Nikah Marriage Wedding



















میاں بیوی کے جهگڑوں کو پیار محبت میں تبدیل کرانے والا قیمتی راز



؛؛؛؛؛؛ میاں بیوی کے جهگڑوں کو پیار محبت میں تبدیل کرانے والا قیمتی راز ؛؛؛؛؛؛
پچھلے ایک سال سے شادی کے بعد سے اب تک میرا نہایت ہی برا حال ہے۔ میری بیوی ایک پاگل ہے ۔ کام سے تھکا ماندہ شام کو گھر میں آرام کی خاطر لوٹتا ہوں ہوں تو وہ پھٹ پڑنے کیلئے تیار، ڈھاڑتی ہوئی میرے سامنے کھڑی ہوتی ہے کہ دیر سے کیوں آئے ہو ؟
میں نے جو چیزیں منگوائی تھیں کیوں نہیں لائے؟
یہ کیا گندی چیزیں لے کر آ گئے ہو؟
خریداری کا سلیقہ نہیں ہے تمہیں؟
آج جلدی کس لئے آ گئے ہو؟
شام سے صبح تک تمہیں برداشت کرنا ہوتا ہے وہ کیا کافی نہیں ہوتا؟
چنانچہ میں دوستوں کے مجبور کرنے پر ایک بزرگ سے ملا اور اپنی ساری کہانی اس محترم بزرگ کو سُنا ڈالی
میں اس محترم بزرگ سے اسطرح گویا هویا بابا جی میں نے بہت صبر کیا ہے مگر اب تو میں اپنی بیوی سے ہر بار یہی پوچھتا ہوں کہ کیا عذاب کی لغت میں کوئی ایسی بد زبانی یا ایسا طعنہ بچا ہے جو تو نے مجھے نہ مارا ہو! تیری بد زبانی اور بے ہودگی نے میری زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہے۔ اُسکی ایک بات کے جواب میں مجھے دو سنانی پڑتی ہیں مگر اُسے نہ قائل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی خاموش۔ کئی بار لمحے تو کئی بار گھنٹے اس حال میں گزرتے ہیں، اور پھر گھر میں گزرا باقی کا وقت اپنے بال نوچتے یا ناخن چباتے گزرتا ہے۔ لیکن اب میرا ایسی صورتحال سے دل بھر گیا ہے اور مجھے کراہت ہو گئی ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ پاگل عورت میرے ہاتھوں قتل ہو، میں اُسے طلاق دینا چاہتا ہوں۔
بُزرگ نے سر کو ہلاتے ہوئے کہا: بیٹے، میں تیری مصیبتوں کا سبب جان گیا ہوں ۔ میرے پاس تیرے لئے اسکا ایک علاج ہے، اور اس سے تیرے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔
میں نے تعجب سے بُزرگ کو کہا: کیا ہے ایسا علاج، جس سے اُسکا پاگل پن ختم ہو جائے گا؟ لیکن میں اُس میں کوئی رغبت باقی نہیں پاتا، میں اُسے طلاق دیکر چھٹکارا پانا چاہتا ہوں۔ اگر آپ کے پاس کوئی علاج ہے تو آس کیلئے دیجیئے، میرے لئے نہیں۔
بُزرگ نے مسکرا کر اپنے ہاتھ میرے کندھے پر رکھتے ہوئے کہا، بیٹے اللہ پر بھروسہ رکھو، آؤ عصر کی نماز ادا کرتے آئیں، اسکے بعد میں تمہیں علاج بتاؤنگا۔ نماز سے واپسی پر مجھے واپس بیٹھنے کا اشارہ کرتے بُزرگ اپنے گھر تشریف لے گئے۔ واپسی پر ہاتھ میں ایک چھوٹی سی بوتل تھامے نمودار ہوئے، بوتل کا منہ ایک ڈھکن سے مضبوتی کے ساتھ بند تھا۔۔۔
میرے قریب بیٹھتے ہوئے مجھے مخاطب ہوئے: یہ لو میرے بیٹے، یہ ہے وہ علاج جسکا میں نے تمہارے ساتھ وعدہ کیا تھا۔اس علاج کو تم نے اپنے پاس رکھنا ہے، جب اپنے گھر لوٹو تو گھر میں داخل ہونے سے پہلے، بسم اللہ پڑھ کر اس بوتل میں سے ایک ڈھکنا بھر کر منہ میں ڈالنا ہے مگر اِسے آدھا گھنٹہ نہ تو حلق سے نیچے آتارنا ہے اور ہی نہ پینا ہے۔ہاں مگر آدھے گھنٹے کے بعد پی لینے میں کوئی حرج نہیں۔اور میں یہ چاہتا ہوں کہ تم یہ علاج مسلسل بغیر کسی ناغہ کے دس دن تک کرو۔ اور دس دن کے بعد اللہ کے حکم سے تمہاری بیوی ویسی ہی بن جائے گی جس طرح کی تم خواہش کرتے ہو۔
میں نے اپنے سر کو حیرت کے ساتھ جھٹکتے ہوئے بُزرگ سے کہا: ٹھیک ہے میں ایسا ہی کرونگا جس طرح آپ حکم دے رہے ہیں، میری اللہ سے دعاء ہے کہ وہ میری بیوی کے پاگل پن کو اس دوا سے شفاء دیدے جسکو پیوں گا تو میں مگر اثر اس پر ہونا ہے۔
اور دوسرے دن، گھر میں داخل ہونے سے قبل، میں نے جیب سے بوتل نکالی، بسم اللہ پڑھ کر ایک ڈھکنا بھر مقدار سائل کو منہ میں ڈالا، آپکی معلومات کی خاطر عرض کردوں کہ میں یہ جان کر حیرت زدہ سا تھا کہ سائل کا ذائقہ پانی سے زیادہ دور نہیں تھا۔ نہ کوئی رنگ، نہ ہی بو اور نہ کوئی مزا۔
بُزرگ کی ہدایت کے مطابق عمل کرتے ہوئے، منہ کو سختی سے بند کئے، میں گھر میں داخل ہو کمرے میں جانے کیلئے کچن کے سامنے سے ہوتا ہوا گزر ہی رہا تھا کہ میری بیوی کی نظر مجھ پر پڑ گئی۔ حسب توقع دائیں آنکھ اوپر اور بائیں نیچے کئے، اس سے پہلے کہ میں سامنے سے ہٹتا، دانتوں کو پیستے ہوئے بولی: آخر کار آ گئے ہیں آپ جناب! لائیے کدھر ہیں وہ چیزیں جو میں نے منگوائی تھیں! یا ہمیشہ کی طرح میرا کہا ہوا تمہارے سر کے اوپر سے گزر گیا تھا اور خالی ہاتھ واپس آ گئے ہو؟ لاؤ مجھے دو، میں دیکھوں تو کیا لائے ہو ؟ اور پھر اُس نے میری خاموشی پر حیرت سے میرے چہرے کو دیکھا، ایک انگلی کو خونخوار طریقے سے میرے چہرے کے سامنے ہلاتے ہوئے بولی: زبان حلق میں پھنس گئی ہے کیا؟
موقع ملتے ہی میں کمرے کی طرف دوڑا، تاکہ جا کر علاج کا آدھا گھنٹہ گزاروں۔ حالانکہ مجھے پورا یقین تھا کہ شیخ صاحب کے علاج کا میری بیوی پر کوئی فائدہ نہیں ہونا ۔خاص طور پر آج تو بے اثر ہی رہا تھا۔
دوسرے دن گھر داخل ہونے سے قبل پھر وہی علاج دہرایا، بوتل میں سے ڈھکنا بھر محلول بسم اللہ پڑھ کر منہ میں ڈال کر گھر میں داخل ہو گیا، تا کہ میری بیوی اپنی مغلظات میرے سر پر مارے۔ اور میں اپنے ہونٹ سختی سے بند کیئے علاج کرتا رہوں۔ آج ذرا خیریت رہی، گھر والی بغور میرے چہرے کو دیکھتی رہی، شاید میری خاموشی کا سبب جاننے کی کوشش کر رہی تھی۔چند لمحے خاموش رہ کر آہستگی سے بولی: کھانا کھاؤ گے، لاؤں؟
اور پھر 5 دنوں کے بعد بُزرگ کے پاس بیٹھنے سے قبل، میں نے انہیں سلام کیا۔ اور پھر پوچھا: بوتل میں کیا ڈالا تھا آپ نے؟
بُزرگ میرے چہرے کو دیکھ کر مسکرائے اور بولے: بیٹے پہلے اپنی سناؤ، میرے علاج نے کوئی اثر بھی دکھایا ہے یا نہیں؟ میں نے اپنا سر اوپر سے نیچے کی طرف ہلاتے ہوئے کہا: یہ کچھ ہوا ہے ان دنوں میں اور یہ صورتحال ہے اب تک کی۔ دو دن ہو گئے ہیں میری بیوی تو بالکل ویسی بن گئی ہے جس طرح دلہن بن کر آئی تھی۔ اب تو بتائیے، کیا ڈالا تھا آپ نے اس بوتل میں؟
بُزرگ نے بولنے سے پہلے ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا اور بولے: بیٹے، اس بوتل میں، میں نے تمہیں پانی ڈال کر دیا تھا، اپنے گھر میں رکھے گھڑے میں سے۔ میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں، میں نے تعجب سے کہا: پانی؟ صرف پانی؟ کیا اس بوتل میں کوئی دوا نہیں تھی، صرف پانی تھا؟ اچھا برکت کیلئے کم از کم آپ نے اپنا لعاب تو ضرور ڈالا ہو گا اس میں، آخر میری بیوی کو کس طرح شفاء ملی ہے اس سے؟
بُزرگ ایک بار پھر مسکرائے اور مجھ سے یوں مخاطب ہوئے: دو باتوں سے تمہارا مسئلہ بڑھ رہا تھا۔
پہلا: سارے دن کے کام کے بعد شام کو تم تھکے ہارے گھر پہنچتے تھے تو تمہارا مطمع نظر محض سکون اور آرام ہوتا تھا بغیر کسی اضافی کام یا مشقت کے۔
دوسرا: تمہاری بیوی سارے دن کی تنہائی، خاموشی اور اُکتاہٹ کا شکار تھی، تمہارے گھر پہنچنے پر وہ تم سے باتیں کرنا چاہتی تھی مگر گفتگو کو شروع کرنے کیلئے کوئی مناسب موضوع نہ ملنے پر وہ طعن و تشیع اور فضول الزم تراشی پر اتر آتی تھی۔
اور اس سب خرابیوں میں تمہارا کردار یہ تھا کہ تم اس طعن و تشیع اور الزم بازی میں تحمل کا مظاہرہ نہیں کر رہے تھے۔ اس رویئے کو نظر انداز کرنا تو در کنار، اُلٹا تم طلاق دینے کی سوچ رہے تھے۔
بیٹے: ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ تم خاموش رہ کر اپنی بیوی کی باتیں سنتے، اُسکی دلجوئی کرتے، سارے دن کی رویداد سنتے یا سناتے، یا اسکو اپنے سینے کی بھڑاس نکالنے کا موقع فراہم کرتے، یا پھر محض تمہاری خاموشی ہی اسکا علاج تھی۔ تمہارے مرض کی کیفیت کو ذہن میں رکھ کر میں نے جو علاج تجویز بوتل میں بند کر لے تمہیں دیا تھا، وہ محض میرے گھر کے گھڑے کا پانی تھا۔ تاکہ جب تک کچھ آرام پا کر تمہارا موڈ ٹھیک نہ ہو اس وقت تک پانی منہ میں رکھ کر کم از کم تمہارے ہونٹ تو سلے رہیں۔
میں صرف اتنا چاہتا تھا کہ تم اتنا سا ہی خاموش رہنا سیکھ جاؤ جتنی دیر میں تمہاری بیوی بغیر کسی روک ٹوک کے اپنی روئیداد نہ سنا لیا کرے۔ اور جب وہ بول رہی ہو تو تم توجہ سے اُس کو سن لیا کرو ۔ اس طرح اُس کے دل میں یہ بات بیٹھ سکتی تھی کہ تم جو کچھ کر رہے ہو وہ اُس کی محبت کیلئے ہے، اور رد عمل کے طور پر وہ بھی ایسا رویہ اپنائے جو تمہاری دل آزاری کا باعث نہ بنا کرے۔
بیٹے تمہاری بیوی کا علاج تمہاری طرف سے شروع ہونا تھا جس کی ابتداء میں نے تمہیں یہ دوا دے کر کی۔ اور اس علاج سے میں یہی بات میں تمہیں سمجھانا چاہتا تھا کہ تمہاری بیوی کی دوا صرف اور صرف تمہاری خاموشی تھی۔
آپ کیلئے قیمتی مشوره …. عزیزان من، آپ بیشک بہت اچھے مقرر اور بہت اچھی گفتگو کرنے کا فن رکھنے والے ہونگے، مگر کبھی دوسروں کو بھی بولنے کا موقع دیجیئے، شاید آپ کو اس طرح کچھ فائدہ ہی پونہچے، ورنہ کم از کم آپ کی سماعت سے بولنے والا عزت افزائی تو ضرور ہی محسوس کرے گا ناں! اور یہی کچھ گفتگو کے آداب میں سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیمات دی ہیں۔



The Ideal Islamic Marriage


Forgive me if I come across crudely, you might find my tone to be somehow militant but by Allaah, nothing ulterior is intended other than to remind myself first and you of the marital dangers looming in the horizon as a result of our actions. It is the unadulterated system of Allaah that, whenever He prohibits a thing, He closes all the avenues that lead to it. The same holds true in all that He has allowed for us. He makes clear all the paths that make it easy.

Undoubtedly, man and woman were created by Allaah to worship Him and in doing so, they need to procreate in order to fulfill His promise of making humans inheritors of the earth, generations after generations. The process of procreation was legitimized for us by Allaah through the institution of Nikaah (marriage). Allah says: "Marry women of your choice, two or three, or four, but if you fear that you shall not be able to deal justly (with them), then (marry) only one" Surah 4. An-Nisa' verse 3.

I'm particularly concerned with the nature of how wedding ceremonies are being conducted today by the Muslims. I personally see this as the point of departure between those strangers (Ghuraba) that strive to conduct themselves in accordance with the shariah during wedding periods desperate for Allaah's blessings and those that are ignorantly living under the shackles of the destructive 21st century civilization desperate for social recognition at the detriment of Allaah's pleasure.
A people rich in civilization as the Muslims shouldn't be found wanting in ethics and morals. In recent years, Satan has beautified a repugnant act for Muslims who are on the verge of getting married or even the married ones on their wedding anniversaries. An exposure to the new satanic trend in the form of a series of pictures taken by the would-be partners in an unIslamic style will shift any man with a sane and balanced understanding from a comfort zone to that of a constant anticipation of Allaah's wrath.Innocent people out of 'marital euphoria' would do anything just to please the society even if it means going against Allaah's orders.. A true Muslim goes to any length to protect the honor of his women folk but sadly today, we even derive pleasure in displaying our women for the world to admire. Subhanallah!

An authentic hadith on the strength of Ammar (RA) sends a shiver down my spine. The Prophet (Pbuh) said: "A dayyuth will NEVER enter paradise" (Muslim). This is a person who's not jealous of his women folk. He opposes jealousy and displays his wife for every Tom, Dick and Harry to see and comment as if she's a commodity. How can my wife's picture be traveling round the world admired by the good, the bad and the ugly. Insanity I guess.

The competition of a real believer is in good ways not in disobedience. We are trying to outdo one another in sins.  Wedding dinner, what's supposed to be a decent feast and a get-together is now the backbone of everything opposing Allaah's orders as far as wedding ceremony is concerned. Women in tight outfits, exactly as the Prophet (Pbuh)  painted their image, mixing freely with strange men with an accompanied music playing at the background inviting the wrath of Allaah and we have the guts to expect Allah's blessings in our marriages. What a deliberate contradiction.

Can't we have a decent marriage? Can't we think of Allaah's wrath when planning our wedding events? Are we so blinded and desperate for a 24 hour recognition that we are willing to compromise on our eeman? Who blesses marriages? Is it not Allaah? Or do the people we consider when we disobey Allaah have the key to our marital bliss and righteous offsprings? Think and ponder, wallah! If the foundation of our wedding is built on Allaah's disobedience then don't blame Allaah or the society when our children become delinquents but rather we should blame ourselves for that wedding based on Allaah's disobedience.

Don't we know that for every person that abuses his sight at a dinner function organized by us, is an equal share of sin allotted to us, wise up and use your intellect. Don't ruin the life of your children yet un born.  The people we threw up a lavish immoral dinner to impress will be the first to broadcast our  marital problems when Allaah removes blessings in our marriages. So decide who to please now.

There's nothing wrong in men having their exclusive male event in accordance with the shariah (a wedding banquet known as walimah) nor is there anything wrong for women to have their own separate  wedding banquet. Hence, we should go for that which pleases Allaah and which guarantees eternal bliss and a happy home.

Until and unless we see marriage as an 'Ibadah, we will not get the gist. In a hadith the Prophet (Pbuh) said: "The whole world is a provision, and the best object of benefit of the world is the pious woman." Only a pious woman will discourage you from trying to indulge in a wedding ceremony that will invite Allaah's wrath, so go for her and not the so called 21st century slave who knows nothing beyond the material world, totally oblivious of her Creator.

Sisters, go for men that will honor your modesty and integrity. You talk of women's right, go for men that will never expose you to the wild provocation of the sick world. Our marriages are no novelty, wedding ceremonies come and go but the records of everything that ensued is kept with Allaah either as a plus factor or a minus factor for us on the Day of Retribution.


May our kind Allaah give us partners that will hold us and drag us with utmost care to Jannah not those that know nothing beyond the material world.

Source with thanks:https://www.facebook.com/permalink.php?id=180069045404287&story_fbid=562023910542130


رشتے، بس نام کے۔۔۔

سلمیٰ شکیل  پير 2 مارچ 2015

بوجھ بنے ناتے رشتہ داریوں پر داغ کے مترادف ہیں۔ فوٹو: فائل
کسینے کیا خوب کہا ہے ’’زندگی کی خوب صورتی ہے ہی رشتوں کی بدولت۔۔۔ اور یہ رشتے قائم رہتے ہی تب ہیں، جب ہلکی سی مسکراہٹ اور ضرورت پڑنے پر ذرا سی معذرت سے ہر چھوٹی بڑی بات کو نظر انداز کر دیا جائے۔
فرد اپنے وجود کی ابتدا سے ہی بہت سے رشتوں سے جڑا ہوتا ہے مگر ان لاتعداد رشتوں میں اپنے شریک حیات سے رشتہ ایک ایسا لازوال تعلق ہے، جو اس رشتے کی ابتدا ہی سے فریقین کے درمیان محبت، احساس اور خوشی کے ایسے رنگ بکھیر دیتا ہے، جس سے انسان کی شخصیت یک سر تبدیل ہو جاتی ہے۔
زیادہ تر ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ شادی شدہ زندگی انسان کو تنہا رہنے کی نسبت ذہنی اور جسمانی اعتبار سے زیادہ خوش اور پرسکون رکھتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے میاں بیوی کے رشتے میں ایک خاص عنصر رکھا ہے، جس کے تحت اس رشتے میں بندھنے کے بعد دوسروں کی نسبت وہ دونوں ایک دوسرے کی بات اور مسائل و معاملات زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں۔
اکثر مشاہدے میں یہ آیا ہے کہ زیادہ تر لوگوں کے ازدواجی تعلقات کا ماجرا کچھ ایسا ہوتا ہے کہ جس کے لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ چار دن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات۔۔۔ لوگ اس بندھن میں بہت خوشی سے بندھتے ہیں۔۔۔ بہت سے رنگین خواب آنکھوں میں سجاکر زندگی کے اس نئے رخ کا سامنا کرتے ہیں۔ شادی کے لیے شریک حیات کا انتخاب کرتے ہی، وہ آپ کی سوچ کا محور بن جاتا ہے اور یوں زندگی کا ہر پہلو خوب صورت دکھائی دیتا ہے۔ شادی ہونے کے بعد کچھ عرصہ گزرتے ہی دونوں فریقین اس خوب صورت تصویر کے دوسرے رخ کے روبرو ہوتے ہیں، تو یہ چاندنی رات کو ایک بھیانک خواب کا روپ دے کر زندگی کو مشکل بنا دیتا ہے۔
ابتدا میں ان مسائل کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔ اپنے شریک حیات سے شکایتیں ہونے لگتی ہیں۔ غلط فہمیوں کو بنیاد بنا کر فریقین لڑنے جھگڑنے لگتے ہیں۔۔۔ دھیرے دھیرے باہمی رنجشیں پیدا ہونے لگتی ہیں اور یوں اس رشتے میں بگاڑ کا سلسلہ چل پڑتا ہے۔ میاں بیوی ایک دوسرے کی تمام تر مثبت باتوں کو بھلا کر اپنی پوری توجہ برائیوں پر مرکوز کر دیتے ہیں، پھر بدگمانی کا سلسلہ بڑھ کر بد سلوکی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ غلط فہمیوں کا سلسلہ چل نکلنے کے بعد بھی اصلاح کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ اگر آپ چاہیں تو زندگی کو اس ڈگر پر لے جا سکتے ہیں جس کا خوب صورت خواب دیکھ کر آپ اس رشتے میں بندھے تھے۔ تو ایسا کیا کیا جائے، جو زندگی کام یاب اور خوش و خرم گزرے، آئیے ہم آپ کی کچھ مدد کیے دیتے ہیں۔
اپنی ذات میں کی گئی چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں ان مسائل کو آہستہ آہستہ ختم کر سکتی ہیں۔ اسی لیے یہ کہاوت مشہور ہے کہ ’’کسی کے بارے میں ستر گمان اچھے رکھو۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ ہماری منفی سوچ ہماری زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اپنے شریک حیات کے بارے میں مثبت سوچ رکھنے سے اور اپنے اندر صبر اور برداشت کے مادے کو پیدا کر کے ان مسائل کا بہت حد تک خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔
میاں بیوی کا یہ رشتہ ایک دن، ایک مہینا یا ایک سال کی بات نہیں، بلکہ یہ تمام عمر کے ساتھ کا نام ہے اور اس ساتھ کو کام یابی سے نبھانے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون اور سمجھوتے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دل میں خلوص کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس رشتے کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے میاں بیوی کو ایک دوسرے کو سمجھنے کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ خصوصاً یہ ذمے داری شوہر کی ہے کہ وہ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ بیوی اپنے تمام پیاروں کو چھوڑ کر ایک نئے ماحول میں آئی ہے، اسے سمجھنے کا وقت دے اور ابتدا میں اس سے سرزد ہونے والی غلطیوں کو کشادہ ذہن اور قلب کے ساتھ درگزر کرے۔
اس کی دل جوئی کرے، اسے محبت اور اپنے بھرپور ساتھ کا یقین دلائے، اسی طرح بیوی پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جلد از جلد اپنے نئے رشتوں اور نئے ماحول میں خود کو ڈھالنے کی کوشش کرے اور ناخوش گوار باتوں کو بھی صبر اور تحمل سے سن کر عقل مندی سے ردعمل کا اظہار کرے، اپنے شوہرکو اپنی محبت اور ساتھ کا یقین دلائے اور اسے خوش رکھے جو کہ ایک لڑکی کا فرض ہے۔
ایک دوسرے کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال اور ایک دوسرے کی خواہشات کا احترام کر کے اس رشتے کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے، ایک دوسرے کو تحائف دیں، اس سے آپس میں محبت بڑھتی ہے۔ ساتھ ہی سیر و تفریح بھی ازدواج کے مزاج پر مثبت اثر ڈالتی ہے۔
میاں بیوی ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں اگر یہ غیر متوازن ہونے لگیں، تو زندگی کا سفر کٹھن ہو جاتا ہے۔ اس لیے اللہ کی طرف سے دیے گئے اس رشتے کی صورت میں دیے گئے۔ اس اَنمول تحفے کی حفاظت میں اور بیوی دونوں کی ذمہ داری ہے۔
Courtesy: http://www.express.pk/story/332479/



Course on Marriage-Marital Relationship

Marriage is a blessing from Allah swt and is a way to Jannah if we really think. In Today's materialistic World everyone is walking behind so many things for gaining peace. We come across so many disputes of Husband and Wife which at last leads to Divorce/Qula, May Allah swt save us from these words even, ameen. If you are not happy with your spouse or you are not happy with your in-laws or your spouse doesn't care for you or your parents or you are about to get separated or you are about to get married or recently married or want to improve your relation with the people around you or want to volunteers in saving relations.........than the below Workshop is for you. Alhamdulillah this kind of Workshop are not helpful for our own life but with this we can spread the message of Islam to build peaceful relations. Please attend the below, you can attend with your spouse as well.

InshaALLAH the workshop will be interactive, activity oriented and will have a great learning for both couples and individuals. (Please refer the attached)

The details of the workshop are given below, as well as in the attachment.

Hurry up! As number of participants is going to be limited to 40 only.

1 Day Workshop on Marital Relationship.

Date & Day: 14-March-2015,  Saturday
Timing: 9 am to 5 pm.
Venue: Khaja Shouq Hall (Air Conditioned), Urdu Masken, Khilwat, Hyderabad.
Fee: Rs. 500/- Per Person; Rs. 850/- Per Couple. (Workshop kit, Lunch and Tea included).

Passes & Payment can be availed from 
The Quran Foundation office, Adams Colony, Tolichowki or 
Maktaba Noor Ul Islam, New Road, Shah Ali Banda 

or I can be called on 9440371031 after registering on the link given below.

Payment can also be made online to: (Please mention your name and mobile number in payment remarks)

Syed Ali Luqman Hussaini,
State Bank of India, A/c no: 31219374876,
Branch: Balkampet,
IFSC: SBIN0003607.

After payment the person can register on the link below. 


No comments:

Post a Comment