٹر پر مشتمل ہے جو کہ ایک عینک نما آلے میں نصب ہے۔ پون ٹز کو اس کی نظر کی بحالی کے عمل میں اس کی بیوی کا بھی مکمل تعاون حاصل رہا۔
پاکستان ڈیلی

 

نفسياتي اور روحاني طريقہٴ علاج

حاليہ تحقيق سے ثابت ہوا ہے کہ اِن دونوں طريقہٴعلاج کي بنياد ايک جيسي ہے اور بہت سے طبي ماہرين جديد نفسيات کو قديم بدھ مت ميڈيٹيشن سے ملا کر لوگوں کو صحت مند، خوشحال اور بامقصد زندگي گزارنے ميں اُن کي مدد کرتے ہيں
شہناز نفيس, واشنگٹن
نفسياتي اور روحاني طريقہٴ علاج دونوں بظاہر امريکي ثقافت کا اہم حصہ ہے ۔

بيشتر لوگوں کي نظر ميں يہ دونوں بلکل مختلف طريقے ہيں۔ تاہم، حاليہ تحقيق سے ثابت ہوا ہے کہ اِن دونوں طريقہ ٴعلاج کي بنياد ايک جيسي ہے اور بہت سے طبي ماہرين ’ماڈرن سا کيئٹري ‘يعني جديدنفسيات کو قديم بدھ مت ميڈيٹيشن سےملا کر لوگوں کو صحت مند، خوشحال اوربامقصد زندگي گزارنے ميں ان کي مدد کرتے ہيں۔

بہت سے لوگوں کي نظر ميں تبت کے راہبوں کي آوازوں اورمراقبے کا ايک ماہر نفسيات کے ويٹنگ روم سے کوئي تعلق نہيں ليکن ايسا نہيں ہے ۔ ايک امريکي ڈاکٹر جوزف لئيزو ماہر نفسيات ہونے کے ساتھ ساتھ مذہب اور بدہ مت ميں ڈاکٹريٹ کي ڈگري بھي رکھتے ہيں۔ وہ  کہتے ہيں کہ ادويات کے ساتھ روحاني طريقوں کو ملا کر ، علاج کو موٴثربنايا جا سکتا ہے۔

اُن کی  ايک نئي کتاب
Sustainable Happiness نفسيات اور بدھ مت کو ملا کر ايک مفصل کلينيکل پريکٹس کے طريقہٴ علاج پر مشتمل ہے۔يہ کتاب ا ُنھوں نے کئي عشروں کي تحقيق کے بعد لکھي ہے۔

اِس کتاب ميں ڈاکٹر جوزف کہتے ہيں کہ انساني زندگي کے پسِ منظر ميں سب سے بڑا مسئلہ اس حقيقت کا سامنا کرنا ہے کہ انسان فطري طور پر جنگل ميں زندگي گزارنے کے عمل سے مطابقت رکھتے ہوئے پيدا ہوا تھا، ليکن تہذيب و تمدن ميں ترقي کے باعث ، ہم بظاہر بڑے غير فطري حالات ميں رہ رہے ہيں اور بہت سے لوگوں کے ليے يہي بات يعني غير فطري حالات ميں زندگي گزارنا ، ذہني تناؤ کي بنيادي وجہ ہو سکتي ہے ۔

 ڈاکٹر جوزف اپني کتاب ميں لکھتے ہيں کہ ويسے تو ذہني تناؤ جبلتي طور پر ہميں خطرناک حالات سے نمٹنے کے ليے تيار کرتا ہے۔
تاہم، تہذيب و تمدن ميں تيز رفتار تبديلي اور ترقي کي وجہ سے ذہني دباؤ کے ليے  ہمارا ردِ عمل نا کافي ثابت ہو رہا ہے اور يہي وجہ ہے کہ خطرنات حالات ميں ہم اپنا ردِعمل کنٹرول نہيں کر پاتے۔ مثلا ًدل کا دھڑکنا ، پسينے کا آنا اور سانس کا پھولنا،  وغيرہ۔

ڈاکٹر جوزف کہتے ہيں کہ اس ذہني دباوٴ کي وجہ سے ہم ڈپريشن اور انزا ئيٹي کے امراض قلب اور بلند فشار خون کے عارضے ميں مبتلا ہو سکتے ہيں اور اس وجہ سے ادويات کے ساتھ ساتھ روحاني طريقوں کو ملا کر علاج کو موٴثر بنايا جا سکتا ہے۔

اِسي طرح، آج کل مسلمان ممالک ميں قرآن پاک کي تلاوت اور وظائف کو  نفسياتي بيماريوں کے علاج لے ليے مفيد خيال کيا جاتا ہے اور ذہني سکون حاصل کرنے کے ليے اسے اچھا وسيلہ سمجھا جاتا ہے۔ بہت سے ماہرين جديد دواوٴں کے ساتھ ساتھ مسلمان مريضوں کے ليے ايک روحاني تھيراپي کے طور پر اِس کي سفارش بھي کرتے ہيں۔



امریکہ

ہنسی، مذاق نہیں ہے:تحقیقی رپورٹ

اچانک ہنسی کا دورہ صحت کے لیے خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے جس سےدل پھٹ سکتا ہے یا دمے کا دورہ اور بے ہوشی طاری ہو سکتی ہے
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہنسنا اور دل کھول کر ہنسنا کبھی کبھی زندگی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ طب کی دنیا میں کی جانے والی ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ  ہنسی کے نام نہاد فوائد سب پر یکساں نہیں ہو سکتے ہیں۔

آکسفورڈ یونیورسٹی سے وابستہ محققین نے مریضوں میں ہنسی کے فوائد کا جائزہ لینے کے بعد بتایا ہے کہ ہنسنے کو ایک بہترین دوا سمجھنے والوں کو اس بات سے حیرانی ہو سکتی ہے کہ ہنسنا سو فیصد فائدہ مند نہیں ہے بلکہ اچانک ہنسی کا دورہ صحت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے جس سے دل پھٹ سکتا ہے یا دمے کا دورہ اور بے ہوشی طاری ہو سکتی ہے۔

برٹش میڈیکل جرنل کے کرسمس کی اشاعت کے خاص ایڈیشن میں ہنسنے کے فوائد اور نقصانات کا جائزہ لینے کے حوالے سے ایک سائنسی رپورٹ پیش کی گئی ہے۔

سائنسدانوں کو 1946 سے رواں برس تک مریضوں پر کیے جانے والے ایک تجربے سے پتا چلا ہے کہ اچانک قہقہوں کی وجہ سے نرخرا یا دل پھٹ سکتا ہے جبکہ دوران قہقہ تیزی سے سانس لینے سے دمے کا دورہ پڑ سکتا ہے اس کے علاوہ دیگر نقصانات میں ہرنیا، درد شقیقہ کا بڑھنا یا جبڑے کی ہڈی بھی اتر سکتی ہے۔

تاہم برمنگھم اور آکسفورڈ سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ درجنوں تحقیقی مطالعوں میں ماہرین کی جانب سے ہنسی کو ایک اچھی دوا کے طور پر تجویز کیا گیا ہے جس سےقلبی اور نفسیاتی  تناؤ کی کیفیت میں آرام آتا ہے۔ ہنستے رہنے سے بلڈ پریشر کم رہتا ہے اور دل کے دورے کا خطرہ بھی کم ہو جاتا ہے ۔

مسخروں کے ہمراہ کیے جانے والے اس تجربے سے ثابت ہوا کہ مسخروں کی وجہ سے مریضوں کے پھپھڑوں کے افعال میں بہتری آئی اسی طرح دن بھر کی حقیقی ہنسی 200 کیلوریز جلانے کے کام آئی اسی طرح ذیا بیطس کے مریضوں میں بلڈ شوگر بھی کم ہوئی۔

انھوں نے مزید کہا کہ اچانک سے ہنستے رہنا  اور بے قابو قہقہوں کے باعث پیٹ پر دباؤ پیدا ہوتا ہے جس سے آنتوں کی نقل وحرکت بڑھ سکتی ہے۔

محققین نے کہا کہ ان کا جائزہ اس نظریہ کو چیلنج کرتا ہے کہ ہنسنا ایک مکمل طور پر فائدہ مند نسخہ ہے تاہم کسی بھی شکل کے مزاح کا فائدہ نقصان سے کہیں زیادہ بڑا ہوتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہنسنا دل کی ضرورت ہے لیکن پھر بھی ہنسی مذاق نہیں ہے۔

 سائنسدانوں نے نتیجے میں کہا کہ ’’ہنسنا خالصتاً فائدہ مند نہیں ہے لیکن ہنسی کے فوائد عام طور پر فرض کر لیے جاتے ہیں جن کا حقیقی طور پر مظاہرہ نہیں ہوتا ہے لیکن اس کے نقصانات فوری نوعیت کے ہوتے ہیں اگرچہ تحقیق کے نتیجے میں ہنسنے کے فوائد اور نقصانات کی درجہ بندی پیش کی گئی ہے پھر بھی کچھ لوگ اس کے فوائد کو نظر انداز کرنے کی غلطی کر سکتے ہیں جبکہ دوسری جانب ہنسی کے نقصانات کو مسترد کیا جا سکتا ہے لہذا ہما را مشورہ یہی ہے کہ ہنسیں بہادری کے ساتھ۔‘‘

امریکہ



کیا آپ کو معلوم ہے انسانی دماغ دنیاکے تیز تر ین کمپیوٹر سے کتنا تیز ہے؟جواب جان کر آپ بھی حیران رہ جائیں گے

Description: Description: http://media.dailypakistan.com.pk/assets/dailypakistan/uploads_cdn/digital_news/2015-02-17/news-1424172686-5838_large.jpg
نیویارک(نیوزڈیسک)دنیا میں بہت اعلیٰ اور تیز کمپیوٹر بنائے جا چکے ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ انسانی دماغ دنیا کے کسی بھی تیز ترین کمپیوٹر سے تیز تر ہے۔حال ہی میں جاپان اور جرمنی کے سائنسدانوں نے اس بات کا مظاہرہ مختلف تجربات میں کیا ہے۔سائنسدانوں نے جاپان کے سپر کمپیوٹر K computerکے 82ہزار پروسیسرز کا استعمال کرتے ہوئے انسان کے دماغ کا صرف ایک فیصد حصے کا ماڈل بناکر ایک سیکنڈ کے لئے دماغ کی کارکردگی کا جائزہ لے سکے۔
سائنسدانوں نے اعصابی خلیوں سے ملتے جلتے 1.73ارب خلیے اور 10.4کھرب synapses(اس کے ذریعے نیوران کے درمیان الیکٹرک سگنل پاس ہوتا ہے)بنائے اور ان میں ہر ایک 24بائیٹ میموری پر مشتمل تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ انسانی دماغ کی صرف ایک سیکنڈ کی کارکردگی دیکھنے کے لئے سائنسدانوں کو 40منٹ تک انتظار کرنا پڑا۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انسانی دماغ سپر کمپیوٹر سے کروڑوں درجے تیز ہوتا ہے۔
انسانی دماغ 86ارب سے زائد نیوران اور کھربوں synapsesسے مل کر بنتا ہے اور اس میں کھربوں طرح کے راستے ہوتے جن سے سگنل گزرتے ہیں یعنی ایک معمولی عمل کے لئے بھی دماغ کھربوں سگنلز کے ذریعے کام کرتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تجربے سے انہیں علم ہوا کہ عام انسانی دماغ ایک سپر کمپیوٹر سے بھی زیادہ تیز ہے ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ تجربہ بہت حوصلہ افزاءہے کہ اس طرح انہیں artificial intelligenceکو مزید بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ان کا کہنا ہے کہ انسانی دماغ کا ماڈل بہت پیچیدہ اور اعلیٰ معیار کا ہے اور اگر اسے کسی مشین کے ساتھ مطابقت دینے میں کامیابی ہوجاتی ہے تو مستقبل میں سائنس میں بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کی جاسکتی ہیں

انسانوں کے لیے موسیقی کے مضر اثرات سامنے آ گئے،سائنس نے بھی اقرار کر لیا
 12 فروری 2015 (20:08)

Description: Description: http://media.dailypakistan.com.pk/assets/dailypakistan/uploads_cdn/digital_news/2015-02-12/news-1423753708-3581_large.jpgبوسٹن (نیوز ڈیسک) موسیقی کو عام طور پر تو باعث لطف اور تھکے ماندے ذہن کیلئے سکون قرار دیا جاتا رہا مگر ایک حالیہ تحقیق میں اسے باتیں بھولنے اور خصوصاً راستہ بھولنے جیسے مسائل کی وجہ بھی قرار دے دیا گیا ہے کیونکہ موسیقی اور یادداشت میں گڑ بڑ کا واضح تعلق سامنے آگیا ہے۔ جارجیا ٹیک یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق موسیقی کی موجودگی میں توجہ قائم رکھنا مشکل ہوجاتا ہے اور دماغ خصوصاً ایسوسی ایٹو میموری میں گڑ بڑ کا شکار ہوجاتا ہے۔
ایسوسی ایٹو میموری یادداشت کی وہ قسم ہے جس میں ہم چہروں یا تصاویر وغیرہ کو الفاظ کے ساتھ منسلک کرتے ہیں۔ مثلاً کسی کا چہرہ دیکھ کر اس کا نام ذہن میں ابھرنے کا عمل ایسوسی ایٹو میموری کے ذریعے ہوتا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ جوان لوگوں کی یادداشت پر موسیقی کا اثر نسبتاً کم ہوتا ہے مگر عمر بڑھنے کا ساتھ اثرات شدید ہوتے جاتے ہیں۔ عمر رسیدہ افراد موسیقی کی موجودگی میں کسی کا چہرہ دیکھ کر اس کا نام یاد نہیں کرپاتے۔ اسی طرح جوان لوگ اگر موسیقی کے ساتھ پڑھنے کی کوشش کریں تو ان کی کارکردگی متاثر ہوگی، اگر آپ نے گاڑی میں موسیقی چلا رکھی ہے یا موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ہینڈفری کانوں میں لگا کر موسیقی سے لطف اندوز ہورہے ہیں تو عدم توجہی کے باعث حادثہ ہوسکتا ہے جبکہ موسیقی کی وجہ سے راستہ بھولنے کا امکان تو خاصا زیادہ پایا گیا ہے
P

قیلولہ اور یاداشت
قیلولے کے صحت پر اثرات
عندلیب آمنہ
جرمنی کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مختصرترین قیلولے سے بھی انسان کی ذہنی کارکردگی پرمثبت اثرپڑتا ہے۔رسالہ نیوسائنٹسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ دیکھنے میںآیا ہے کہ صرف چھ منٹ کے لئے آنکھیں بندرکرےآڑم کرنا بھی یادداشت پراچھا اثرڈالتا ہے،یعنی یہ مختصرترین قیلولہ بھی دماغ میںیادداشت کی صلاحیت بہترین بنادیتا ہے۔تاہم برطانیہ کے ایک تحقیق کارنے اس بات سے اتفاق نہیں کیا اورکہا کہ یادداشت پرمثبت اثرات کے لئے نسبتاً لمبی نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔
درجنوں تحقیقی کاموں میں نیند اوریادداشت کے باہمی تعلق کا کھوج لگانے کی کوشش کی گئی ہے اوراس بات کے واضح شواہد ملے ہیں کہ سونے اورجاگنے کا یہ سلسلہ اس ضمن میں اہم کردارادا کرتا ہے۔اس حالیہ تحقیق میں سائنس دانوں نے یہ پتا چلانے کی کوشش کی کہ کتنی کم سے کم نیند ہماری یادداشت پرقابل ذکراثرات مرتب کرسکتی ہے۔ان تحقیق کاروں نے کچھ رضاکاروں کواپنے تجربوں میں شامل کیا اوریہ دیکھا کہ ان چند رضاکاروں کی ذہنی کارکردگی جوچھ منٹ سولئے تھے،ان باقی رضاکاروں سے بہتررہی جوسونہیں سکے تھے۔
بعض سائنس دانوں کا نظریہ یہ ہے کہ ذہن میںیادداشت قائم رکھنے اوراسے نکھارنے کا عمل اس وقت شروع ہوتا ہے کہ جب انسان گہری نیند میں ہواورگہری نیند کا یہ مرحلہ اس وقت کے کم از کم بیس منٹ بعدآتا ہے،جب انسان سونا شروع کرتا ہے۔تاہم اس نئی تحقیق سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے کہا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ جونہی ایک شخص سوئے اس کے دماغ میں ایسا عمل شروع ہوجائے،جویادداشت پراچھااثرڈالے اوراس عمل میں نیند کی کمی بیشی کوکوئی دخل نہ ہو۔اس نے مزید بتایاکہ یہ پہلاموقع ہے کہ اس کے علم میںیہ بات آئی ہے کہ اس قدرکم وقفے کی نیند بھی یادداشت پراچھا اثرڈال سکتی ہے۔
ایک برطانوی سائنس داں نے کہا ہے کہ یہ نظریہ کہ صرف چھ منٹ کی نیند ذہنی کارکردگی کوبہتربناسکتی ہے دلچسپ اوراچھوتی بات ہے لیکن اس سلسلے میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے اورمزید تحقیق درکارہے۔کیونکہ ابھی تک سائنس داںیہی کہتے رہے ہیں کہ یادداشت کے عمل پربہتراثرات کے لئے چھ منٹ سے کہیں زیادہ نیند درکارہوتی ہے۔
FIKRO NAZAR






انٹرنیٹ کے نو عمر بچوں کی جنسی زندگی پر اثرات،جدید تحقیق نے رونگٹے کھڑے کر دینے والے انکشاف

31 مارچ 2015 (22:34)
لندن (نیوز ڈیسک) انٹرنیٹ کے ذریعے فحاشی کا پھیلاﺅ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اب بچے بھی اس کی لپیٹ میں آ رہے ہیں۔ بچوں کی فلاح کیلئے کام کرنے والے برطانوی ادارے NSPCC کے ذیلی ادارے ChildLine کے حالیہ سروے میں یہ تشویشناک انکشاف ہوا ہے کہ برطانیہ میں 12 سے 13 سال کے 10 فیصد بچے اور بچیاں فحش ویڈیوز کا حصہ بن چکے ہیں جبکہ تقریباً 20 فیصد نے بتایا کہ وہ فحش مواد کے عادی ہو چکے ہیں اوراس سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں سمجھتے۔
ادارے کے ڈائریکٹر پیٹر لیور کہتے ہیں کہ یہ خوفناک بات ہے کہ 12 اور 13 سال کے بچے فحش ویڈیوز کا حصہ بن رہے ہیں۔ یہ رجحان نہ صرف بچوں کی اخلاقی تباہی کا باعث بن رہا ہے بلکہ انہیں بدکردار اور خطرناک افراد کے چنگل میں بھی پھنسا رہا ہے۔ نوعمری میں جنسی درندوں کے چنگل میں پھنسے والی لڑکیاں خصوصی طور پر ایک ایسی دلدل میں دھنس جاتی ہیں جس سے نکلنا ان کیلئے ممکن نہیں رہتا۔
 یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ نوعمر لڑکے اور لڑکیاں بکثرت انٹرنیٹ کے ذریعے فحش مواد تک پہنچ رہے ہیں اور انہیں بچانے کیلئے والدین اور بزرگوں کیلئے ضروری ہے کہ ان کی ہر ممکن مدد کریں۔ پیٹر لیور کا کہنا ہے کہ ان کے ادارے کو ہر ماہ 18 ہزار سے زائد بچوں کے میسج موصول ہو رہے ہیں جو انٹرنیٹ اور خصوصاً سوشل میڈیا ویب سائٹوں کے ذریعے فحش مواد کی دلدل میں پھنس چکے ہیں اور مدد کے طلبگار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ہماری نوجوان نسل کے مستقبل کا معاملہ ہے اور اس ضمن میں ہم سب کو آنکھیں کھولنا ہوں گی۔

Daily paksitna


انٹرنیٹ ’خدا کا تحفہ‘ ہے: پاپائے روم

اپنے پیغام میں پوپ فرینسز کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ ’یک جہتی کے بہتر مواقع‘ فراہم کرتا ہے اور ’یہ بہت اچھی چیز‘ ہے۔
ویٹیکن کی جانب سے جمعے کے روز شائع کردہ ایک بیان کے مطابق پوپ فرینسز نے انٹرنیٹ کو ’خدا کا تحفہ‘ قرار دیا ہے۔ پوپ فرینسز نے یہ پیغام کیتھولک چرچ کے سالانہ کمیونیکیشن دن کے موقع پر دیا۔

اپنے پیغام میں پاپائے روم کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ ’یک جہتی کے بہتر مواقع‘ فراہم کرتا ہے اور ’یہ بہت اچھی چیز‘ ہے۔

پاپائے روم کا اپنے پیغام میں یہ بھی کہنا تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں عدم مساوات بڑھتی جا رہی ہے، میڈیا اتحاد کے فروغ کے لیے اپنا کردار ادا کر سکتا ہے اور اس سلسلے میں چند سنجیدہ اقدامات اٹھا سکتا ہے۔

سماجی تعلقات کی ویب سائیٹس کے بارے میں پوپ فرینسز کا کہنا تھا کہ سماجی تعلقات کی ویب سائیٹس کی کامیابی بتاتی ہے کہ ابلاغ انسان کی سرشت میں شامل ہے اور اسے صرف ٹیکنالوجی کی کامیابی نہیں کہا جا سکتا ہے۔

پاپائے روم کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی وجہ سے دنیا بھر کو مکالمے کا موقع ملا ہے۔


Daily apkstan



علم الانسان 

·        روبینہ نازلی

·        انسان پر جدید سائنسی تحقیقات

·        سائنسدان عرصہ دراز تک مادی جسم کو ہی  ً انسان  ً  قرار دیتے  رہے۔ وہ صدیوں  سے  یہی کہتے  چلے  آ رہے  تھے  کہ مادی جسم ہی آخری حقیقت ہے۔
·        لہذا برسوں  جدید سائنسی تحقیقات کا مرکز مادی جسم ہی رہا اور سائنسدان برسوں  مادی جسم پر تحقیق کر کے  مادی جسم کے  راز افشاں  کرتے  رہے  جس کے  نتیجے  میں  آج مادی جسم کا ہم کافی زیادہ سائنسی علم رکھتے  ہیں۔ جب کہ انسان کے  باطنی پہلو کو جانتے  ہی نہیں  اس کی وجہ یہ ہے  کہ سائنسدان برسوں  مادی جسم کو آخری حقیقت قرار دے  کر انسان کے  باطنی پہلو کو جھٹلاتے  رہے اور انسان کی روح کو غیر مرئی اور غیر تجرباتی کہہ کر رد کرتے  رہے۔ اور برسوں  بعد بلآخر سائنسدانوں  نے  ہی انسان کے  باطنی رُخ کا تجرباتی ثبوت فراہم کیا اور آج انسان پر سب سے  زیادہ تحقیقی، سائنسی اور تجرباتی کام اسی باطنی رخ پر ہو رہا ہے۔ اور یہ کام کر رہے  ہیں  ڈاکٹر اور سائنسدان(وہم پرست یا مذہبی روحانی شخصیات نہیں  جیسا کہ تصور کیا جاتا ہے )  
·        اگرچہ روحانی علوم یا ماورائی علوم مشرق سے  منسوب ہیں اور انسان کے  باطنی روحانی تشخص کی زیادہ تر معلومات بھی ہمیں  یہیں  سے  میسر آتی ہیں  لیکن جدید سائنسی تحقیقات کا مرکز مغرب ہی رہا ہے۔ لہذا اسی حوالے  سے  !  یورپ میں  کاپر نیکی (۱۵۴۳ء) وہ پہلا مفکر تھا جس نے  انسان کو روحانی  حقیقت ثابت کرنے  کی کوشش کی۔
·        گلیلیو (۱۵۶۲۔ ۱۶۴۲)، نیوٹن  ( ۱۶۴۲۔  ۱۷۲۷) ، ڈارون  (۱۸۸۲۔  ۱۸۰۹) اور کیپلر نے  بھی اس موضوع پر بحث کی۔ سر ولیم کرُکس وہ پہلے  سائنسدان تھے  جنہوں  نے  مادی دنیا پر روحانی اثرات کا سائنسی مطالعہ و تجزیہ کیا۔ ان کی کتاب (Research in the Phenomena of Spiritualism - 1874)  نے  بڑی مقبولیت حاصل کی۔ سرا لیور لاج کی کتاب (Raymond - 1861)   بھی اسی سلسلے  کی اہم کڑی ہے۔ ان دونوں   سائنسدانوں کی تحقیق اور تجربات پر اس مسلک کی بنیاد پڑی جسے  ماڈرن سپریچولزم کے  نام سے  پکارا جاتا ہے اور جو آجکل مغرب کی دنیا میں  بڑے  وسیع پیمانے  پر زیر مشق ہے۔
·        طعبیات کے  معروف سائنسدان سرالیور لاج کا کہنا تھا کہ جس طرح سائنسی طور پر تسلیم شدہ قوتیں  مثلاً مقناطیسی کشش یا الیکٹرک سٹی خفیہ انداز میں  کام کرتی ہیں  مگر سب انہیں  تسلیم کرتے  ہیں اور ان کے  وجود پہ ایمان رکھتے  ہیں  اسی طرح اس کائنات میں  بہت سی قوتیں  ایسی بھی ہیں  جو انتہائی پوشیدگی سے  اپنا کام سرانجام دے  رہی ہیں۔ مگر بظاہر ان کے  وجود کا سراغ نہیں  ملتا محض اسی وجہ سے  ان کا انکار کرنا نادانی ہو گی۔ لاج کا خیال تھا کہ اس موضوع پر ٹھوس تحقیقات کا آغاز ہونا چاہئے۔ اُسی نے  کہا میں  نہیں  سمجھتا کہ سائنسیات اور روحانیات ابھی تک پوری طرح تعصب سے  آزاد ہو سکی ہیں  میرے  خیال میں  ان دونوں  کے  درمیان ایک خفیہ ربط موجود ہے۔ لاج نے  یقین ظاہر کیا کہ ایسا وقت ضرور آئے  گاجب خالص سائنسی انداز میں  اس پہلو پر تحقیق کی جائے  گی اور اس بارے  میں  سنجیدگی سے  سوچا جائے  گا۔
·        اور وہ وقت آ گیا درحقیقت انگلینڈ کے  اعلیٰ ترین اعزاز نائٹ ہڈ (Knight Hood) سے  نوازے  گئے  معروف طبعیات دان لاج نے  خود خالص سائنسی انداز میں  انسان کی روحانی خصوصیات  پر تحقیق کا آغاز کر دیا تھا۔ اگرچہ ان کے  ساتھی سائنسدان سائنس کی بجائے  انہیں  روحانی چکروں  میں  پڑا دیکھ کر خبطی سمجھنے  لگے  تھے۔ جب کہ ایک اہم سائنسدان کی روحیت کی طرف بھرپور پیش قدمی کے  نتائج سامنے  آنے  لگے اور سائنسی انداز میں  اس موضوع پر تحقیق اور تجربات کا آغاز ہوا۔  لہذا سراولیور لاج سوسائٹی فار سائیکیک ریسرچ ان انگلینڈ Society for Psychic Research in England  کے  بانی ممبران میں  سے  سراولیورلاج کے  ہم خیال کئی اہم نام اُبھرے  مثلاً ڈبلیوایچ مائرز(Fredrick W.H. Myers) نے  اس کام کو مزید آگے  بڑھایا۔ مائرز نے  اپنی کتاب (Human Personality and its Survival of Bodily Death) میں  سینکڑوں  واقعات کا سائنسی تجزیہ کرنے  کے  بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جسمانی موت کے  بعد انسان کی شخصیت کا وہ حصہ باقی رہتا ہے  جسے ’ سپرٹ‘(Spirit)   کہتے  ہیں۔ اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔
·        دو عالمگیر جنگوں  کے  بعد روحانیت پر ہزاروں  کتابیں  منظر عام پر آئیں اور یہ کتابیں  لکھنے  والے  مذہبی انتہا پسند یا وہم پرست عوام نہیں  بلکہ یہ سائنسدان، ڈاکٹر، فلسفی اور پروفیسرز تھے۔ لہذا ن معتبر لوگوں  کی مسلسل توجہ، سائنسی تحقیق اور تجربوں  سے  اس علم نے  عملی تجرباتی دنیا میں  قدم رکھ دیا اور باقاعدہ لیبارٹریوں  میں  سائنسی بنیادوں  پر تجربات ہونے  لگے۔
·        مادام بلاوٹسکی اور ایڈگر کیسی (ورجینیا   18 مارچ  1877 ) نے  بھی روحانی صلاحیتوں  کے  عملی تجرباتی مظاہروں  سے  اُس وقت کے  ڈاکٹروں  سائنسدانوں  کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی۔ جس مرض کے  علاج میں  میڈیکل ڈاکٹر ناکام رہ جاتے  یہ روحانی معالج نہ صرف یہ کہ مرض دریافت کرتے  بلکہ اس لاعلاج مریض کا علاج بھی کر ڈالتے۔ انہوں  نے  ماضی اور مستقبل کے  واقعات کی نشاندہی بھی کی۔ خوابوں  کے  اثرات، رنگ و روشنی سے  علاج اور مسمریزم کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے  اٹھارویں  صدی کے  آخر میں  سائنسدانوں  کو انسان کے  اندر موجود مقناطیسیت سے  متعارف کروایا۔
·        لہذا سائنسدانوں  نے  انسان کے  اندر موجود اس مقناطیسیت کو الیکٹرو میگنیٹک فیلڈ (E. M. F) اور بائیوانرجی کے  نام دیئے اور جدید سائنسی تحقیقات کے  بعد بلآخر سائنسدانوں  نے  اعلان کیا کہ ایک لطیف توانائی ہمارے  جسم میں  سرائیت کئے  ہوئے  ہے۔ چونکہ یہ نظریہ اس دور کے  ٹھوس مائع گیس کسی سے  مناسبت نہیں  رکھتا تھا لہذا ابتداء میں  انسان کے  اندر دریافت شدہ اس لطیف توانائی کا نام’ایتھر‘  (Ether)رکھا گیا اور اس لطیف باطنی وجود کو  ایتھرک باڈی (Etheric Body)کہا جانے  لگا اس دور کے  روحانی علوم کے  ماہرین (مادم بلاوٹسکی اور ایڈگرکیسی وغیرہ) نے  اس ایتھری  وجود پر مقالے  بھی تحریر کئے۔ یعنی برسوں  انسان کے  مادی جسم کو آخری حقیقت قرار دینے  والے  سائنسدانوں  نے  خود انسان کے  باطنی تشخص کا اقرار کیا اور وہ موضوع جسے  کچھ عرصہ پہلے  توہم پرستی قرار دیا جاتا تھا وہ موضوع انیسویں  صدی میں  بھرپور طریقے  سے  سائنسدانوں  کی توجہ کا موضوع بنا۔ لہذا اس موضوع پر ہزاروں  کتابیں  منظر عام پر آئیں  مقالے  لکھے  گئے  سائنسی طرز کی تحقیقات تجزئے اور تجربات  باقاعدہ لیبارٹریوں  میں  کئے  گئے اور یہ محض نقطہ آغاز تھا۔ لہذا۱۹۳۰ء کی دہائی میں  روس میں  کیرلین نامی الیکٹریشن نے  اتفاقی طور پر ایک ایسا کیمرہ ایجاد کیا جس نے  انسان کے  اس باطنی وجود کی تصویر کشی بھی کر لی جس کا تذکرہ ہزاروں  برس سے  ہو رہا تھا۔ کر لین فوٹوگرافی کے  ذریعے  انسان کے  باطنی وجود کو واضع طور پر دیکھا گیا۔ یہ انسان کے  جسم سے  جڑا ہوا بالکل مادی جسم کے  جیسا ہیولا نُما دوسرا انسان تھا ایک لطیف روحانی وجود  جسے  سائنسدانوں  نے  AURA کا نام دیا۔ فزکس کی شاخ میٹا فزکس نے  AURA کو بائیو پلازمہ کا نام دیا۔ ۱۹۰۰ء سے  اب تک سائنسدان اسے  مختلف ناموں  سے  پکار رہے  ہیں  مثلاً الیکٹرو میگنیٹک فیلڈ (E. M. F)  یا  (H. E. F)  یا بائیوانرجی یا بائیو پلازمہ، وائٹل فورس، اوڈک فورس، قوئنٹ ایسنس، ففتھ ایلیمنٹ یا جسم اثیر (Etheric Body)  جب کہ بنیادی نام  AURA  ہے۔ اب اس  AURA  پر سائنسی بنیادوں  پر تحقیقات جاری ہیں۔ اب اسی Aura   میں  مزید چکراز (Chakras) اور سبٹل باڈیز Subtle Bodies   بھی دریافت کی گئی ہیں۔ جدید سائنسی طریقوں  سے   AURA  کو اس کی خصوصیات اعمال و افعال کو اور مادی جسم کے  ساتھ اس کے  تعلق کو سمجھنے  کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اور اس سلسلے  میں  لیبارٹریوں  میں  سائنسی بنیادوں  پر کام ہو رہا ہے۔
·        مثلاً اسپریچول ایسوسی ایشن آف گریٹ برٹن کی وسیع عمارت میں  کئی لیکچر ہال، بیس پچیس کیبن نما کمرے  ہیں  یہاں  روحانی تجربات ہوتے  ہیں۔ لندن میں  سوسائٹی فار دی سائیکیل ریسرچ نے  روحانیت پر سائنسی تجربات کا آغاز 1882 میں  کیا۔ ہالینڈ میں  مکالمہ ارواح کا فن سائنس کی شکل اختیار کر گیا  لہذا حیرت انگیز سائنسی تجربات کئے  گئے۔
·        امریکہ کی دو خواتین ٹروڈی گرس ورلڈ اور باربرامارک نورانی مخلوقات سے  رابطہ کروانے  کی ماہر ہیں  یہ اپنی پرائیویٹ پریکٹس سان ڈیاگو کیلی فورنیا اور ویسٹ پورٹ میں  کرتی ہیں۔ امریکہ، لندن، انگلستان، ہالینڈ اور روس کے  علاوہ یورپ کے  کئی دوسرے  ملکوں  میں  بھی پیراسائیکالوجی(روحانیت ) کے  ادارے  بڑے  پیمانے  پر کام کر رہے  ہیں۔ ایٹمی لیبارٹریوں  کی طرح پیراسائیکالوجیکل ریسرچ کے  بعض پروگرام انتہائی راز داری میں  رکھے  جاتے  ہیں اور بعض بڑی طاقتیں  اب اس سائنس کو اپنے  سفارتی تعلقات، بین الاقوامی معاملات، جنگی اور جاسوسی کے  معاملات میں  بھی استعمال کر رہی ہیں  مثلاً امریکہ کا  CIA  کا خفیہ جاسوسی کا ادارہ (Sun Streak/Stargate)   روحانی استعداد رکھنے  والے  جاسوسوں  کو جدید سائنسی طریقوں  سے  روحانی تربیت دے  کر روحانی سراغ رسانی کا کام لیتا ہے۔ اور یہ روحانی سراغ رساں  اپنے  روحانی وجود AURA   کو استعمال میں  لا کر دشمن کے  خفیہ منصوبوں  کا گھر بیٹھے  سراغ لگاتے  ہیں۔ یہ دشمن کے  ہتھیاروں  کو گھر بیٹھے  ناکارہ بنا سکتے  ہیں۔ یہ حکمرانوں  کے  دماغوں  کو گھر بیٹھے  کنٹرول کر سکتے  ہیں۔ یہ گھر بیٹھے  اپنے  دشمن کو شکست دے  سکتے  ہیں۔ یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور انسان اپنی روحانی صلاحیتوں  کو استعمال میں  لا کر مریخ پر بھی جا پہنچا اور ہماری لاعلمی کی انتہا  یہ ہے  کہ ہم آج بھی اسے  توہم پرستی کہہ رہے  ہیں جب کہ ہماری بے  خبری اور لاعلمی کے  سبب آج ہماری سلامتی دشمن کے  ہاتھوں  میں  ہے۔ آج دنیا بھر میں  انسان کے  باطنی رخ پر نہ صرف روحانی بلکہ سائنسی تجربات ہو رہے  ہیں  ا ور سائنسدان ایٹم کی طرح انسان کے  اندر جھانک کر اس وسیع و عریض دنیا کو حیرت سے  دیکھ رہے  ہیں حالانکہ ابھی سمجھ نہیں  پا رہے۔ دنیا بھر میں  اسی موضوع پر کتابیں  تحریر کی جا رہی ہیں  رسالے  نکالے  جا رہے  ہیں  ان موضوعات پر فلمیں اور ڈرامے  بھی بنائے  جا رہے  ہیں۔ اور مختلف ٹی وی چینلز پر اب سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے  عنوان سے  کیسز یا دستاویزی پروگرام بھی آتے  ہیں۔ ان تحقیقات سے  نہ صرف آج کے  لوگ استفادہ کرتے  ہیں  بلکہ روحانی معلومات بھی حاصل کرتے  ہیں۔
·        صرف یورپ اور امریکہ میں  روحانی اداروں  سے  وابستہ افراد کی ممبرشپ ایک کروڑسے  زیادہ ہو چکی ہے۔
·        جدید تحقیقات کے  نتائج۔ جدید تحقیقات قدیم ادوار کے  کاموں  کی تصدیق کر رہی ہیں  لہذا آج ہر دور کا کام موضوع بحث ہے اور سائنسدان ماہرین محققین بلا تعصب آج ہر دور کے  کام کا جائزہ لے  کر انسان کی حقیقت سمجھنے  کی کوشش میں  مصروفِ کار ہیں۔
Confirm the reference


اگر آپ بھی ہر وقت ہیڈ فونز لگا کر گانے سنتے رہتے ہیں تو یہ تشویشناک خبر آپ کے لیے ہے

01 مارچ 2015 (18:57)
لندن(نیوزڈیسک)میوزک سننا آج کل ہر انسان کی عادت بنتا جا رہا ہے لیکن کچھ لوگ ہر وقت اپنے کانوں کو ہیڈ فونز لگا کر رکھتے ہیں جو ایک بری عادت ہے۔ اس سے نہ صرف ہم اپنے گردونواح سے بے خبر ہوجاتے ہیں بلکہ یہ ہمارے کانوں کے لئے بھی انتہائی نقصان دہ ہے۔ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ایک گھنٹے سے زائد ہیڈ فونز میں اونچی آواز سے گانے سننے سے بہرا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ والیم صرف 60فیصد تک بلند کیا جائے اور ایسے کنسرٹس سے اجتناب کیا جائے جہاں اونچی آواز میں میوزک لگایا جاتا ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 1.1ارب لوگوں کو سننے کے مسائل کا سامنا ہے۔عالمی ادارہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ بات انتہائی ضروری ہے دوران فلائیٹ ایسے ہیڈ فونز دینے سے اجتناب کیا جائے جو سماعت کے لئے انتہائی خطرناک ہوسکتے ہیں۔یورپی یونین نے اس سلسلے میں تمام کمپنیوں کو پابند کرنا شروع کردیا ہے کہ وہ صارفین کو اس خطرے سے آگاہ کریں کہ اونچی آواز میں میوزک سننے سے ان کی قوت سماعت شدید حد تک متاثر ہوسکتی ہے۔ماہرین سماعت کا کہنا ہے کہ اونچی آواز سے کان میں موجود چھوٹے چھوٹے سیل شدید متاثر ہوتے ہیں اور ان کی دوبارہ افزائس بھی بری طرح متاثر ہونے سے انسان کے بہرہ ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔انہوں نے تمام ایسے لوگوں کو متنبہ کیا ہے جو اونچی آواز میں میوزک سنتے ہیں کہ اس عادت سے چھٹکارہ حاصل کر لیں ورنہ ان کی سماعت ہمیشہ کے لئے بھی متاثر ہوسکتی ہے۔
Daily apkstaina


ٹی وی سے دوستی کم، زندگی کا دورانیہ زیادہ: تحقیق

تحقیق کے نتائج میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو افراد دن میں دو گھنٹے ٹی وی دیکھتے ہیں ان میں وقت سے پہلے مرنے کی شرح دن میں ایک گھنٹہ ٹی وی دیکھنے والوں کی نسبت 40 فی صد زیادہ تھی
اسپین میں کی جانے والی ایک نئی تحقیق بتاتی ہے کہ ہر روز ٹیلی ویژن کے سامنے تین سے چار گھنٹے گزارنے سے زندگی کا دورانیہ کم ہو سکتا ہے اور انسان وقت سے پہلے موت کے منہ میں جا سکتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جو لوگ کم ٹی وی دیکھتے ہیں ان کی نسبت زیادہ ٹی وی دیکھنے والے زیادہ خطرے کا شکار ہو سکتے ہیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ کسی بھی انسان کے لیے زیادہ بیٹھنا درست نہیں مگر گاڑی چلاتے وقت بیٹھنا یا پھر کمپیوٹر پر بیٹھنا اتنا نقصان دہ نہیں جتنا کہ ٹیلی ویژن کے سامنے دیر تک بیٹھنے سے نقصان ہوتا ہے۔

تحقیق دانوں نے اس تحقیق کے لیے
37 برس کی اوسط عمر کے لوگوں کے اعداد و شمار اکٹھا کرکے اس کا جائزہ لیا۔
ڈاکٹر میگیوئل گونزالز پیمپلونا میں یونیورسٹی آف نوارا سے منسلک ہیں اور اس تحقیق کی سربراہی کر رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ، ’ہم نے اس موضوع پر تحقیق اس لیے کی کیونکہ اس سے پہلے محض معمر افراد اور زیادہ دیر تک ٹیلی ویژن دیکھنے کے اثرات کا جائزہ لیا گیا تھا۔ مگر ہم یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ آیا نوجوانوں کو بھی اس عادت سے نقصان پہنچ سکتا ہے یا نہیں؟‘

ڈاکٹر میگیوئل گونزالز اور ان کی ٹیم کی جانب سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہر روز ٹی وی کے سامنے دو گھنٹے گزارنے سے انسان کی زندگی میں وقت سے پہلے موت کا
13 فی صد امکان بڑھ جاتا ہے۔ دوسری طرف اگر ہر روز ٹی وی کے سامنے تین گھنٹے یا اس سے زیادہ وقت گزارا جائے تو پھر یہ شرح مزید بڑھ جاتی ہے۔
اس تحقیق کے لیے تحقیق دانوں نے 1999ء سے لے کر اب تک 13,284 افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا۔
تحقیق کے نتائج میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو افراد دن میں دو گھنٹے ٹی وی دیکھتے ہیں ان میں وقت سے پہلے مرنے کی شرح دن میں ایک گھنٹہ ٹی وی دیکھنے والوں کی نسبت 40 فی صد زیادہ تھی۔
اس تحقیق میں جن افراد کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا ان کی روزمرہ زندگی کی عادات، کھانے پینے کی عادات، عمر، وزن، تمباکو نوشی اور ورزش کی روٹین جیسی چیزوں کا بھی تعین کیا گیا۔

تحقیق دانوں کا کہنا ہے کہ ان کی جانب سے کی گئی تحقیق کے نتائج یہ ثابت نہیں کرتے کہ ٹی وی دیکھنے سے انسان وقت سے پہلے مر سکتا ہے۔ مگر ان دونوں چیزوں کے درمیان ربط ضرور پتہ چلتا ہے۔

یہ تحقیق جرنل آف دی امریکن ہارٹ ایسو سی ایشن میں شائع کی گئی۔
Voa




چاندی کے چمچ سے کھانا کھانےکا بڑا نقصان سائنسدانوں نے بتا دیا

12 فروری 2015 (20:05)
لندن (نیوز ڈیسک) شاہد آپ نے کبھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ کھانے کے ذائقے کا انحصار اس کے اجزاءکے علاوہ ان برتنوں پر بھی ہوتا کہ جن میں آپ اسے کھائے ہیں مگر ایک تازہ ترین سائنسی تحقیق کے مطابق برتن بہت اہم اور سب سے شاندار ذائقے کیلئے آپ کو سونے کے برتن میں کھانا پڑے گا جبکہ چاندی کے برتن سب سے بڑے ذائقے کا سبب بنتے ہیں۔
یونیورسٹی کالج لندن کی سائنسدان ڈاکٹر زولی لافلن نے سات مختلف قسم کی دھاتوں سے بنے برتنوں پر تجربات کئے۔ ان میں سونے، چاندی، سٹیل، زنک، تانبے، پیتل اور کروم سے بنے برتن شامل تھے۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ سونے کے برتین میں کھانا کھانے سے اس کا ذائقہ بہترین محسوس ہوتا ہے جبکہ چاندی کے برتن میں یہی کھانا بدمزہ محسوس ہوتا ہے۔ مزید تحقیق سے معلوم ہوا کہ اس کی وجہ ان دھاتوں کی کیمیائی خصوصیات ہیں۔ سونا دیگر عناصر کے ساتھ بہت کم تعاملات کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ا دھات کے برتنوں میں ذائقہ خالص ترین حالت میں محسوس ہوتا ہے۔ اس کے برعکس چاندی دیگر عناصر کے ساتھ تیزی سے تعاملات کرتی ہے اور خصوصاً تیزابیت والے کھانوں کے ساتھ اس کا اپنا ذائقہ شامل ہوکر بدمزگی پیدا کرتا ہے۔ اسی طرح انڈوں میں پائی جانے والی سلفر کے ساتھ بھی اس کا تعاملات کی وجہ سے بدمزہ ذائقہ پیدا ہوتا ہے۔ تانبے اور زنک کے برتن میٹھے کھانوں کیلئے بہترین پائے گئے۔ تحقیق میں یہ بھی معلوم ہوا کہ اچھے ذائقے کیلئے سونے کے بعد بہترین دھات سٹین لیس سٹیل ہے اور اگر سونے کے برتن آپ کو مہنگے لگیں تو اگلی بہترین آپشن کے طور پس ٹین لیس سٹیل کے برتن استعمال کریں۔
Daily pakstan

           

چین نے انسانی فضلے سے بجلی بنانے کے حیرت انگیز منصوبے پر کام شروع کر دیا

05 فروری 2015 (18:29)
بیجنگ (نیوز ڈیسک) چین نے انسانی فضلے سے بجلی بنانے کے منصوبے پر کام شروع کردیا ہے۔بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ انسانی فضلے جیسی بے کار چیز شاید ہی کوئی اور ہو لیکن سائنسدان ”بے کار“ چیز کو توانائی اور سونے میں بدلنے کی مکمل تیاریاں کرچکے ہیں۔
جرمن انجینئر ہینز پیٹر مانگ چینی دارالحکومت منتقل ہوچکے ہیں کیونکہ ایک تو یہاں فضلہ حیرت انگیز حد تک زیادہ مقدار میں دستیاب ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ یہاں حکام اس بات سے پریشان ہیں کہ اتنے فضلے کو ٹھکانے کیسے لگایا جائے۔ ہینز فضلے کو کھاد میں بدلنے کے کام کا آغاز پہلے ہی کرچکے ہیں اور عنقریب اس سے بجلی کی پیداوار بھی شروع ہوجائے گی۔
انجینئر ہینز کا کہنا ہے کہ اگلے پانچ سالوں میں فضلے سے بجلی بنانے کی صنعت چار گناہ پھیل چکی ہوگی۔ دوسری جانب امریکا کی ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی کی حالیہ تحقیق نے ثابت کردیا ہے کہ فضلے کے تجزیے کے بعد اس میں سے سونا بھی نکالا جاسکتا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق 10 لاکھ آبادی کا شہر ایک سال میں اپنے فضلے سے تقریباً ڈیڑھ کروڑ ڈالر (تقریباً ڈیڑھ ارب روپے) مالیت کا سونا حاصل کرسکتا ہے۔ یقیناً یہ تحقیقات پاکستان جیسے ملک کیلئے لمحہ فکریہ ہیں جہاں بے حساب فضلہ ہونے کے باوجود غربت اور لوڈشیڈنگ کا راج ہے۔


Daily pakistan

اور خدمت کا جذبہ لازم

جو کچھ انسان کہ پاس ہو اس کا شکر ادا کرنے یا کسی انسان کی کسی مدد کا شکریہ ادا کرنے سے نہ صرف انسان بہتر محسوس کرتا ہے، بلکہ اس میں مثبت سوچ پیدا ہوتی ہے اور دوسروں کو بھی اس سے خوشی ہوتی ہے
ہفتے کے سات دن، دھنک کے سات رنگ اور موسیقی کے سات سر تو سب کے لئے برابر ہیں۔ لیکن، پھر بھی کچھ لوگ زیادہ تر دن خوشی میں گزارتے ہیں اور کچھ اداسی میں۔ کچھ لوگ خوشی کے گانے اور شوخ رنگ پسند کرتے ہیں تو کچھ پھیکے رنگ اور اداس میوزک۔

ماہرین کے مطابق، فرق سوچ کا ہوتا ہے۔ پروفیسر رونالڈ رججیو سائکولوجی ٹوڈے میں لکھتے ہیں کہ جب روز مراہ زندگی کے اتار چڑھاو سے انسان اداس ہو جاتا ہے تو چھوٹی چھوٹی تدابیر انسان کو ایک وقفہ دیتی ہیں اور اس کی صحت کو بہتر کرتیں ہیں۔

ماہر نفسیات پروفیسر رونالڈ رججیو تحقیق کی روشنی میں ایسے سات مشورے دیتے ہین کہ جن پر عمل کرکے انسان اپنی پریشانی اور اداسی کم کر سکتا ہے اور بہتر محسوس کر سکتا ہے۔

سب سے پہلے تو تشکر اور ممنونیت کے جذبے کے بڑے فوائد ہیں۔ جو کچھ انسان کہ پاس ہو اس کا شکر ادا کرنے یا کسی انسان کی کسی مدد کا شکریہ ادا کرنے سے نہ صرف انسان بہتر محسوس کرتا ہے، بلکہ اس میں مثبت سوچ پیدا ہوتی ہے اور دوسروں کو بھی اس سے خوشی ہوتی ہے۔

پروفیسر صاحب لکھتے ہیں کہ ہنسنا شاید بہترین دوا نہ ہو، لیکن اس سے انسان بہتر ضرور محسوس کرتا ہے، ہنسنے مسکرانے سے ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے اور توانائی بڑہتی ہے اور پھر یہ کہ ایک کے ہنسنے سے دوسرے بھی ہنستے ہیں اور ماحول میں پریشانی کم ہو جاتی ہے اور دوسرے بھی اس سے بہتر محسوس کرنے لگتے ہیں۔

روز مراہ کے روٹین میں وقفہ کرنے سے بھی انسان بہتر محسوس کرتا ہے چاہے وہ دوستوں سے ملے، کچھ کھیلے، ورزش کرے یا شاپنگ۔ اچھی نفسیاتی صحت کے لئے انسان کو یہ دیکھنا چاہئے کہ اس کے پاس کیا کچھ ہے نہ کہ یہ کہ اس کے پاس کیا نہیں ہے، کیونکہ منفی سوچ انسان کو مایوس اور بے بس کر دیتی ہے اس لئے اسے اپنے اچھے دوستوں، اچھے وقت اور اپنی صلاحتوں پر توجہ دینی چاہئے۔

مشکل وقت میں کسی کی مدد کرنے سے خود مدد کرنے والے کو بھی بہت اچھا محسوس ہوتا ہے اور ایسی ہی خوشی تب بھی ملتی ہے کہ جب انسان کسی اپنے کے ساتھ اچھا وقت گزارتا ہے، چاہئے وہ محبوب کے ساتھ کھانا کھانا ہو یا کسی بچے کو گھمانا پھرانا، اور یہ اچھی یادیں مشکل وقت میں انسان کو سہارا دیتی ہیں۔

پروفیسر رونالڈ رججیو لکھتے ہیں کہ فلاحی کام بھی انسان کی خوشی کا سبب بنتے ہیں اور کراچی کے سول ہسپتال میں بچوں کے شعبے کی سربراہ اور بچوں کی فلاح کے لئے کام کرنے والے ادارے کونپل کی روح رواں پروفیسر ڈاکٹر عائشہ مہناز اس بات سے پوری طرح اتفاق کرتی ہیں۔

پروفیسر صاحبہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کی روایتی تعلیم و تربیت میں انھیں صرف نصاب پڑھایا جاتا ہے، جب کہ انھیں یہ لازمی سکھایا جانا چاہئے کہ اگر بچے زندگی میں کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انھیں دوسروں کو بھی کچھ دینا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب بچوں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ لینے والے نہین بلکہ دینے والے ہاتھ ہیں تو اس سے بچوں کو خوشی بھی ملتی ہے اور وہ مستقبل میں ایک متوازن شخصیت کے مالک اور کارآمد شہری بنتے ہیں۔
Voa

خوش رہنے کے لیے شکر

خوش رہیں اور فٹ رہیں

برطانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ خوش باش رہنے سے جسمانی فٹنس بڑھتی ہے جو عمر کے آخری دنوں میں بھی فعال اور مستعد رکھتی ہے۔
خوشی اگرچہ کوئی ظاہری شکل وصورت نہیں رکھتی ہے لیکن اسے مسکراتے لبوں اور کھلتے چہرے کی تابناکی میں دیکھا جا سکتا ہے، یہ انسان کے اندر پھوٹنے والا ایک احساس ہے جس سے سارے بدن میں توانائی بھر جاتی ہے خوشی جیسے اچھوتے احساس کے فوائد کو سائنسی پرکھ پر جانچنے کے بعد ماہرین نے اخذ کیا ہے کہ خوشی کا جسمانی فعالیت کے ساتھ گہرا تعلق ہےجو زندگی سے لطف اندوز ہونے والے افراد کو کبھی بوڑھا نہیں ہونے دیتی ہے۔

خوشی کا کوئی لگا بندھا فارمولا نہیں ہے لیکن زندگی میں کم  سے کم اہداف مقرر کرنا اور تھوڑی توقعات رکھنے سے ہر دم کھل کر جیا جا سکتا ہے ۔ زندگی کی کٹھن راہ گزر پر خوشدلی سے چلنے والے لوگوں کے بارے میں ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ خوش رہنے والے لوگ جسمانی اعتبار سے زیادہ چست وتوانا ہوتے ہیں  اور جو لوگ اسی مثبت احساس کے ساتھ  زندگی کے شب وروز گزارتے ہیں وہ عمر کے کسی بھی حصے میں خود کو ناتواں نہیں سمجھتے ہیں۔
 
اگرچہ خوش رہنے کے بہت سے واضح فوائد پیش کئے جا چکے ہیں لیکن برطانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ خوش باش رہنےسے جسمانی فٹنس بڑھتی ہے جو عمر کے آخری دنوں میں بھی فعال اور مستعد رکھتی ہے۔
 
'کینڈین میڈیکل ایسوسی ایشن جرنل ' کے تحقیقی مطالعے میں انکشاف ہوا ہے کہ زندگی کو خوشی خوشی جینے والے افراد ایسے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ فعال نظر آتے ہیں جنھوں نے زندگی کو پژمردگی میں گزارا ہوتا ہے ۔
 
'یونیورسٹی کالج لندن ' کے تازہ ترین مطالعاتی جائزے میں تحقیق کار خوشی کے احساس اور جسمانی صحت کے درمیان موجود رابطے کی جانچ پڑتال کرنا چاہتے تھے۔

تحقیقی ماہرین نےمشاہدے کے لیے 3,199 مرد اور خواتین سے پوچھا کہ خوش رہنے پر وہ کیا محسوس کرتے ہیں ؟
 
ایسے احساسات کے دوران اپنے آپ میں وہ کتنی گرمجوشی محسوس کرتے ہیں ؟
 
 آٹھ برس لمبے مشاہدے میں  زیر غور شرکاء جن کی عمریں 60 برس اور اس سے زیادہ تھیں انھیں تین گروپوں میں منقسم کیا گیا ۔ پہلے گروپ میں 60 سے 69 سال کے افراد کو شامل کیا اسی طرح 70 سے 79 کا دوسرا اور 80 برس کے افراد کا تیسرا گروپ بنایا ،شرکاء نے ایک ذاتی نوعیت کے انٹرویو کے دوران  روز مرہ معمولات کی انجام دہی میں پیش آنے والی جسمانی مشکلات کے بارے میں بھی معلومات اکھٹی کی ۔
 
تحقیق سے وابستہ ڈاکٹر اینڈریو اسٹیپٹو نے کہا کہ نتیجے سے معلوم ہوا کہ زندگی سے لطف اندوز ہونے والے افراد عمر میں اضافہ ہونے کے باوجود روزمرہ کاموں کی انجام دہی میں فعال نظر آئے ،صبح سویرے بستر چھوڑ نے سے نہانے اور تیار ہونے میں انھوں نے سستی کا مظاہرہ نہیں کیا خاص طور پر 60 سے 69 برس کے گروپ میں شامل افراد زیادہ مستعد دکھائی دیے۔
 
ڈاکٹر اسٹیپٹو نے بتایا کہ زندگی کو مطمئین انداز میں ہنسی خوشی گزارنے والے افراد میں  بڑھاپے میں جسمانی توانائی میں کمی پیدا ہونے کی شرح سست تھی ان کے برعکس دائمی امراض، مثلا امراض قلب، ذیابیطس، جوڑوں کا درد اور پژمردگی میں مبتلا  افراد وہ تھے جنھوں نے زندگی میں بہت کم خوش ہونا سیکھا تھا اسی طرح روزمرہ کے کام کرنے میں بھی پژمردہ افراد کو خوش رہنے والے شرکاء کے مقابلے میں تین گنا سے زیادہ مشکلات پیش آئیں۔
 
انھوں نے مزید کہا کہ ''ایسا نہیں ہے کہ خوش رہنے والے لوگوں میں  اچھی جسمانی صحت، بہتر طرززندگی  یا پھر دولت مند ہونے کی وجہ سے تھی کیونکہ جب ان تمام عوامل کو ساتھ میں رکھ کر نتیجے کو پرکھا گیا تو بھی خوشی اور جسمانی مستعدی کے درمیان مضبوط رشتہ نظر آیا ''۔
 
محقیقین نے کہا کہ ہماری پچھلی تحقیق میں ظاہر کیا گیا تھا کہ زیادہ سے زیادہ زندگی سے لطف اندوز ہونے والوں کی متوقع عمرمیں مزید آٹھ برس تک جینے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے جبکہ تازہ تحقیق اس بات کی وضاحت پیش کرتی ہے کہ خوشی نا صرف زنندگی کو کھینچ کر لمبا کر سکتی ہے بلکہ بڑھتی عمر کے باوجود جسمانی مستعدی میں کمی نہیں آنے دیتی ہے یعنی لمبی عمر، اچھی صحت اور جسمانی فٹنس کی کنجی ہے خوش رہنا۔ 
Voa

دولت واقعی کمینگی سکھاتی ہے؟

·        7 اپريل 2015
Description: Description: http://ichef.bbci.co.uk/news/ws/200/amz/worldservice/live/assets/images/2015/04/07/150407122832__81579363_dsc_0209.jpgزیادہ دولت آ جانے سے آپ دوسروں کی پروا کم کرتے ہیں
ہالی وڈ ہمیشہ سے ایسی فلمیں بناتا رہا ہے جن میں کبھی تو ہمیں کسی عمر رسیدہ شحض کی تنگ دلی اور کنجوسی دیکھنے کو ملتی ہے اور کبھی نیویارک کی سٹاک مارکیٹ میں بیٹھا ہوا کوئی بھیڑیا دکھائی دیتا ہے جسے صرف اپنی دولت میں اضافے کی غرض ہوتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ فلمی کردار حقیقت سے کتنے قریب ہوتے ہیں۔ کیا دولت واقعی آپ کو کمینہ بنا دیتی ہے؟
اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے معاشرتی رویوں پر تحقیق کرنے والے ماہر نفسیات پروفیسر پال پِف نے ہالی وڈ کے قریبی شہر لاس اینجلس کا رخ کیا۔
ہم نے دیکھا کہ پروفیسر پِف ساحل سمندر کے ساتھ کھجور کے درختوں میں گِھری ہوئی طویل سڑک کے کنارے راہداری پر مسلسل چہل قدمی کر رہے ہیں۔
امیر ہونے سے فراخدل اور سخی ہونے کی بجائے آپ کا اخلاق خراب ہو سکتا ہے
ہالی وڈ کے ارد گرد کے علاقے میں امیر لوگوں کی اتنی بہتات ہے کہ ہر تھوڑی دیر بعد آپ کو دنیا کی مہنگی ترین کار پاس سے گزرتی دکھائی دیتی ہے۔ مہنگی کاروں کے اس نظارے میں خوبصورت فور ویل ڈرائیو، انواع و اقسام کی سپورٹس کاریں اور شاندار ہائیبرڈ گاڑیاں سبھی سب شامل ہوتا ہے۔
پرفیسر پِف کے یہاں آنے کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ پیدل سڑک عبور کرنے والوں کا خیال کون کرتا ہے، مہنگی گاڑی والا امیر یا یا سستی گاڑی والا غریب ڈرائیور۔
قانون کے مطابق جوں ہی کوئی پیدل شخص زیبرا کراسنگ پر آتا ہے تو ڈرائیور سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ گاڑی روک لے گا، لیکن پروفیسر پِف کی تحقیق بتاتی ہے کہ سستی گاڑیاں چلانے والوں میں سے ہر ایک نے پیدل شخص کا احترام کیا جبکہ مہنگی گاڑیوں والے 50 فیصد ڈرائیوروں نے قانون شکنی کرتے ہوئے پیدل چلنے والوں کی کوئی پروا نہیں کی۔
اپنی تحقیق میں پروفیسر پِف نے مختلف پس منظر رکھنے والے کئی لوگوں سے یہ بھی پوچھا کہ کسی صورت حال میں ان کا رد عمل کیا ہو گا۔
ماضی میں اکثریت کا خیال یہ رہا ہے کہ چونکہ غریب آدمی پر معاشی دباؤ زیادہ ہوتا ہے اور اسے مشکل صورت حال کا سامنا ہوتا ہے اس لیے وہ قانون شکنی سے پرہیز کرتا ہے۔ لیکن پِف کی تحقیق کے نتائج الٹ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ زیادہ دولت آ جانے سے آپ دوسروں کی پروا کم کرتے ہیں اور آپ سمجھتے ہیں آپ کو اپنے ذاتی مفاد کو دوسروں کے فائدے پر ترجیح دینا کا حق حاصل ہو گیا ہے۔

آپ کس قدر کمینے ہیں؟

تقریباّ دس برس کی تحقیق کے بعد پِف اس متنازع نتیجے پر پہنچے ہیں کہ امیر ہونے سے فراخدل اور سخی ہونے کی بجائے آپ کا اخلاق خراب ہو سکتا ہے اور آپ زیادہ تنگ دل ہو جاتے ہیں۔
جب لوگوں کے پاس پیسہ کم ہوتا ہے تو وہ اپنے معاشرتی تعلقات اور دوستوں عزیزوں پر زیادہ انحصار کرتے ہیں
’دولت آنے کے بعد آپ اپنے مفادات، اپنی خواہشات اور اپنی بہتری کا سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔‘
دولت آپ کو نفسیاتی اور ذہنی اعتبار سے دوسرے لوگوں سے دور کر دیتی ہے۔ آپ اپنے فائدے اور اپنے مقاصد کا سوچنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کی پروا کم ہی کرتے ہیں۔‘
اگر میں آپ کے ہاتھ میں ایک پنسل دوں اور آپ سے کہوں کہ آپ خود کو ایک دائرے کی شکل میں دکھائیں، تو آپ جتنے زیادہ امیر ہوں گے آپ کے اس دائرے کا سائز آپ کے ارد گرد کے چھوٹے چھوٹے غریب لوگوں کے دائروں کے مقابلے میں بڑا ہوتا جائے گا۔
پروفیسر پِف نے اپنی تجربہ گاہ میں مختلف تجربات بھی کیے جن سے ظاہر ہوا کہ جن لوگوں کے پاس زیادہ پیسے ہوتے ہیں ان کے دوسروں کو دھوکہ دینے کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ امیر لوگ بچوں کے لیے پڑی ہوئی ٹافیاں اٹھا لیتے ہیں اور امیر شخص دوسروں کی مدد کے لیے کم وقت نکالتا ہے۔
پروفیسر پِف نے اپنی تحقیق میں علمِ نفیسات کی دنیا کا مشہور طریقہ بھی استعمال کیا جسے ’آمر کا امتحان‘ یا ’ڈکٹیٹر ٹیسٹ‘ کہا جاتا ہے۔ انھوں نے لوگوں کا ایک گروپ لیا اور ان میں سے کچھ کو دس ڈالر فی کس دیے اور کہا کہ آپ چاہیں تو یہ سارے پیسے کسی کو دے دیں یا اس میں سے کچھ حصہ کسی دوسرے کو دے دیں اور چاہیں تو تمام پیسے کسی ایسے شخص کو دے دیں جسے کچھ بھی نہیں ملا۔
’معاشی عقل مندی کا تقاضا تو یہی تھا کہ غریب آدمی زیادہ پیسے اپنے پاس رکھتا اور امیر شخص دوسروں کو زیادہ پیسے دیتا لیکن ہم نے دیکھا کہ آپ جب زیادہ امیر ہوتے ہیں تو آپ کو زیادہ چیزوں پر اختیار حاصل ہو جاتا ہے لیکن آپ اپنی دولت کا بہت کم حصہ دوسروں کو دینے پر رضامند ہوتے ہیں۔‘
’غریب لوگ بہت فراخدل ہوتے ہیں اور غریب آدمی امیر کی نسبت 150 فیصد زیادہ دولت دوسروں کو دے دیتا ہے۔‘
اگر ٹائٹینک غرق ہو رہا ہو اور لائف بوٹ پر صرف ایک شخض کی جگہ ہو تو آپ کیا کریں گے؟
ان تجربات کے علاوہ پروفیسر پِف نے اپنی تحقیق میں مشہور کھیل ’مناپلی‘ کا بھی استعمال کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ درجنوں تجرباتی کھیلوں کے بعد ان پر واضح ہوا کہ جوں جوں آپ مناپلی جیتتے ہیں اسی قدر آپ کے اندر کمینگی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور آپ کی خواہش ہوتی ہے کہ آپ پورے بورڈ پر قبضہ کر لیں۔ آپ زیادہ سے زیادہ علاقے کو اپنے زیرِ تسلط کرنا چاہتے ہیں اور حتیٰ کہ آپ پیالے میں پڑی ہوئی کھانے کے چیز بھی اڑا لیتے ہیں حالانکہ وہ پیالہ تمام کھلاڑیوں کا مشترکہ ہوتا ہے۔
اپنی تحقیق کے نتیجے میں پروفیسر پِف کا کہنا ہے کہ جب ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ اب ہم امیر ہو گئے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں اب ہمیں دوسرے لوگوں کی اتنی زیادہ ضرورت نہیں رہی۔ حقیقی دنیا میں بھی جب لوگوں کے پاس پیسہ کم ہوتا ہے تو وہ اپنے معاشرتی تعلقات اور دوستوں عزیزوں پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ اسی لیے غریب آدمی دوسروں کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دیتا ہے۔اس کے برعکس امیر لوگ اپنے لیے سکون کے لمحے اور خاموشی خرید سکتے ہیں اور اپنے مسائل کو خود ہی حل بھی کر سکتے ہیں۔ بھرے ہوا بٹوے سے زیادہ کوئی چیز آپ کو خوش نہیں کرتی لیکن دولت آنے کے بعد آپ دوسروں سے دور ہو سکتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پروفیسر پِف کی تحقیق کے نتائح پڑھ کر ہم سب خوش ہو رہے ہیں۔ یہ بات اطمینان کا باعث ہے کہ وہ لوگ جو ہم سے زیادہ پرتعیش زندگی گزار رہے ہیں انھیں بھی اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ تاہم یہ بھی ضروری نہیں کہ تمام لوگ پروفیسر پِف کے نتائج کو درست سمجھیں۔
بی بی سی اردو


کیا آپ کو دنیا کے سمندروں میں چھپے قدرتی خزانوں کی قیمت کا علم ہے؟جواب آپ کوحیران کر دے گا

24 اپریل 2015 (20:35)
سڈنی (نیوز ڈیسک) دنیا کے سمندر قدرتی خزانوں سے بھرے پڑے ہیں لیکن ان کی مالیت کتنی ہے اس کا اندازہ پہلی دفعہ ایک آسٹریلوی سائنسدان نے پیش کیا ہے۔یونیورسٹی آف کوئنز لینڈ کے ماہر آبی حیات اوو ہو گلڈ برگ کی سربراہی میں تیار کی جانے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ Reviving the Ocean Economy میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے سمندروں میں پائے جانے والے قدرتی خزانوں کی کل مالیت تقریباً 24 کھرب امریکی ڈالر (تقریباً 2400 کھرب پاکستانی روپے) کے برابر ہے۔ اس تخمینے کے لئے سمندری حیات، بحری راستوں اور سیاحت جیسے عوامل کو مدنظر رکھا گیا۔ رپورٹ کے مطابق سمندر سالانہ 2.5 کھرب امریکی ڈالر کے برابر مالیاتی پیداوار کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کہ اگر دنیا کے سمندر کوئی ملک ہوتے تو یہ دنیا کی ساتویں بڑی معیشت قرار پاتے۔ تحقیق کے مطابق یہ محض ایک محتاط اندازہ ہے جبکہ سمندری خزانوں کی اصل قیمت اس سے کہیں زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔
DAILY PAKSTAN




          سبحان اللہ !انسانیت کہاں سے شروع ہوئی؟سائنس نے بھی اسلام کی بات مان لی

03 فروری 2015 (19:01)
 لندن (نیوز ڈیسک) قرآن کریم نے آج سے 14 صدیاں قبل فرما دیا کہ بنی نوع انسان کا آغاز آدم علیہ السلام و حواءعلیہ السلام سے ہوا، جنہیں آسمان سے زمین پر اتارا گیا مگر جدید سائنس اس نظریے کی طرف مائل ہو گئی کہ نسل انسانی بندروں میں کسی جینیاتی تبدیلی کے باعث وجود میں آئی۔
اب برطانیہ کی یونیورسٹی آف شیفیلڈ کی ایک تازہ ترین تحقیق نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ انسان کی پیدائش جانوروں کی کسی بھی دوسری نسل کے ذریعے نہیں ہوئی بلکہ اس تحقیق کے مطابق آج سے لاکھوں سال پہلے
XY کروموسوم والا مرد اور XX کروموسم والی عورت موجود تھی جو نسل انسانی کی ابتداءتھی۔ واضح رہے کہ حال ہی میں سائنسی جریدے ”امریکن جرنل آف ہیومن جنیٹکس“ میں ایک تحقیق شائع ہوئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ مردانہ Y کروموسوم کا آغاز انسان کی بجائے کسی دوسری نسل سے ہوا تھا۔ لیکن اب تازہ ترین تحقیق نے اس نظریے کو غلط ثابت کر دیا ہے اور واضح کر دیا ہے کہ نسل انسانی کا ایک ہی باپ ہے اور اس کے Y کروموسوم کا آغاز جانوروں کی کسی بھی دوسری نسل سے نہیں ہوا۔
تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر ایل ہائیک نے بتایا کہ ابھی سائنس یہ دریافت نہیں کر سکی کہ انسانییت کے جد امجد کا ظہور کس طرح ہوا لیکن یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ نسل انسانی کا آغاز ایک شخص سے ہوا اور اس کا کروموسوم کسی دوسرے جانور سے نہ آیا تھا۔ یہ تحقیق ”ہیومن جرنل آف جنیٹکس“ میں شائع کی گئی ہے۔

Daiy



سائنس اورتیکنالوجی: سوچوسو ہوجائے!

 

IBMکا کہنا ہے کہ آئندہ پانچ برسوں میں ذہن کے ساتھ مشینوں کو کنٹرول کیا جائے گا
فائزہ المصری, بہجت گیلانی
اپنے ذہن کے ذریعے کسی مشین کو کنٹرول کرنا اپنی ہی سرگرمیوں کی توانائی سے اپنے گھر میں پاور جنریٹ کرسکنا؟ یہ دو ایسی پیش رفت ہیں جِن کے بارے میں IBMکے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ آئندہ پانچ برسوں میں حقیقت کا روپ دھار لیں گی۔تیکنالوجی کمپنی IBMنے اپنی تازہ ترین رپورٹ جاری کی ہے جِس کے مطابق، ماہرین کا خیال ہے کہ جلد ہی لوگ محض اپنے ذہن استعمال کرتے ہوئے بیشتر الیکٹرک ڈوائسز کو کنٹرول کرسکیں گے۔
IBMاور دوسرے اداروں کے سائنس داں اِس کے لیے مختلف طریقوں پر تحقیق کر رہے ہیں اور سائنسی زبان میں اِس کے لیے ’بایو انفرمیٹکس‘ کی اصطلاح استعمال ہو رہی ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ جلد وہ وقت آنے والا ہے کہ لوگوں کے پاس ایسا طریقہٴ کار ہوگا کہ کسی کو کال کرنے یا اِی میل کرنےکے بارے میں محض سوچتے ہوئے اِسے ممکن بنایا جاسکے گا!برنی میرسن IBMمیں اختراع اور جدت کے شعبے کے نائب صدر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک سادہ سی صلاحیت ہے جِس میں ایک سسٹم کو کچھ کرنے کے لیے کمانڈ دی جاتی ہے۔ کچھ کہنا یا کرنا نہیں پڑتا۔ اور یوں، ایک درست نتیجہ سامنے آجاتا ہے۔ یہ حقیقتاً  ایک  بھرپور صلاحیت ہے جسے کوئی مفلوج یا اپاہج شخص اپنی دماغی لہروں یعنی ’برین ویوز‘ کی مدد سے کاموں کے ہونے کوممکن بنا سکے گا۔ اور یوں، آزادانہ طور پر بغیر کسی مدد کے اپنی زندگیاں بہتر انداز میں گزار سکے گا۔
ایک اور پیش گوئی ایک ایسے طریقے کے بارے میں  ہے جِس سے لوگ چلنے یا دوڑنے جیسی اپنی سرگرمیوں کی توانائی سے اپنے گھروں یا دفتروں کے لیے بجلی یعنی پاور حاصل کر سکتے ہیں۔برنی کہتے ہیں کہ اِسے ’مائکرو الیکٹرانک جنریشن‘ کا نام یا اصطلاح  سے جانا جاتا ہے۔
وہ مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ تیسری دنیا میں کسی شخص کے پاس ٹیلی فون تو ہے، لیکن اُس کی رسائی  پاور گرڈ تک نہیں۔ جو، کافی عام سی بات ہے۔ لیکن، سچ مچ ایک جوتے کے اندر ایک ایسی چیز بنائی جاسکتی ہے جو چلنے کے عمل کے دوران اتنی توانائی کا پتا دیتی ہے جِس سے ایک بیٹری کو چارج کیا جا سکتا ہے۔ اور اِس شخص کو باقی دنیا سے مربوط کیا جا سکتا ہے۔ایک اور پیش گوئی کے مطابق ہمارے ’پاس ورڈس‘ بہت جلد قصہٴ پارینہ ہونے والے ہیں۔IBMکا کہنا ہے کہ ’بایومیٹرکس تیکنالوجی‘ میں ہونے والی پیش رفت سے پاس ورڈس غیر ضروری ہوجائیں گے۔انتہائی عام ’بایو میٹرکس‘ میں سے انسانوں کی شناخت کے لیے استعمال ہونے والی چیزیں فنگر پنٹس، چہرہ اور آواز کی پہچان اور پُتلی کی اسکیننگ ہے۔وہ کہتے ہیں کہ یہ تیکنالوجی جلد ہی رقم حاصل کرنے والی مشینوں یعنی ATMمشینوں اور دوسری چیزوں کے لیے استعمال ہونے لگے گی۔
تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ:
Voice of America

میڈیکل کی تاریخ کا انوکھا واقعہ،چینی والدین کے ہاں حاملہ بچی کی پیدائش،ڈاکٹر حیران

08 فروری 2015 (19:47)
ہانگ کانگ (نیوز ڈیسک) ہانگ کانگ میڈیکل جنرل کے تازہ شمارے میں میڈیکل سائنس کی تاریخ کے پیچیدہ ترین کیسز میں سے ایک کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ 2010ءمیں ہانگ کانگ کے ”کیوئن الزبتھ ہس
پتال“ میں ایک ایسی بچی نے جنم لیا جو دو جڑواں بچوں کے ساتھ حاملہ تھی۔ یہ انکشاف ہونے کے بعد صرف 3 ہفتے کی عمر میں ڈاکٹروں کو اس بچی کی سرجری کرنا پڑی۔ رپورٹ کے مطابق بچی کے پیٹ میں نومولود بچوں کی عمر 8 سے 10 ہفتے تھی۔ ان کی ٹانگیں، ہاتھ، پسلیاں اور آنتڑیاں بننا شروع ہوگئی تھیں اور جسم کے کئی حصوںپر جلد بھی آچکی تھی۔
  ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے کیس کی پیدائش سے قبل نشاندہی بے حد مشکل ہوتی ہے۔ تاہم سرجری کامیاب ہوئی اور حمل علیحدہ کرنے کے آٹھ روز بعد بچی کو گھر جانے کی اجازت مل گئی۔ مضمون میں بتایا گیا ہے کہ اس قسم کا کیس 5 لاکھ میں سے ایک بچے میں سامنے آنے کا امکان ہوتا ہے تاہم میڈیکل کی تاریخ میں اس قسم کے 200 سے بھی کم کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ سرجری کرنے والے ڈاکٹر کا خیال ہے کہ یہ ہانگ کانگ میں اس قسم کا پہلا واقعہ تھا۔


انسانی زندگی میں مذہب کی اہمیت

اجب ہم مذاہب کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں۔ تو ہم پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے ۔ کہ جب سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے ۔تب سے انسان اور مذہب ساتھ ساتھ ہیں ۔ابتدا میں تمام انسانوں کا مذہب ایک تھامگر جوں جوں انسانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا لوگ مذہب سے دور ہونے لگے پھر خالق کائنات نے مختلف ادوار میں انسانوں کی راہنمائی کے لیے پیغمبر بھیجے لیکن پیغمبروں کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد ان کے ماننے والوں نے ان کے پیغام پر عمل کرنے کی بجائے خود سے نئے دین اور مذاہب اختیار کر لیے اس طرح مذاہب کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا او ر اس وقت دنیا میں کئی مذاہب پیدا ہو چکے ہیں جن میں سے مشہور مذاہب ،اسلام،عیسائیت،یہودیت،ہندو ازم،زرتشت،بدھ ازم ،سکھ ازم شامل ہیں۔
اس بات سے انکار ممکن ہیں کہ بنی نوع انسان ہر دور میں کسی نہ کسی مذہب کی پیروی کرتے رہے ہیں۔ لیکن ان تمام مذاہب کی تعلیمات میں کسی نہ کسی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے ۔جیسا کہ دنیا کے تمام مذاہب کی تعلیمات میںکسی نہ کسی قتل، چوری ،زنااور لڑائی جھگڑے کو سختی سے ممنوع قرار دیتے ہیں اور تمام قسم کی اچھائیوں کو اپنانے کی تلقین کرتے ہیں۔
انسان بنیادی طور پر اشرف المخلوقات اسی لیے قرار دیا گیا ہے ۔کہ یہ اپنے اندر اخلاقی پہلورکھتا ہے ۔ اور اس کا اخلاقی قدروں پر مبنی وجود ہی کسی بھی معاشرے کے قیام کی بنیاد بنتا ہے۔

 در حقیقت باہمی حقوق اور احساس ذمہ داری کا احساس ہی خاندان ،قبیلے اور معاشرے کے مضبوط تعلقات کا سبب بنتا ہے ۔ اور صرف مذہب ہی ایسی چیز ہے ۔جو اس دنیا میں انسان کو زندگی گزارنے کے لیے اصول و ضوابط فراہم کرتاہے۔ یہی مذہب انسان میں احساس ذمہ داری کا شعور پیدا کرتا ہے ۔ اسے اپنے فرائض اور واجبات یاد دلاتا ہے ۔جو اس کے اور اس کے پیدا کرنے والے کے درمیان تعلقات کی بنیاد ڈالتے ہیں۔جب انسان کسی مذہب کی تعلیمات کی پیروی کرنا شروع کرتاہے ۔ تو پھر اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے کہ وہ اس دنیا میں کیوں آیا ۔اسے خدا نے کیوں پیدا کیاپھر جب وہ اپنے مذہب سے اس بات کا جواب حاصل کرتاہے ۔ تو اسی تگ و دو میں مصروف ہو جاتا ہے ۔کہ وہ اپنے مذہب کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی کوشش کرے ۔ اس طرح انسان جب اپنے مذہب کی اچھی باتوں کو اپناتا ہے تو وہ ایک صحت مند معاشرہ کے قیام کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے ۔ لیکن اگر وہ مذہب کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی بجائے دوسرا رخ اختیا رکرتاہے ۔تو وہ معاشرے میں فساد کا سبب بنتا ہے۔

مذہب ایک ایسی چیز ہے جو کسی بھی شخص کو ایک مقصد بتا دیتا ہے کیونکہ جو لوگ زندگی میں کچھ مقصد رکھتے ہیں وہ ضرور کسی نہ کسی مذہب کے تابع ہوتے ہیں ۔جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ انسانی زندگی میں مذہب کی کوئی اہمیت نہیں درحقیقت وہ مذہب کے مفہوم کو سمجھ نہیں پائے۔ جیسا کہ ایک مغربی مفکر نے کہا تھا کہ اگر ایک شخص اخلاقی طور پر اچھا ہے ۔ اعلیٰ کردار اور بلند اصولوں کا مالک ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر اچھائیاں بھی اپنے اند ر رکھتا ہے لیکن وہ مذہب پر یقین نہیں رکھتا اور نہ ہی یہ خیال کرتا ہے کہ کوئی ایسی ذات ہے جو ہمیں دیکھ رہی ہے ۔تو پھر اسے مذہب کی ضرورت نہیں ہے ۔جبکہ اسی طرح اگر کوئی شخص مذہب کو اختیار کرتے ہوئے پھر بھی برے اخلاق رکھتا ہے ۔ تو اس کے مذہب کیا کیا فائدہ ۔یہ دلیل اس بناء پر رد کی جاتی ہے کہ مذہب کسی بھی انسان کی راہنمائی تو کر سکتا ہے ۔ لیکن اسے مکمل طور پر اپنی پیروی پر مجبور نہیں کر سکتا۔ مذہب صرف الفاظ کا نام نہیں کہ مان لینے سے ہی انسان مذہبی بن جاتا ہے ۔ بلکہ یہ تو عمل کا نام ہے ۔مذہب انسان کے کردار و عمل سے ظاہر ہوتاہے ۔ آپ اس شخص کو تو مذہبی نہیں کہ سکتے جو مذہب کا نام لیتا ہے ۔لیکن مذہب کے بتائے ہوئے بغیر بھی انسان اخلاقی قدروں کو اپنا سکتا ہے ۔تو کسی حد تک تو یہ بات درست ہے مگر انسان کو یہ بتانے والا کہ فلاں چیز اچھی ہے یا فلاں چیز بری ہے ۔یہ صرف مذہب کا کام ہے ۔دنیا کے تمام مذاہب نے اخلاقیات اور انسانوں کے مابین باہمی معاملات پر اصول فراہم کیے ہیں۔جن کے ہوتے ہوئے کوئی بھی انسان مذہب کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا ہمارا دین ،دین اسلام تو تمام مذاہب پر فوقیت رکھتاہے ۔جس نے بنی نوع انسان کے ہر گوشے کے متعلق راہنمائی فراہم کی ہے اور ایک کم علم رکھنے والا مسلمان بھی اپنے مذہب کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا ۔

آج کے دور میں انسانیت کی تذلیل کا سبب ہی مذہب سے دوری ہے ۔صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنی زندگیوں سے دور کر دیا ہے ۔ انہوں نے مذہب کو صرف چند رسموں تک محدود کر دیا ہے ۔آج بھی اگر تمام انسان اپنے اپنے مذہب کی تعلیمات کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں تو دنیا میں امن و سکون لوٹ سکتا ہے ۔دین اسلام تو مسلمانوں کی قدم قدم پر راہنمائی کرتا ہے ۔مگر اس کے باوجود آج بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ دین انسان کا ذاتی معاملہ ہے مگر کیا یہ بات کہنے سے ہم لوگ دین سے بری الذمہ ہو گئے ۔اگر ذاتی معاملہ ہی ہے تو کم از کم اسے اپنی ذات پر تو لاگو ہونا چاہیے۔شاید اس طرح انفرادی بہتری سے مجموعی بہتری عمل میں آسکے۔ ملک پاکستان کے قیام کی بنیادی وجہ اسے مذہب اسلام کی تجربہ گاہ بننا تھا ۔لیکن ملائوں نے اسے مسجد تک محدود کر دیا۔ اور پھر اس کی مختلف توجیحات کر کے اور اسے قید و پابندیوں میں جکڑ کر عام مسلمانوں کی پہنچ سے بھی دور کر دیا ۔حالانکہ اگر مسلمانوں کو مذہب کی اہمیت یاد دلا دی جاتی اور یہ بات بتا دی جاتی کہ آپ کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی جو آپ نے مذہب کی پیروی کرتے ہوئے کی ہے کبھی رائیگاں نہیں جائے گی۔ بلکہ آپ کے مذہب کا حصہ کہلائے گی۔ تو مسلمان کبھی اپنے مذہب سے دور نہ ہوتے۔
اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمانوں کو دین اسلام کی اہمیت یاد دلائی جائے۔ اور انہیں یہ باور کروایا جائے کہ وہ مذہب کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنالیں ،کیونکہ مذہب صرف عبادات کا نام نہیں بلکہ مذہب عبادات،اخلاقیات اور معاملات کا مجموعہ ہے ۔
وما توفیقی الا باللہ
http://www.tajziat.com/issue/2009/08/detail.php?category=taj&id=1

                                      
سوال کا خلاصہ
نئی دنیا میں دین کی کارکردگی کا کیا اثر ھے؟
سوال
آپ کی نظر میں کیا نئی دنیا میں دین مثبت کردار ادا کرسکتا ھے؟ اس صورت میں کیا اسلام ، ماڈرن(نئی) دنیا کی ضرورتوں کے مطابق کوئی تعبیر بیان کرسکتا ھے؟
اجمالی جواب
" دین" کا لفظ آسمانی اور غیر آسمانی ادیان کو شامل ھوتا ھے چاھے وه تحریف شده ھوں یا غیر تحریف شده۔

ھمارے نظریھ کے مطابق صرف دین اسلام ھی سب زمانوں اور اوقات میں مثبت کردار ادا کرسکتا ھے کیوں کھ یھ دین خاتم اور سب سے کامل الھی دین ھے۔ اس طرح سبھی زمانوں اور انسانی زندگی کے تمام شعبوں ( انفرادی یا اجتماعی ) میں ایک نظریھ اور پروگرام رکھتا ھے ۔ اور ان میں جملھ ھدایت کرسکتا ھے۔ دوسری جانب دین کا دائره علم کے دائرے سے مختلف ھے ۔ علم کی ترقی سے دین کے دائرے اور قانون گزاری میں وسعت ھوئی ھے۔ اجتھاد اور فقھ اسلام کے بے نیاز سرچمشموں سے نئے موضوعات کے احکام واضح ھوتے ھیں۔

دین تین حصوں میں انسان کے لئے ھدایت بنتا ھے۔

ا۔ انسان کا اپنے ساتھه رابطھ کرنے کیلئے۔

۲۔ انسان کا دوسروں کے ( طبیعت اور معاشره ) کے ساتھه رابطھ کرنے کیلئے۔

۳۔ انسان کا خدا کے ساتھه رابطھ کرنے کیلئے۔

اور ان تینوں شعبوں میں یھ اس روش کے مطابق ھے، جس کی بنیاد اھل بیت علیھم السلام نے ڈالی ھے اور جس کا نام اجتھاد رکھا گیا ھے۔

تفصیلی جواب
دین ایک عام لفظ ھے، جو سب ادیان آسمانی یا غیر آسمانی ، تحریف شده یا غیر تحریف شده ( جیسے اسلام ) کو شامل ھے۔ ھمارے نظریھ کے مطابق صرف اسلام ھی ایسا دین ھے جو ھر زمانے اور وقت میں ایک مثبت کردار ادا کرسکتا ھے۔ جبکھ دوسرے ادیان اس طرح کی صلاحیت سے محروم ھیں کیوں کھ صرف اسلام ھی سب سے کامل اور خاتم دین ھے ۔

بنیادی طور پر دین کی کارکردگی علم کی کارکردگی کے  دائرے سے بالکل مختلف ھے۔ انسان کےلئے ضرورتِ دین کی دلیل ایسے امور کا موجود ھونا ھے جنھیں حاصل کرنے میں انسان کی عقل ، حس اور اس کا تجربھ کافی نھیں ھے۔ یھ مطلب ، یعنی انسان کے ادراکی آلات کا محدود ھونا فلسفیانھ بحثوں میں عقل کی تائید کو پھنچا ھے، اور قرآن مجید نے بھی، اس کی جانب اشاره کیا ھے ۔ قرآن فرماتا ھے ۔ "علمکم ما لم تکونوا تعلمون"[1] آپ کو وه چیزیں سکھائیں جنھیں آپ نھیں جانتے تھے اس خصوصیت کے ساتھه انسان کبھی بھی ایک ایسے نقطھ تک نھیں پھنچ سکتا جھاں پر وه دین سے بے نیاز ھو۔ دین نے تین شعبوں میں انسان کےلئے لائحھ عمل پیش کیا ھے اور یھ تین طرح کے رابطوں کو صحیح کرنے کےلئے آیا ھے۔

الف) انسان کا اپنے ساتھه رابطھ۔

ب) انسان کا دوسروں کے ساتھه رابطھ۔

ج) انسان کا خدا کے ساتھه رابطھ۔

اس لحاظ سے دین آخرت کی طرف توجھ کرنے کے ساتھه ساتھه  دنیا کی جانب بھی توجھ کرتا ھے۔ اسلام ایک ایسی دنیا کو آباد کرنا چاھتا ھے جس میں آخرت بھی آباد ھوجائے اور یھ چیز دنیاوی اخلاق کے عھدے سے باھر ھے ۔ دین دل کی طرف بھی توجھ کرتا ھے اور عقل کی طرف بھی۔ سائنس، کس طرح ایک ایسے انسان کی سعادت  کے بارے میں ایک جامع دستور العمل  پیش کرسکتی ھے، جب کھ وه انسانی  وجود کے ابعاد کو پوری طرح سے نھیں پھچان سکی ھے۔

اگرچھ انسانی علوم کار آمد ھیں لیکن یھ علوم اکیلے ھی کسی مناسب طریقھ کار کو تشکیل دینے میں ھماری مدد نھیں کرسکتے ھیں اور ھر طرح کے مذھب فلسفھ اور نظام تشکیل دینے سے عاجز ھیں جبکھ انسان کو ھر چیز سے پھلے دستور العمل اور مذھب کی ضرورت ھے اور اس کے بعد طریقھ کار کی ، اسلام نے طریقھ کار کو تشکیل دینا خود انسان کے اوپر چھوڑا ھے۔ اور دین ایسے امور کو بیان کرتا ھے جنھیں علم اکیلا سنبھالنے پر قادر نھیں۔

ٹیکنالوجی کی ترقی سے دین کی قانون گزاری اور اس کا دستور وسیع تر ھوجاتا ھے اور نئے موضوعات کے انکشاف سے ھوشمند اسلامی فقھاء ، نئے موضوعات کے احکام کو فقھ کے بے نیاز منابع سے استنباط کرتے ھیں۔ اسلامی ثقافت میں اجتھاد کے وسیع دائرے کے ھوتے ھوئے اسلامی احکام کے زمانه اور ماڈرن انسان کی ضرورتوں کے مطابق ھونے میں کسی طرح کے شک و شبھھ کی گنجائش نھیں ھے۔

دوسری جانب اگر یھ بات صحیح ھوتی کھ علم اور ٹیکنالوجی کی ترقی انسان کو دین سے بے نیاز کرتی ھے تو  ظھور اسلام کے ایک صدی یا دو صدیوں کے کے بعد ھی  ، انسان دین سےبے نیاز ھونے کو ثابت کردیتا ، اور اپنی عقل کے مطابق باقی راستھ طے کرلیتا ۔ جبکھ عصری تاریخ اس بات  کے باطل ھونے کی واضح دلیل ھے۔ انسان کو نھ صرف دین سے بے نیازی کا احساس نھیں ھے بلکھ رنسانس(Renaissance ) (یورپ کی نشأۃ ثانیھ ۱۴ سے ۱۶ صدی عیسوی )  کے بعد دین سے مقابله کرنے میں اور اس سلسلے میں بھت زیاده تلخیاں اٹھا کر آج کے دور میں ھر لحظھ دین سے نزدیک تر ھوتا جارھا ھے کیونکھ وه اس کی ضرورت کا احساس کررھا ھے۔

اس سلسلے میں مزید معلومات کیلئے رجوع کریں۔

۱۔ دین اسلام کی خاتمیت کے اسرار، سوال نمبر ۳۸۶۔

۲۔ دین اور تغیر ، سوال نمبر ۸

۳۔ اسلام اور ایک دستور کی ضرورت ، سوال نمبر ۱۶۔

۴۔ اسلام اور نظریھ اندیشھ مدون۔ سوال نمبر ۱۷۔

۵۔ علم اور دین کا آپسی تقابل ، سوال ۲۱۰۔

۶۔ ولایت اور دیانت ص ۵۶، ۱۳۔ موسسھ فرھنگی خانھ خرد۔

۷۔ ھادوی تھرانی ، مھدی ، باورھا و پرسشھا ، مجموع کتاب، موسسھ فرھنگی خانھ خرد۔

۸۔ ھادوی تھرانی ، مھدی ، مبانی کلامی اجتھاد ، مجموع کتاب موسسھ فرھنگی خانھ خرد۔ 1۴


[1]  سوره بقره / ۲۳۹


خدا کی معرفت کیوں ضروری ھے؟


جب یہ بات اپنی جگہ مسلم ھے کہ کوئی بھی فعل بغیر علت کے نھیں ھوتا تو پھر اس دنیا کے خالق کی معرفت اور اس کو پہچاننے کے لئے بھی کوئی نہ کوئی علت اور سبب ھونا چاہئے، چنانچہ فلاسفہ اور دانشوروں نے خدا شناسی کے لئے تین بنیادی وجھیں اور علتیں بیان کی ھیں،جن پر قرآن کریم نے واضح طور پر روشنی ڈالی ھے:
۱۔ عقلی علت ۔
۲۔ فطری علت ۔
۳۔ عاطفی علت ۔


عقلی علت
انسان کمال کا عاشق ھوتا ھے، اور یہ عشق تمام انسانوں میں ھمیشہ پایا جاتا ھے، انسان جس چیز میں اپنا کمال دیکھتا ھے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ھے،البتہ یہ بات علیحدہ ھے کہ بعض لوگ خیالی اور بےھودہ چیزوں ھی کو کمال اور حقیقت تصور کربیٹھتے ھیں۔
کبھی اس چیز کو ”منافع حاصل کرنے اور نقصان سے روکنے والی طاقت“ کے نام سے یاد کیا جاتا ھے کیونکہ انسان اسی طاقت کی بنا پر اپنی ذمہ داری سمجھتا ھے کہ جس چیز میں اس کا فائدہ یا نقصان ھو اس پر خاص توجہ دے۔
انسان کی اس طاقت کو ”غریزہ“ کا نام دینا بہت مشکل ھے کیونکہ معمولاً غریزہ اس اندرونی رجحان کو کھا جاتا ھے جو انسان اور دیگر جانداروں کی زندگی میں بغیر غور و فکر کے اثر انداز ھوتا ھے اسی وجہ سے حیوانات کے یھاں بھی غریزہ پایا جاتا ھے۔
لہٰذا بہتر ھے کہ اس طاقت کو ”عالی رجحانات“کے نام سے یاد کیا جائے جیسا کہ بعض لوگوں نے اس کا تذکرہ بھی کیاھے۔
بھر حال انسان کمال دوست ھوتا ھے اور ھر مادی و معنوی نفع کو حاصل کرنا چاہتا ھے اور ھر طرح کے ضررو نقصان سے پرھیز کرتا ھے چنانچہ اگر انسان کو نفع یا نقصان کا احتمال بھی ھو تو اس چیز پر توجہ دیتا ھے اور جس قدر یہ احتمال قوی تر ھوجاتا ھے اسی اعتبار سے اس کی توجہ بھی بڑھتی جاتی ھے، لہٰذایہ ناممکن ھے کہ انسان اپنی زندگی میں کسی چیز کو اھم و موثر مانے لیکن اس سلسلہ میں تحقیق و کوشش نہ کرے۔
خدا پر ایمان اور مذھب کا مسئلہ بھی انھیں مسائل میں سے ھے کیونکہ مذھب کا تعلق انسان کی زندگی سے ھوتا ھے اور اسی سے انسان کی سعادت اور خوشبختی یا شقاوت اور بدبختی کا تعلق ھوتا ھے، اور اسی کے ذریعہ انسان سعادت مند ھوتا ھے یا بدبخت ھوجاتا ھے،اور ان دونوں میں ایک گھرا ربط پایا جاتا ھے۔
اس بات کو واضح کرنے کے لئے بعض علمامثال بیان کرتے ھیں: فرض کیجئے ھم کسی کو ایک ایسی جگہ دیکھيں جھاں سے دوراستے نکلتے ھوں ، اور وہ کھے کہ یھاں پر رکنا بہت خطرناک ھے اور (ایک راستہ کی طرف اشارہ کرکے )کھے کہ یہ راستہ بھی یقینی طور پر خطرناک ھے لیکن دوسرا راستہ ”راہ نجات“ ھے اور پھر اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے کچھ شواھد و قرائن بیان کرے، تو ایسے موقع پر گزرنے والا مسافر اپنی یہ ذمہ داری سمجھتا ھے کہ اس سلسلہ میںتحقیق و جستجو کرے ،ایسے موقع پر بے توجھی کرنا عقل کے برخلاف ھے۔
1
جیسا کہ ”دفعِ ضررِمحتمل “(احتمالی نقصان سے بچنا) ایک مشھور و معروف قاعدہ ھے جس کی بنیاد عقل ھے، قرآن کریم نے پیغمبر اکرم (ص)سے خطاب کرتے ھوئے فرمایا
< قُلْ اٴَرَاٴَیْتُمْ إِنْ کَانَ مِنْ عِنْدِ اللهِ ثُمَّ کَفَرْتُمْ بِہِ مَنْ اٴَضَلُّ مِمَّنْ ہُوَ فِی شِقَاقٍ بَعِیدٍ
2
آپ کہہ دیجئے کہ کیا تمھیں یہ خیال ھے اگر یہ قرآن خدا کی طرف سے ھے اور تم نے اس کا انکار کردیا تو اس سے زیادہ کون گمراہ ھوگا“۔
البتہ یہ بات ان لوگوں کے سلسلہ میں ھے جن کے یھاں کوئی دلیل و منطق قبول نھیں کی جاتی ، در حقیقت وہ آخری بات جو متعصب، مغرور اور ہٹ دھرم لوگوں کے جواب میں کھی جاتی ھے، وہ یہ ھے : اگر تم لوگ قرآن، توحید اور وجود خدا کی حقانیت کو سوفی صد نھیں مانتے تو یہ بات بھی مسلم ھے کہ اس کے بر خلاف بھی تمھارے پاس کوئی دلیل نھیں ھے، لہٰذا یہ احتمال باقی رہ جاتا ھے کہ قرآنی دعوت اور قیامت واقعیت رکھتے ھوں تو اس موقع پر تم لوگ سوچ سکتے ھو کہ دین خدا سے گمراھی اور شدید مخالفت کی وجہ سے تمھاری زندگی کس قدر تاریکی اور اندھیرے میں ھوگی۔
اس بات کو ائمہ علیھم السلام نے ہٹ دھرم لوگوں کے سامنے آخری بات کے عنوان سے کی ھے،جیسا کہ اصول کافی میں ایک حدیث نقل ھوئی ھے جس میں حضرت امام صادق علیہ السلام نے اپنے زمانہ کے ملحد و منکر خدا ”ابن ابی العوجاء“ سے متعدد مرتبہ بحث و گفتگو فرمائی ھے،اور اس گفتگو کاآخری سلسلہ حج کے موسم میں ھوئی ملاقات پر تمام ھواجب امام علیہ السلام کے بعض اصحاب نے آپ سے کھا: کیا ”ابن ابی العوجاء“ مسلمان ھوگیا ھے؟!تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اس کا دل کھیں زیادہ اندھا ھے یہ ھرگز مسلمان نھیں ھوگا، لیکن جس وقت اس کی نظر امام علیہ السلام پر پڑی تو اس نے کھا: اے میرے مولا و آقا!
امام علیہ السلام نے فرمایا: ”ماجاءَ بِکَ إلیٰ ہذَا المَوضِع“ (تو یھاں کیا کررھا ھے؟)
تو اس نے عرض کی: ”عادة الجسد، و سنة البلد، و لننظر ما الناس فیہ من الجنون و الحلق و رمی الحجارة!“ (کیونکہ بدن کو عادت ھوگئی ھے اور ماحول اس طرح کا بن گیا ھے ، اس کے علاوہ لوگوں کا دیوانہ پن، ان کا سرمنڈانا اور رمی ِجمرہ دیکھنے کے لئے آگیا ھوں!!)
امام علیہ السلام نے فرمایا: اٴَنْتَ بعدُ علیٰ عتوک و ضلالک یا عبدَ الکریم! (اے عبد الکریم!تو ابھی بھی اپنے ضلالت و گمراھی پر باقی ھے

اس نے امام علیہ السلام سے گفتگو کا آغاز کرنے کے لئے کھا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ”لا جدال فی الحج“(حج، جنگ و جدال کی جگہ نھیں ھے) اورامام علیہ السلام نے اس کے ھاتھ سے اپنی عبا کو کھینچتے ھوئے یہ جملہ ارشاد فرمایا: ”ان یکن الامر کما تقول۔ ولیس کما تقول۔ نجونا ونجوت ۔ وان یکن الامر کما نقول ۔وھو کمانقول۔نجونا وھلکت“!:
اگر حقیقت ایسے ھی ھے جیسے تو کہتا ھے کہ (خدا اورقیامت کا کوئی وجود نھیں ھے) جب کہ ھرگز ایسا نھیں ھے، تو ھم بھی اھل نجات ھیں اور تو بھی، لیکن اگر ھمارا عقیدہ ھے ،جب کہ حق بھی یھی ھے تو ھم اھل نجات ھیں اور تو ھلاک ھوجائے گا“۔
ابن ابی العوجاء“ نے اپنے ساتھی کی طرف رخ کیا اور کھا: ”وجدت فی قلبی حزازة فردونی،فردوہ فمات“ (میں اپنے دل میں درد کا احساس کررھا ھوں، مجھے واپس لے چلو، چنانچہ جیسے ھی اس کو لے کر چلے تو تھوڑی ھی دیر بعدوہ اس دنیا سے رخصت ھوگیا۔ 
4 5

۲۔ جذبہٴ محبت
اشارہ:
ایک مشھور و معروف ضرب المثل ھے کہ ”انسان احسان کا غلام ھوتا ھے“ (الانسان عبید الاحسان)
یھی مطلب تھوڑے سے فرق کے ساتھ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی حدیث میں بھی نقل ھوا ھے کہ آپ نے فرمایا:
الإنسان عبد الإحسان“ 

انسان، احسان کا غلام ھے“۔
نیزامام علیہ السلام نے ایک دوسری حدیث میں فرمایا:
بالإحسان تملک القلوب“ 

احسان کے ذریعہ انسان کے قلوب کو مسخر کیا جاتا ھے “۔
نیز ایک دوسری حدیث میں حضرت علی علیہ السلام سے مروی ھے:
وافضِلْ علیٰ من شئت تکن اٴمیرہ“ 
8
ھر شخص کے ساتھ احسان کرو تاکہ اس کے حاکم بن جاوٴ
ان تمام مطالب کا سرچشمہ حدیث ِپیغمبر اکرم (ص)ھے کہ آپ نے فرمایا:
إنَّ اللهَ جَعَلَ قُلُوب عبادِہِ علیٰ حُبَّ مَنْ اٴحسَنَ إلیھا ،و بغض من اٴساء إلیھا“ 
9
خداوندعالم نے اپنے بندوں کے دلوں کو اس شخص کی محبت کےلئے جھکادیا ھے جو ان پر احسان کرتا ھے اور ان کے دلوں میں اس شخص کی طرف سے عداوت ڈال دی ھے جو ان سے بدسلوکی کرتا ھے“۔
مختصر یہ کہ یہ ایک حقیقت ھے کہ اگر کوئی شخص کسی کے ساتھ احسان کرے یا اس کی کوئی خدمت کرے یا اس کو کوئی تحفہ دے تو وہ شخص بھی اس سے محبت کرتا ھے، اور نعمت عطا کرنے والے اور احسان کرنے والے سے مانوس ھوجاتا ھے، اور چاہتا ھے کہ اس کو مکمل طریقہ سے پہچانے، اور اس کا شکریہ ادا کرے، اور یہ بات بھی طے ھے کہ نعمت اور احسان جتنے اھم ھوتے ھیں ”منعم“ (یعنی نعمت دینے والے) کی نسبت اس کی محبت اور اس کی پہچان بھی زیادہ ھوتی ھے۔
اسی وجہ سے علمائے علم کلام (عقائد) قدیم الایام سے مذھب کی تحقیق کے سلسلہ میں ”شکرِ منعم“ (نعمت عطا کرنے والے کا شکریہ ادا کرنے کو ) معرفت خدا کی علتوں میں سے ایک علت شمار کرتے ھیں۔
لیکن اس بات پر بھی توجہ رکھنا چاہئے کہ ”شکر منعم“کا مسئلہ عقلی حکم سے پھلے ایک عاطفی مسئلہ ھے، اس مختصر سے اشارہ کو عرب کے مشھور و معروف شاعر ”ابو الفتح بستی“ کے شعر پر ختم کرتے ھیں:
احسن إلی النَّاس تَستعبد قلوبَھُم
فطالما استعبد الإنسان إحسان
لوگوں کے ساتھ نیکی کرو تاکہ ان کے دل پر حکومت کرسکو ، بے شک انسان احسان کا غلام ھوتا ھے“۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ھے کہ آپ نے فرمایا: ” ایک روز رسول اکرم عائشہ کے حجرے میں تھے تو عائشہ نے سوال کیا کہ آپ اس قدر کیوں خود کو (عبادت کے لئے) زحمت میں ڈالتے ھیں؟ جبکہ خداوندعالم نے آپ کے گزشتہ اور آئندہ کے الزاموں کو معاف کردیا ھے“ 
10
آنحضرت (ص)نے فرمایا: ”إلاّٰ اکون عبداً شکوراً
11 (کیا مجھے اس کا شکر گزار بندہ نھیں ھونا چاہئے؟)

۳۔ فطری لگاؤ:
اشارہ:
جس وقت فطرت کے بارے میں گفتگو ھوتی ھے تو اس سے مراد اندرونی ادراک و احساس ھوتا ھے جس کے اوپر کسی عقلی دلیل کی کوئی ضرورت نھیں ھوتی۔
جس وقت ھم ایک دلکش منظر ، یا خوبصورت باغ اور چمن دیکھتے ھیں اور ھمارے دل میں اس خوبصورت منظر کے پیش نظر کشش محسوس ھوتی ھے تو اندر سے ھمارا احساس آواز دیتا ھے کہ اس کشش اور لگاؤ کا نام عشق یا خوبصورتی رکھ دیا جائے، جبکہ یھاں کسی بھی طرح کے استدلال کی کوئی ضرورت نھیں ھوتی۔
جی ھاں! خوبصورتی کا احساس کرنے والی یہ طاقت ،انسان کی بلند پرواز روح کے خواھشات اور رجحانات میں سے ھے، مذھب کے سلسلہ میں یہ کشش خصوصاً معرفت خدا کا مسئلہ بھی ایک اندورنی اور ذاتی احساس ھے، بلکہ انسان کے اندر سب سے بڑی طاقت کا نام ھے۔
اسی وجہ سے ھم کسی قوم و ملت کو نھیں دیکھتے (نہ آج اور نہ ماضی میں ) کہ ان کے یھاں مذھبی عقائد نہ پائے جاتے ھوں، جس سے معلوم ھوتا ھے کہ یہ عمیق احساس ھر انسان کے یھاں پایا جاتا ھے۔
قرآن مجید نے عظیم الشان انبیاء کے قیام کے واقعات کو بیان کرتے ھوئے اس نکتہ پر توجہ دی ھے کہ رسالت کی ذمہ داری شرک و بت پرستی کا خاتمہ تھا (نہ کہ خدا کے وجود کو ثابت کرنا، کیونکہ یہ موضوع تو ھر انسان کی فطرت میں پوشیدہ ھے)
یا دوسرے الفاظ میں یوں کھا جائے کہ انبیاء علیھم السلام یہ نھیں چاہتے تھے کہ ”خدا پرستی کا درخت“ لوگوں کے دلوں میں لگائیں بلکہ ان کا مقصد یہ ھوتا تھا کہ ان کے دلوں میں موجود اس درخت کی آبیاری کریںاور اس کے پاس سے بے کار گھاس اور کانٹوں کو ہٹادیں جن کی وجہ سے کبھی یہ درخت بالکل خشک ھوسکتا ھے یھاں تک کہ جڑ سے اکھڑ جاتا ھے۔
الاَّ تعبد وا إلاَّ الله“ یا ”الَّا تعبدوا إلاَّ إیاہُ“ (خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نھیں کرو) اس جملہ میں بتوں کی پوجا سے روکا جارھا ھے نہ یہ کہ وجود خدا کو ثابت کیا جارھا ھے، اور یہ جملہ بہت سے انبیاء کی گفتگو میں بیان ھوا ، منجملہ حضرت پیغمبر اکرم (ص)کی تبلیغ میں 
12جناب نوح علیہ السلام کی تبلیغ میں 13 جناب یوسف علیہ السلام کی تبلیغ میں 14اور جناب ھود علیہ السلام کی تبلیغ میں بیان ھوا ھے۔ 15

اس کے علاوہ ھمارے دل و جان میں دوسرے فطری احساسات بھی پائے جاتے ھیں جیسے علم و دانش ؛ جن کے بارے میں بہت زیادہ شوق و رغبت ھوتی ھے۔
کیا یہ ممکن ھے کہ اس وسیع و عریض دنیا کے عجیب و غریب نظام کو تو دیکھیں لیکن اس نظام کے پیدا کرنے والے کی معرفت و شناخت کے سلسلہ میں کوئی شوق ورغبت نہ ھو؟
کیا یہ ممکن ھے کہ ایک دانشور چیونٹیوں کی شناخت کے بارے میں بیس سال تک ریسرچ کرے اور دوسرا دسیوں سال پرندوں یا درختوں، یا دریائی مچھلیوں کے بارے میں تحقیق کرے ، لیکن اس کے دل میں علم کا شوق نہ پایا جاتا ھو؟ کیا یہ لوگ اس وسیع و عریض دنیا کے سرچشمہ کی تلاش نھیں کریں گے؟!
جی ھاں! یہ تمام چیزیں ھمیں ”معرفت خدا“کی دعوت دیتی ھیں، ھماری عقل کو اس بات کی طرف بلاتی ھیں، ھماری عاطفی طاقت کو اس طرف جذب کرتی ھیں اور ھماری فطرت کو اس راستہ کی طرف لگاتی ھیں۔ 
16




1. تفسیر پیام قرآن ،جلد
۲، ص۲۴۔
2. سورہ فصلت آیت
۵۲۔
3. ”عبد الکریم “ کا اصلی نام ”ابن ابی العوجاء“ تھا،کیونکہ وہ منکر خدا تھا لہٰذا امام نے خاص طور سے اس کواس نام سے پکارا تاکہ وہ شرمندہ ھوجائے۔
4. کافی، جلد اول، صفحہ
۶۱، (کتاب التوحید باب حدوث العالم)
5. تفسیر نمونہ ج
۲۰، صفحہ ۳۲۵۔
6. غررالحکم۔
7. غررالحکم۔
8. بحار الانوار ، جلد
۷۷، صفحہ ۴۲۱ ( آخوندی)
9. تحف العقول ص
۳۷ (بخش کلمات پیامبر (ص))
10. سورہٴ فتح کی پھلی آیت کی طرف اشارہ ھے اور اس کی تفسیر کی وضاحت تفسیر نمونہ کی جلد
۲۲، کے صفحہ ۱۸ پر موجود ھے۔
11. اصول کافی ،جلد
۲،باب الشکر حدیث۶۔
12. سورہٴ ھود، آیت
۲۔
13. سورہٴ ھود، آیت
۲۶۔
14. سورہٴ یوسف، آیت
۴۰۔
15. سورہٴ احقاف ، آیت
۲۱۔
16. تفسیر پیام قرآن ، جلد
۲، صفحہ ۳۴۔


http://www.sadeqin.com/ur/q_a.php?mod=4&id=954

لوگوں کو دین کی ضرورت کیوں ہے ؟
کیایہ کافی نہیں کہ لوگوں کی زندگی کی حفاظت اور ضبط کے لۓ قوانین بناد‏یۓ جائیں

Tue 9 Raj 1436 - 28 April 2015
للہ الحمد
انسان کواس کی دوسری ضروریات زندگی سے بھی زیا دہ دین کی ضرورت ہے کیونکہ انسان کے لۓ یہ ضروری ہے کہ وہ ان مواقع کوجانے جس سے اللہ تعالی کی رضاحاصل ہوتی ہے اور اسی طرح ان مواقع کوبھی جانناضروری ہے جواس کی ناراضگی کاباعث بنتے ہیں ۔
اور اسی طرح ایسےکام اور حرکت کرنی بھی ضروری ہے جوکہ نافع اور اس کے اس کے نقصان کودورکرےاور یہ شریعت ہی ہےجوان اشیاء اور کاموں میں تمیزکرتی ہے کہ کونسی چیزنافع اور کونسی نقصان دہ ہے اور یہ شریعت ہی لوگوں کے درمیان اللہ تعالی کاعدل وانصاف ہے اور اس کے بندوں کےدرمیان اس کانوراورروشنی ہے ۔
تولوگوں کے لۓ یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ایسی شریعت کے بغیرزندگی گزارسکیں جس سے وہ یہ تمیزکر سکیں کہ انہوں نےکون ساکام کرنااور کون سانہیں کرنا ۔
تواگرانسان کے لۓارادہ ہے تو پھریہ بھی ضروری ہے کہ وہ جوچاہتا ہے اس کے لۓاس کی معر فت بھی ضروری ہے ، اور کیا وہ نفع مند ہے یا کہ نقصان دہ ، اور کیا وہ میری اصلاح کرےگا یا کہ اسے فسادمیں مبتلا کردے گا ؟
تواسے کچھ لوگ تواپنی فطرت اور بعض اپنی علتوں کے استدلال کے ساتھ جانتے ہوں گے اور بعض کواس کاعلم نہیں اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک کہ انہیں رسول بیان نہ کردیں اور انہیں اس کی راہ نہ دکھادیں اور رسول ان کے لۓ اس کی تعرف نہ کر دیں ۔
دیکھیں کتاب : التدمر یۃ تالیف شیخ الاسلام ابن تیمیہ صفحہ نمبر (213۔ 214)
اور مفتاح دارالسعادۃ جلدنمبر (2۔ صفحہ نمبر ۔383)
مادی اور الحادی مذھب کا گراف جتنابھی بلندی پرچلاجائے اور وہ خوبصورتی اختیار کرلے اورجتنےبھی افکارونظریات پیدا ہوجائیں تو پھر بھی معاشرے اورافرادکودین صحیح سے مستغنی اور کفایت نہیں کرتے اورنہ ہی ان میں یہ سکت اورطاقت ہے کہ وہ روح اورجسم کی طلبات پورا کرسکیں بلکہ آدمی جتنابھی اس میں داخل ہوگا اسے اتناہی یقین کامل ہوگایہ امن نہیں دے سکتے اورنہ ہی پیاسے کی پیاس بجھاسکتے ہیں ۔
تواس سے چھٹکاراحاصل کرکے دین صحیح کے علاوہ کوئی ایسی چیزنہیں جہاں پر بھاگ کرجایاجا‏ئے ، ارنسٹ رینن کا کہنا ہے کہ ( یہ ممکن ہے کہ ہروہ چیزجسے ہم پسندکرتے ہیں وہ نیست ونابود اورتباہ ہوجا‏ئے اور عقل وعلم اورصنعت کااستعمال زندگی باطل اور ختم ہو جائے لیکن یہ مستحیل اور ناممکن ہے کہ دین ا ختیارکرنااوردین دارہونانیست ونابوداور تباہی کا شکارہوبلکہ مادییت کے مذا ھب کوباطل کرنے والی دلیل وحجت باقی رہے گی وہ مادی مذھب جوانسان کوزمینی زندگی کے اندر کمینی قسم کی سختیوں میں گھیر نے کی کوشش میں رہتاہے )
دیکھیں کتاب : الدین تالیف : عبداللہ دراز صفحہ نمبر ( 87)
اورمحمدفریدوجدی کا قول ہےکہ :
( یہ مستحیل ہے کہ دینی سوچ اور دین اختیارکر نےکی سوچ نیست ونابوداور اس کا وجودختم ہو جائے کیونکہ یہ میلان نفس کی سب سے بلندی ہے اور اس کی شفقت ونرمی کا سب سے اچھادرجہ ہے اور ایسے مبالغہ والا میلان ہے جوکہ انسان کے سرکوبلندکرتا ہے بلکہ یہ میلان اور زیادہ ہوتاہے ۔
توجب تک انسان عقل ودانش رکھتا ہے جس کے ساتھ اسے خوبصورتی اوربدصورتی کی پہچان ہوتی ہے تودین اختیارکر نے کی فطرت اسے ادراک وفہم اور معرفت میں زیادتی کے حساب سے لازمی اور ضروری مل کررہے گی )
دیکھیں کتاب :الدین۔صفحہ نمبر : (87)
تو جب انسان اپنے رب سے دورجاتا ہے تووہ اپنے ادراک میں بلندی اور علم کی وسعت کے حساب سے اسے اپنے رب کے ساتھ اور جواس پرواجب ہے میں جہالت کی عظمت کا ادراک ہوتا ہے کہ وہ کتنی بڑی جہالت میں ہے اوراسی طرح اپنے نفس کے لۓان اشیاءسے جو کہ اس کی اصلاح یاپھراسے خراب کریں اور اس میں اس کی سعادت مندی ہے یا کہ بدبختی میں جہا لت کا ادرا ک ہوتاہے ۔
اور اسی طرح اس کا علوم کی جزئیات اور مفردات میں جاہل ہونا مثلافلکیات کا علم اور علم کہکشاں اور کمپیوٹرکاعلم اور اسی طرح ایٹمی علم سے بھی اسے اپنی جہالت کی کیفیت کااد را ک ہوتاہے ۔
تواس وقت عالم غروراور تکبر کےمرحلہ سے تواضع اور عاجزی اور انکساری اور تسلیم کے مرحلے کی طرف لوٹتا ہے اور پھراس کا اعتقادبن جاتاہے کہ ان علوم کے پیچھے کوئی ایساعالم اور حکمت والا ہےاوراس طبیعت کے پیچھے کوئی خالق ہے جوکہ اس کی قدرت رکھتا ہے ۔
تویہ حقیقت حال ایک انصاف کے متلاشی کویہ لازم کرتی ہے کہ وہ غیب پرایمان لائے اورسیدھے اورمضبوط دین کا اقرارکرے اور اس کی اطاعت میں داخل ہواور فطرتی اورطبعی پکار کو قبول کرے ، تواگرانسان اس سے کنارہ کرے گاتواس فطرت الٹ ہوجائے گی اور وہ ان حیوانات کی صف میں شامل ہوجائے گاجو کہ گونگےاور بےعقل ہیں ۔
اور خلاصہ یہ کہ دین حق کو اختیارکرنا چا ہیے ۔ وہ دین جو کہ اللہ تعالی کی توحیداوراسے ا کیلا ماننے پرمبنی ہواور اس اللہ وحدہ کی عبادت اللہ کے مشروع کردہ طریقے کے مطابق ہونی چاہۓ ۔تواس دین کوا ختیارکرنازندگی کا ضروری عنصر ہے تا کہ انسان اللہ رب العالمین کی بندگی حاصلی کر سکےاور دونوں جہانوں میں اپنی سعادت کوحاصلی کر ے اور ہلا کت اور تکالیف سے سلامت ر ہے ۔
اور یہ اس لۓ بھی ضروری ہے کہ تا کہ انسان اپنی نظریاتی قوت وطاقت کو پورا کرسکے تواسی ایک چیزکے ساتھ ہی عقل اپنی خواہشات کی تکمیل کر سکتی ہے اور اسکے بغیر اس کےبلند بالامقاصدپور ے نہیں ہوسکتے ۔
اور روح کے تزکیہ اور قوت و جدان کی تھذیب کے لۓ یہ ایک ضروری عنصر ہے جبکہ انتہائی شرافت دین میں عوج ثریا کی مجال ہے اور ایساگھاٹ ہے کہ جس کا پانی ختم نہیں ہو سکتااور اس میں اپنی غرض وغایت حاصلی کی جاسکتی ہے ۔
اورعنصر اس لۓ بھی ضروری ہے تا کہ قوت ارادی مکمل ہو جوسب سے عظیم سبب اور دوافع کے ساتھ زیا دہ اورناامیدی اور مایوسی سے بچانے والے سب سے بڑے وسائل کے ساتھ مضبوطی اختیارکر تا ہے ۔
تواس بناپر تواگر کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ انسان طبعی طورپر شہری ہے توہم بھی یہ ضرور کہیں گے ( بیشک انسان فطرتی طورپر دین داراورمتدین ہے )
دیکھیں کتاب ،، الدین ،، تالیف عبداللہ دراز ۔صفحہ نمبر ۔ (84۔85)
کیو نکہ انسان کی دوقوتیں ہیں ،، علمی نظریاتی قوت ،، اور ،،علمی ارادی قوت ،،اورانسان کی مکمل سعادت مند ی اس کی علمی ارادی قوت پرموقوف اوراسکادارومدارہے اورقوت علمی کی تکمیل اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک کہ مندرجہ ذیل امورکی معرفت نہ ہو :
1۔ اس معبود کی معرفت جو کہ خالق اوررازق ہے اور جس نے انسان کو عدم سے وجوددیا اوراس پر اپنی نعمتیں مکمل کیں ۔
2 ۔اللہ تعالی کےاسماء اور اس کی صفات کی معرفت وپہچان اورجواس کے واجبات ہیں اوران اسماء کااس کےبندوں پراثرکی بھی معرفت ۔
3 ۔ان راستوں کی پہچان اور معرفت جن کے ذریعے اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف پہنچاجاسکتا ہے ۔
4 ۔ان آفات اورعمل سےروکنے والی چیزوں کی معرفت جوکہ انسان اوراس راستے اوراس تک جو عظیم نعمتیں حاصلی ہوتی ہیں ان کے درمیان حائل ہوں ان کی معرفت ۔
5 ۔اپنے نفس کی حقیقی معرفت اور جن کا یہ محتاج اور جواس کی اصلاح کریں یا اس کے فساد کاباعث ہوں اور ان کی عیبوں اور ممیزات کی معرفت جس پریہ مشتمل ہے ۔
توان پانچ چیزوں کی معرفت سےانسان کی قوت علمی کامل ہوتی ہے اورقوت علمی ارادی کی تکمیل اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک کہ اللہ تعالی کے ان حقوق کاخیال نہ رکھاجائے جو کہ بندے پر ہیں اورپھر یہ حقوق اخلاص اور صدق وخیر خواہی اوراتباع واطاعت اوراپنے اوپر اس کےاحسان کی گواہی کے ساتھ اداہونےضروری ہیں ۔
اور یہ دونوں قوتیں اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک کہ اللہ تعالی کی مددوتعاون شامل حال نہ ہوتوبندہ مجبور ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی اسے صراط مستقیم کی ہدایت دے جس نے اپنے اولیاء کواس صراط مستقیم کی ہدایت دی ہے ۔
دیکھیں : الفوائد صفحہ نمبر ۔ (18۔19)
یہ علم ہوجانے کے بعد کہ صحیح دین ہی مختلف نفسوں کی تقویت کے لۓ مددالہی ہے کیونکہ دین ہی معاشرہ کے لۓ بچاؤ کی ڈھال ہے اور اس لۓ کہ انسانی زند گی کا قیام اس کے اعضاء کے درمیان تعاون کے ساتھ ہی ممکن ہے اور یہ تعاون اس وقت تک پورانہیں ہوتاجب تک کہ کوئی ایسانظام نہ ہوجوکہ ان کے علاقات کی تنظیم اور ان کےواجبات کی تحدیدکرےاور ان کے حقوق کا کفیل ہو ۔
اور یہ نظام کسی ایسی سلطان اوردلیل کے بغیرنہیں ہوسکتا جو کہ مخالفت کوروکنے والی اورنفس کوبے عزت ہونے سے روکے اور اسے اس کی حفاظت کی رغبت ہواورنفوس میں اس کی ہیبت کی ضامن ہو اوراس کے محرمات کوتوڑنےسےمحفوظ رکھےتویہ دلیل کیا ہے ؟
میں کہتاہوں : کہ روئےزمیں پرکوئی ایسی قوت نہیں جوکہ دین اختیارکر نے کی قوت کا مقابلہ کرسکےیانظام کے احترام کرنےمیں اس کی برابری ہی کرسکتی ہو ، اورمعاشرےکےنظام کے استقراراوراس کے ٹھراؤاور اجتماعیت اور اس میں راحت کے اسباب اورمعاشرے کےاندراطمنان کی ضامن ہو ۔
اوراس میں رازیہ ہے کہ جتنی بھی جاندارمخلوقات ہیں ان میں سےانسان کویہ امتیازحاصلی ہے کہ اس کی حرکات وسکنات اور تصرفات اختیاری جس کی قیادت ایک ایسی چیز کررہی ہے جسے آنکھیں اورکان نہیں پاسکتے اوریقینی طورپرعقیدہ ایمانی ہے جوکہ روح کومہذب بناتااوراعضاء کاتزکیہ کرتا ہے توانسان ہمیشہ یاتوعقیدہ صحیح کےساتھ چلتا ہے یاپھرعقیدہ فاسدہ کےساتھ تواگراس کاعقیدہ صحیح ہوجائےتواس میں ہرچیزصحیح ہوجاتی ہے اور اگرعقیدہ ہی فاسدہوجائےتوہرچیزخراب اورفاسدہوجائےگی ۔
توعقیدہ اورایمان یہ دونوں انسان کےذاتی محافظ ونگہبان ہیں اوران { جس طرح کہ عام انسانوں میں ہے } کی دوقسمیں ہیں :
1 ۔ایساایمان جوکہ انسانی افضلیت اورعزت اورصرف ایسےمعانی جس کی مخالفت کرنےسے نفس حیا کریں حتی کہ اگراس کی مادی جزاختم بھی کردی جائے ۔
2 ۔ اوراللہ تعالی پرایمان رکھنااوریہ کہ اللہ تعالی اس کے پوشیدہ رازوں کابھی نگہبان ہے وہ پوشیدہ اورچھپی ہوئی چیزوں کوجانتا ہے توشریعت اپنی دلیل اللہ تعالی کےامراورنہی سےحاصلی کرتی ہے اورشعوراورحواس سےحیاء کی بناپرگرم تپتےہیں یاتواللہ تعالی کےڈراورخوف سےاوریاپھراس کی محبت سے>اوریا پھرامحبت <اورخوف دونوں کی بناپر ۔
اوراس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ ایمان کی یہ قسم دونوں قسموں میں سے انسانی نفس پردلیل ہونے کےناطےزیادہ قوی ہے اور یہ خواہشات کی آندھیوں اوراس کےتھپیڑوں کامقابلہ کرنے میں زیادہ قوی ہے اورعام وخاص میں نافذ ہو نے کے اعتبار سے بھی زیادہ تیزاورجلدمیں نافذ ہوجاتی ہے ۔
تواس وجہ سے لوگوں کے درمیان عدل وانصاف کے قواعدپرمبنی معاملات میں دین ہی سب سے بہترضمانت ہے اور پھریہ اجتماعی اورمعاشرتی ضرورت بھی ہے ، تواس میں کوئی شک نہیں کہ امت میں دین ایسے ہی ہے جس طرح کہ جسم میں دل ہوتاہے ۔
دیکھیں : الدین صفحہ نمبر : ( 98 ۔ 102)
توجب عمومی طور پر دین کا یہ مر تبہ ہےتوآج اس دنیامیں کتنےہی دین اورطر یقے پائے جاتے ہیں اورآپ ہرقوم کودیکھیں گہ کہ اس کے پاس جو بھی دین ہے وہ اس پرخوش ہے اورسختی سےاسی پرکاربند ہے ، تووہ کونساایساصحیح دین ہے جوکہ نفس انسانی کی شوق کو پورا کرسکے ؟ اوردین حق کےکیاضوابط اوراصول ہیں ؟ .
محمدبن عبداللہ صالح السحیم کی کتاب الاسلام اصولہ ومبادئہ سےلیاگیا 
http://islamqa.info/ur/14055





’2050 میں سب سے زیادہ مسلمان انڈیا میں

·        3 اپريل 2015
Description: http://ichef.bbci.co.uk/news/ws/200/amz/worldservice/live/assets/images/2015/04/02/150402164953_cuba_islam_640x360_v_nocredit.jpgاگلی چار دہائیوں میں کسی بھی مذہب کے مقابلہ اسلام سب سے تیز رفتار سے آگے بڑھے گا
ایک نئی تحقیق کے مطابق 2050 تک بھارت انڈونیشیا کو پیچھے چھوڑ کر پوری دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان آبادی والا ملك بن جائے گا اور پوری دنیا میں مسلمانوں اور عیسائیوں کی آبادی تقریباً برابر ہو جائے گی۔
واشنگٹن میں واقع پیو ریسرچ سینٹر کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا کی تیسری سب سے بڑی آبادی ہندو مذہب کے ماننے والوں کی ہو گی اور بھارت میں ہندوؤں ہی کی اکثریت رہے گی۔
اگلی چار دہائیوں میں عیسائی مذہب سب سے بڑا مذہبی گروہ بنا رہے گا لیکن کسی بھی مذہب کے مقابلہ اسلام سب سے تیز رفتار سے آگے بڑھے گا۔
واضح رہے کہ اس وقت دنیا میں عیسائیت سب سے بڑا مذہب ہے اس کے بعد مسلمان آتے ہیں اور تیسری سب سے بڑی آبادی ایسے لوگوں کی ہے جو کسی مذہب کو نہیں مانتے۔
Description: http://ichef.bbci.co.uk/news/ws/200/amz/worldservice/live/assets/images/2015/01/07/150107114608_uk_population_640x360_pa_nocredit.jpg

اگلے چار عشروں میں دنیا کی آبادی 9.3 ارب تک پہنچ جائے گی اور مسلمانوں کی آبادی میں 73 فیصد کا اضافہ ہو گا

اگر موجودہ رجحان برقرار رہا تو 2070 تک اسلام سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔
اندازہ ہے کہ اگلے چار عشروں میں دنیا کی آبادی 9.3 ارب تک پہنچ جائے گی اور مسلمانوں کی آبادی میں 73 فیصد کا اضافہ ہو گا، جب کہ عیسائیوں کی آبادی 35 فیصد بڑھے گی اور ہندوؤں کی تعداد میں 34 فیصد اضافہ ہو گا۔
اس وقت مسلمانوں میں بچے پیدا کرنے کی شرح سب سے زیادہ ہے یعنی اوسطاً ہر خاتون 3.1 بچوں کو جنم دے رہی ہے، عیسائیوں میں ہر خاتون اوسطاً 2.7 بچے کو جنم دے رہی ہے اور ہندوؤں میں بچے پیدا کرنے کی اوسط شرح 2.4 ہے۔
Description: http://ichef.bbci.co.uk/news/ws/200/amz/worldservice/live/assets/images/2015/01/12/150112124253_religion_640x360_getty_nocredit.jpg

آنے والے عشروں میں عیسائی مذہب کو سب سے زیادہ نقصان ہونے کا خدشہ ہے اور مذہب چھوڑنے والوں کی تعداد اختیار کرنے والوں سے بڑھ جائے گی

2010 میں پوری دنیا کی 27 فیصد آبادی 15 سال سے کم عمر کی تھی، وہیں 34 فیصد مسلمان آبادی 15 سال سے کم کی تھی اور ہندوؤں میں یہ آبادی 30 فیصد تھی۔ اسے ایک بڑی وجہ سمجھا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی دنیا کی آبادی کے مقابلے زیادہ تیز رفتار سے بڑھے گی اور ہندوؤں اور عیسائیوں اسی رفتار سے بڑھیں گی جس رفتار سے دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق امریکہ میں مسلمانوں کی آبادی یہودیوں سے زیادہ ہو جائے گی۔
رپورٹ میں بچے پیدا کرنے کی شرح کے علاوہ آباديوں میں اس الٹ پھیر کی وجہ تبدیلیِ مذہب کو بھی بتایا جا رہا ہے۔
آنے والے عشروں میں عیسائی مذہب کو سب سے زیادہ نقصان ہونے کا خدشہ ہے اور کہا گیا ہے کہ چار کروڑ افراد عیسائی مذہب اپنا لیں گے وہیں دس کروڑ 60 لاکھ لوگ اس مذہب کو چھوڑ دیں گے۔ اسی طرح ایک کروڑ 12 لاکھ لوگ اسلام کو اپنائیں گے وہیں تقریباً 92 لاکھ دائرۂ اسلام سے خارج ہو جائیں گے
http://www.bbc.com/urdu/world/2015/04/150402_pew_religion_trends_zis

زندگی کےلمحے نہ گنو - از محمد الطاف گوہر


زندگی کے لمحے نہ گنو بلکہ لمحوں میں زندگی تلاش کرو
زندگی کے لمحے نہ گنو بلکہ لمحوں میں زندگی تلاش کرو کیونکہ یہ تو وہ شمع ہے جو اِک بار جل جائے تو بجھتی نہیں بلکہ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ دیے سے دیا جلائے بٹتی (Travel) چلی جاتی ہے۔ یہ روشن چراغ اگرچہ تمام دنیا کا اندھیرا دور نہیں کر سکتے مگر اپنے اِر دگرد اندھیرا بھی نہیں ہونے دیتے۔ خودی (میں، Self) کا دیا تو عاجزی کی لو سے روشن ہوتا ہے۔ بلندوبالا پہاڑیوں کی کھو کھ سے جنم لینے والے ہزاروں، لاکھوں چشمے، ندیاں، نالے اور دریا آخر سمندر کی گود میں اپنا وجود کھو دیتے ہیں کیونکہ سمندر انکے مقابلے میں ہمیشہ پستی میں رہنا پسند کرتے ہیں۔
ہم سیل رواں پر بہتے ہوئے کائی کے تنکے نہیں کہ حالات کی موجوں کے تھپیڑوں کے رحم و کرم پہ رہیں اور جانے کب کوئی انجانی موج اُڑے اور اُٹھا کر کہیں پھینک دے یا پھر حالات کے گرداب میں پھنس کے اپنا وجود کھو بیٹھیں بلکہ ہم تو کامیابی اور سکون کے وہ سفینے ہیں جو عافیت کی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ ہم موت کے منہ میں ایک اور نوالہ نہیں ہیں بلکہ ہم تو وہ جلتی شمعیں ہیں جو دنیا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک روشنی بانٹتی چلی جا رہی ہیں اور جہالت کی تاریکی کے سامنے ہم تو وہ چراغ ہیں جو دُنیا کو سورج کی طرح روشن نہ کر سکے مگر اپنے ارد گرد کو تو روشن رکھتے ہیں اور ہم تو وہ ٹھنڈی چھاﺅں ہیں جو تپتی دھوپ میں سایہ بنتے ہیں۔ ہم وہ جوہڑ نہیں ہیں جو زندگی کو فنا کا درس دیتے ہیں اور بقا کا خاتمہ کرتے ہیں بلکہ ہم تو علم و فن کے وہ چشمے ہیں جو زندگی کو بقاءکا درس دیتے ہیں جہاں سے ہر کوئی سیراب ہوتا ہے مگر یہ سب کچھ اِسی وقت ممکن ہے کہ جب ہمارے اندر خودی (میں، Self) کا دیا جلتا ہے اور ہمارا رابطہ ازل سے جڑ جاتا ہے۔
اس کائنات میں کوئی شے بے مقصد پیدا نہیں کی گئی اور نہ ہی کوئی واقعہ حادثہ ہوتا ہے بلکہ ہر شے خاص مقصد کیلئے ہے اور ہر واقعہ پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے جبکہ ہماری سوچنے کی طاقت ہمارے معاملاتِ زندگی کے لیے ہدایتکار (Director) کا درجہ رکھتی ہے اور جو خیال ذہن میں ایک مرتبہ پیدا ہو جاتا ہے وہ کبھی ختم نہیں ہوتا جبکہ وہ اپنی قوت اور مماثلت کے حساب سے اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ یہ قلم جس سے میں لکھ رہا ہوں اور یہ پنکھا جس کی ہوا میں میں بیٹھا ہوں اور وہ کرسی جس نے مجھے بیٹھنے کی سہولت دی ہے اور وہ میز جس کے مرہون منت اِس تحریر کو لکھنے کی معاونت مل رہی ہے اور وہ بلب جس کی روشنی میں مجھے سب کچھ دکھائی دے رہا ہے اور یہ کاغذ جس پہ میں لکھ رہا ہوں اِن میں سے کوئی بھی بے مقصد نہیں بلکہ ہر شے اپنا مقصد پورا کر رہی ہے۔ اِن میں سے اگر کوئی بھی ایک شے اپنا مقصد پورا نہ کرے تو ہم فوراً اِس کو ردی کی ٹوکری یا کوڑے کے ڈبے میں پھینک دیں گے کیونکہ جو اپنے مقصد سے ہٹ جائے وہ ہمارے لیے بے کار ہے۔ اب اگر قلم (Pen)میں سیاہی ختم ہو جائے یا میز کی ٹانگ ٹوٹ جائے یا پھر پنکھا ہوا دینا بند کر دے یا بلب روشنی دینا بند کر دے (Fuse) تو کیا خیال ہے اِن کو ہم ایک لمحہ مزید برداشت کریں گے؟ جی ہاں ایک لمحہ بھی نہیں کیونکہ اِس سے ہماری روانی میں خلل آتا ہے اور ہمارے معاملات خراب ہوتے ہیں۔ لہٰذا جو بھی چیز (چاہے وہ بے جان ہی کیوں نہ ہو) اگر اپنے کام اور مقصد سے ہٹ جائے گی تو وہ بالکل بے کار اور بے مقصد ہو جائے گی اور ہم اِسے ضائع کر دینا پسند کرتے ہیں، تو کیا خیال ہے ہم بغیر کسی مقصد کے پیدا ہوئے ہیں؟ ہم جو اِس کارخانہ قدرت کے عظیم شاہکار ہیں کِس کام پر لگے ہوئے ہیں، آیا ہم کارآمد ہیں یا بے کار ہو چکے ہیں؟اگر بے کار ہو چکے ہیں تو قدرت نے ابھی تک ہمیں ردی کی ٹوکری میں کیوں نہیں پھینکا؟
قدرت نے کائنات کی ہر شے ہمارے لیے تخلیق کی ہے جس طرف بھی نظر دوڑائیں کائنات کی ہر شے آپکے آپنے لیے نظر آئے گی او ر اپنے وجود کے ہونے کا مقصد کو پورا کر رہی ہوگی۔ پھولوں میں خوشبو ہمارے لیے ہے اور پھلوں میں رس ہمارے لیے ہے، آبشاروں کے گیت ہمارے لیے ہیں، سرسبز و شاداب پہاڑوں کی بلند چوٹیاں جو دلفریب نظارہ پیش کرتی ہیں وہ بھی ہمارے لیے ہیں حتیٰ کہ کائنات کی سب مخلوق (Creature) ہمارے لیے مسخر کر دی گئی ہے مگر ہمیں معلوم نہیں کہ ہم کِس لیے ہیں۔ کائنات کی ہر شے دوسروں کے فائدے کیلئے ہے (نہ کہ اپنے لیے) جبکہ ہر چیز دوسروں کو فائدہ پہنچاتی ہے اور ہمیں درس دیتی ہے کہ ہم اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کیلئے پیدا کیے گئے ہیں ۔ ازل سے ادیانِ عالم اِس کا درس دیتے آئے ہیں کہ ہمیں دوسروں سے روابط کس طرح رکھنا ہے اور انکے لئے کس طرح فائدہ مند ہونا ہے اور لوگوں میں رہتے ہوئے زندگی کس طرح گزارنی ہے، وگرنہ اگر انسان نے اکیلے جنگل میں رہنا ہوتا پھر اس سب کی کیا ضرورت تھی۔ ہم نے سب کے ساتھ اِن روابط سے رہنا ہے جن کے باعث ایک صحت مند معاشرہ جنم لے اور زندگی کے ثمرات بحیثیت مجموعی حاصل کرنے ہیں ورنہ ایک شخص کی زندگی کے ثمرات اُس کیلئے بے معنی ہیں جب تک کہ وہ دوسروں کو اِس میں شامل نہ کرے۔ ہم کس وقت کا انتظار کر رہے ہیں؟
طوفانوں سے لڑو تند لہروں سے اُلجھو
کہاں تک چلو گے کنارے کنارے
آپ اگر گھڑی کو سامنے رکھ کر بیٹھ جائیں اور وقت کا گزرنا ملاحظہ کریں تو یقیناً آپ گھنٹوں بھی بیٹھیں رہیں گے مگر آپ کو گھنٹوں اور منٹوں والی سوئیاں ساکن نظر آئیں گی جبکہ وقت گزرتا رہے گا یہ برف کی طرح پگھلتی زندگی کے ماہ سال صرف کسی اچھے وقت کے انتظار میں نہ گزار دیں بلکہ وہ لمحہ جو ہمیں بیدار کرتا ہے دراصل اِسی میں زندگی ہے اور باقی وہ لمحے اور پل ہیں جو ہمیں نیم خوابیدہ کرتے ہیں اور یہ وہ خود رو سلسلہ زندگی ہے کہ جہاں وقت کو ضائع کر رہے ہیں، وقت کو ہم اِسی طرح قید (Save) کر سکتے ہیں کہ اپنے پل زندگی کے بیدار لمحوں سے سیراب کر دیں۔
ہم اِس کارخانہ قدرت کے شاہکار ہیں اِس کائنات کی تمام مخلوق ہمارے لیے سربستہ ہاتھ باندھے (مسخرہونے کو) کھڑی ہے کہ جیسے الہ دین کے چراغ والا جن اپنے آقا کے سامنے سر جھکائے کھڑا ہے اور اس کے کسی بھی حکم کو بجا لانے کیلئے تیار ہے۔ مگر ہمارے اندر اِتنی سکت کہاں کہ ہم اِس ”جن“ کو قابو میں کر لیں۔ اِن تمام طاقتوں پہ حاوی ہونے کی کنجی (Key) کسی بھی جن یا دیو کے پاس نہیں بلکہ ایک اِنسان کی دسترس میں ہے جو ”لذت آشنائی“ سے سرشار ہے۔ قدرت نے تمام کی تمام کائنات ہمارے تسخیر کرنے کیلئے بنائی ہے مگر ہم لذت کے جھوٹے اور چھوٹے چھوٹے کھلونوں سے دل بہلا رہے ہیں

No comments:

Post a Comment